بلوچ بچیوں کا اغوا | عزیز سنگھور

زرمبش مضمون

بلوچ معاشرہ صدیوں پرانی تہذیبی روایات، اصولوں اور اقدار کا امین ہے۔ یہاں عزت، غیرت، احترام اور اجتماعیت وہ ستون ہیں جن پر بلوچ سماج کی عمارت کھڑی ہے۔ اسی لیے بلوچ روایات میں عورت اور بچے کو ہمیشہ جنگ و تنازعے سے محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ دشمنوں کے درمیان شدید ترین لڑائی کیوں نہ ہوتی، عورتیں اور بچے “امان” کے دائرے میں آتے تھے، ایک ایسی اخلاقی حد جسے پار کرنا گناہ کے مترادف تھا۔ مگر آج، حکومتی جبر کے سائے میں انہی اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہے، اور بلوچ خواتین پر ہاتھ ڈالنا معمول بنتا جا رہا ہے۔

اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ حب چوکی کے صنعتی شہر سے سامنے آیا، جس نے پورے بلوچستان میں خوف اور اضطراب کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ 22 نومبر 2025 کی رات تقریباً بارہ بجے سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے حب چوکی کے علاقے دارو ہوٹل میں ایک گھر پر غیر قانونی چھاپہ مارا اور 15 سالہ نسرینہ دختر دلئور بلوچ، جو آواران کے علاقے تیرتیج سے تعلق رکھتی ہیں، کو زبردستی حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ نہ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی، نہ کسی پولیس اسٹیشن نے گرفتاری کی تصدیق کی۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ نسرینہ بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔

بلوچ وومن فورم کی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ نے نسرینہ کی جبری گمشدگی کو بلوچ سماجی ڈھانچے پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اداروں کی منظم پالیسی ہے، جس کا مقصد بلوچ معاشرے کی اخلاقی اساس کو مجروح کرنا ہے۔ ڈاکٹر شلی نے فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کسی طور قبول نہیں کی جائے گی۔

نسرینہ بلوچ کا واقعہ وہ پہلا زخم نہیں، بلکہ ان المناک سلسلوں کا حصہ ہے جو گزشتہ برسوں سے مسلسل دوہرائے جا رہے ہیں۔ 29 مئی 2025 کو عین رات کے سناٹے میں کوئٹہ سول اسپتال سے 24 سالہ ماہ جبین بلوچ کو جبراً اغوا کر لیا گیا۔ ماہ جبین کا تعلق بسیمہ سے ہے اور وہ بلوچستان یونیورسٹی میں لائبریری سائنس کی طالبہ تھیں۔ وہ بچپن میں پولیو کا شکار ہوئی تھیں اور ایک پاؤں سے معذور تھیں، مگر اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے تھیں۔ مگر ریاستی جبر نے نہ ان کی معصومیت کا احترام کیا، نہ معذوری کا۔ انہیں زبردستی ایک گاڑی میں ڈال کر لے جایا گیا اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

ماہ جبین کے بھائی محمد یونس کو 24 مئی 2025 کی رات دو بجے کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ یونس خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے محنتی طالبعلم تھے۔ عوامی ردعمل کے بعد کئی ماہ کی اذیت کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا، مگر ماہ جبین آج بھی ریاستی عقوبت خانوں میں زندگی اور موت کے درمیان معلق ہیں۔

ماہ جبین کے واقعے کا زخم ابھی تازہ تھا کہ 30 جون 2025 کو بلوچ خواتین کو نشانہ بنانے کی ایک اور مثال سامنے آئی۔ روبینہ بلوچ دختر محب اللہ، جو ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ سے تعلق رکھتی تھیں اور ایک سرکاری لیڈی ہیلتھ وزیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں، کو تربت کے علاقے اوورسیز کالونی سے زبردستی اٹھا لیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، سادہ لباس اہلکار انہیں چند لمحوں میں گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ پورا علاقہ خوف میں ڈوب گیا۔ روبینہ بلوچ کو ایک روز بعد چھوڑ دیا گیا، مگر ان کی رہائی اس خوف کو کم نہ کر سکی جو بلوچ خواتین کے گرد بڑھتا جا رہا ہے۔

یہ واقعات ریاستی پالیسی کی اس تبدیل ہوتی جہت کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں خواتین کو نشانہ بنانا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ بلوچستان جیسے روایتی معاشرے میں عورت کو ہاتھ لگانا دشمنی میں بھی حرام سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہ حدیں مٹتی نظر آ رہی ہیں۔

اسی طرح 14 اگست 2025 کے روز کوئٹہ کے علاقے لوہڑ کاریز میں ایک اور دل دہلا دینے والا آپریشن کیا گیا۔ پاکستان کے یومِ آزادی پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کارروائی کرتے ہوئے ایک بلوچ خاتون سمیت متعدد افراد کو اغوا کر لیا۔ ان میں نمرہ کرد زوجہ جمیل کرد بھی شامل تھیں، جنہیں ان کے گھر پر چھاپہ مار کر وارنٹ دکھائے بغیر گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں سات روز تک عقوبت خانے میں اذیت دی گئی اور عوامی احتجاج کے بعد رہا کر دیا گیا۔

یہ واقعات سفید فام دہشت اور کالے قانون کی اس حکمرانی کا عکس ہیں جس کے تحت بلوچ خواتین، طالبات، ہیلتھ ورکرز اور گھریلو خواتین تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ جنگ اب صرف سیاسی نہیں رہی، بلکہ اخلاقیات، سماجی اقدار اور انسانی اصولوں کے خلاف جنگ بن چکی ہے۔

اگر کوئی ریاست معذور طالبعلموں سے خوف کھانے لگے، اگر وہ خواتین کو لاپتہ کرے، اگر اس کے لیے قانون کی حد بے معنی ہو جائے، تو یہ اس کی طاقت نہیں، اس کی اخلاقی شکست ہوتی ہے۔ طاقت کے ایوانوں میں فیصلہ ساز شاید یہ سمجھتے ہوں کہ خواتین کو نشانہ بنا کر بلوچ معاشرے کو توڑا جا سکتا ہے؛ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدامات ریاست کے خلاف نفرت اور مزاحمت کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شلی بلوچ کے الفاظ بلوچ سماج کی سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں: “ہماری خواتین کی جبری گمشدگی بلوچ معاشرے کی اخلاقی بنیادوں پر حملہ ہے۔ ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔”

بلوچ عوام کا ضمیر زندہ ہے اور یہی سب سے بڑی طاقت ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ