
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ زیب بلوچ کو اپنے والد شفیق الرحمان زہری کی جبری گمشدگی کے خلاف حب پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے آن لائن پریس کانفرنس کے ذریعے اپنا مؤقف پیش کیا۔
ماہ زیب بلوچ کے مطابق حب پریس کلب کو تالہ لگا کر پولیس تعینات کی گئی تاکہ وہ اپنے والد کی جبری گمشدگی کے خلاف میڈیا سے بات نہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر سڑک پر پریس کانفرنس کی کوشش کی گئی تو تھری ایم پی او سمیت دیگر قوانین کے تحت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
آن لائن پریس کانفرنس میں ماہ زیب بلوچ نے کہا کہ ان کے والد شفیق الرحمان زہری، جو پیشے کے اعتبار سے پروفیسر اور سماجی کارکن ہیں، کو گزشتہ روز حب میں واقع ایک ریکوری سینٹر سے مسلح افراد نے اغوا کیا۔ ان کے مطابق اغوا کے دوران سینٹر میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے توڑے گئے اور ان کے والد کو تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی ساتھ لے جایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کے فوراً بعد حب تھانے میں درخواست جمع کرائی گئی، تاہم کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی اور نہ ہی ان کے والد کو منظرِ عام پر لایا گیا۔
ماہ زیب بلوچ نے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں، ان کے والد 2013 میں بھی حب چوکی سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے اور پندرہ روز بعد تشدد زدہ حالت میں بازیاب ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے چچا راشد حسین بروہی کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا، جو سات سال گزرنے کے باوجود تاحال لاپتہ ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کے علاوہ کون سی ریاست میں شہریوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے، پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی اور پریس کلبوں کو پریس کانفرنس کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس سے روکنا صحافت پر قدغن اور شہریوں کے آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ماہ زیب بلوچ نے ریاست اور حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ ان کے والد شفیق الرحمان زہری اور چچا راشد حسین بروہی کو فوری طور پر باحفاظت بازیاب کیا جائے اور انہیں آئین کے مطابق انصاف فراہم کیا جائے۔
