تیرہ نومبر — شہداء کا دن، تاریخ کا سمندر ہے!

تحریر: رامین بلوچ

تیرہ نومبر بلوچ قومی تاریخ کا وہ دن ہے جس نے بلوچ قوم کی یادداشت، سیاسی شعور، فکری و عملی مزاحمت، اور آزادی کی لازوال جدوجہد کو ایک محور میں سمو دیا ہے۔ یہ دن محض ایک تاریخ نہیں، ایک عہد ہے،قربانی، مزاحمت، تشخص، شناخت، اور آزادی کے اُس سفر کی سالگرہ جو بلوچ قوم 186 برسوں سے پورے عزم و ایقان کے ساتھ طے کر رہی ہے۔تیرہ نومبر اس عزم کی تجدید ہے کہ شہداء کا خون تاریخ کا وہ سمندر ہے جس کی ہر لہر سے آزادی کے نئے جنم پوٹھتے ہیں۔1840 کی دہائی سے بلوچ وطن پر برطانوی قبضے، انتظامی جبر، معاشی کنٹرول فوجی ونوآبادیاتی تسلط کے خلاف بلوچ قوم کی مزاحمتی تحریک ایک مسلسل تاریخی دھارا ہے۔اسی لیے 13 نومبر اس جدوجہد کے 186 ویں سال میں داخل ہونے کا دن بھی سمجھا جاتا ہے،یعنی آزادی کی اس تاریخ کو بطور ایک غیر منقطع تسلسل کے تسلیم کرنا۔

تیرہ نومبر بلوچ تاریخ میں اُن شہداء کی یاد کا دن ہے جنہوں نے مختلف ادوار میں برطانوی نوآبادیاتی تسلط، اورپنجابی ریاستی قبضہ کے خلاف اپنی قومی آزادی اور خود اختیاری کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے جدوجہد اور مزاحمت کے اس میراث کو زندہ رکھا جس کی سنگ وخشت شہید محراب خان نے اپنی خون کی بلیدان سے رکھی تھی۔ اور یہ خراج 21ویں صدی میں بھی لاتعداد شہداء اپنی جانوں کی قیمت پر ادا کررہے ہیں،اور جدوجہد کے اس بہتے سمندر کو اپنی خون سے لال کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تاریخی ادوارتیرہ نومبر کے دائرے میں سمٹ کر ایک قومی یادگار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔تیرہ نومبر کا مقصد صرف ماضی کی قربانیوں کو یاد کرنا نہیں، بلکہ یہ احساس تازہ کرنا بھی ہے کہ آزادی ایک مسلسل جدوجہد ہے، اور ہر نسل اس جدوجہد کی امین ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ شہداء کا خون بلوچ قومی تاریخ کا سمندر ہے جس کی ہر بوند ایک فکری موج ہے،ہر لہر مزاحمت کا اعلامیہ ہے،اور ہر طغیانی آزادی کی سمت بڑھنے والی قوت۔شہداء نے اپنی جان دے کر ثابت کیا کہ ظلم طاقتور ہوسکتا ہے، مگر وہ دائمی نہیں ہوتا۔مزاحمت سست رو ہو سکتی ہے، مگر اس کے پیچھے تاریخ کا رُخ ہوتا ہے۔اس دن کا مقصد یہ یاد رکھنا ہے کہ شہداء نے صرف جانیں نہیں دی،انہوں نے ایک فکری سمت، ایک سیاسی بیانیہ، اور ایک قومی عہد چھوڑا ہے۔ کہ آزادی وہ مقصد ہے جس کی حفاظت قوم کا ہر فرد اپنے خون سے کرتا ہے۔تیرہ نومبر بلوچ تحریکِ آزادی کے ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان ایک ایسا پل ہے جو قربانی کے ستونوں پرکھڑا ہے۔ بلوچ شہداء کا خون تاریخ کا وہ سمندر ہے جس کی لہریں آزاد مستقبل کی طرف بڑھتی ہیں،جس کی گہرائی میں استقلال کی طاقت پوشید ہے،اور جس کا شور مقبوضہ قوم کو آزادی کا پیغام پہنچاتاہے۔
بلوچ قومی تحریک کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تاریخ کو کسی ایک دورانیے، کسی ایک واقعے، یا کسی مخصوص سیاسی موڑ تک محدود نہ کیا جائے۔ بلوچ قوم کی مزاحمت کا سلسلہ محض آج کی صدی یا چند دہائیوں کا نہیں بلکہ تقریباً دو صدیوں پر محیط ایک زندہ اور مسلسل جدوجہد ہے۔ یہ تحریک بلوچ سرزمین، بلوچ قومی شناخت، تاریخی خود مختاری، اور استعماری طاقتوں کے مقابلے میں آزادی کے بے مثال شعور سے جنم
لیتی ہے۔ اس کا فکری سرچشمہ اُس وقت سے جاری ہے جب دنیا بھر میں سامراج اپنے پنجے گاڑ رہا تھا، اور کمزور اقوام اپنے وجود کے لیے لڑ

رہی تھیں۔ بلوچ تحریکِ آزادی انہی مزاحمتی تحریکوں میں سے ایک قدیم اور مضبوط تحریک ہے۔
بلوچ وطن کی تاریخ محض ایک خطے کی تاریخ نہیں بلکہ ایک ایسی قوم کی شعوری، مزاحمتی اور سیاسی روایت کا استعارہ ہے جس نے صدیوں تک اپنی شناخت، آزادی اور ریاستی وحدت کو برقرار رکھا۔ بلوچ قوم کی سیاسی خود مختاری، اور جغرافیائی مرکزیت نے اسے ہمیشہ ایک منظم اور مضبوط وحدت کے طور پر قائم رکھا۔ 19ویں صدی کے آغاز تک بلوچستان ایک تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی حقیقت کی شکل میں موجود تھا اپنی حکومت، اپنا نظم، اپنی کرنسی، اپنی فوج اپنی خارجہ پالیسی، اور اپنی داخلی انتظامیہ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان صدیوں تک ایک خود مختار خطہ اور منظم ریاستی وحدت کی حیثیت رکھتا رہا۔ اور اپنی ساخت میں ایک تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی حقیقت تھی۔ 19ویں صدی کے آغاز میں جب برطانیہ نے ہندوستان کے اندرونی حصوں میں قدم جما لیے تو اس کی توجہ شمال مغرب کی طرف مبذول ہوئی اور پھر افغانستان تک پہنچنے کی حکمتِ عملی بنائی تو بلوچستان اس کے لیے نہایت اہم بن گیا۔اس مقصد کے لیے بلوچستان ایک قدرتی و جغرافیائی دروازہ تھاجس پر قبضہ کیے بغیربر طانوی سامراج اپنی عسکری اور سیاسی حکمتِ عملی مکمل نہیں کرسکتا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جہاں سے بلوچ مزاحمت کی جدید شکل کا آغاز ہوتا ہے۔برٹش سامراج نے بلوچستان کو اپنی توسیع پسندی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، بلکہ ایک شکار کی طرح دیکھا۔مگر بلوچ قوم نے اسے ایک چیلنج سمجھا اور اپنی صدیوں پر قائم ریاستی حیثیت کے دفاع کے لیے کھڑی ہوگئی۔برطانوی سامراج جب بلوچستان کی خود مختار وحدت کے دروازے پر دستک دینے لگی تو وہ یہ سمجھتی تھی کہ اس کی عسکری قوت اور سیاسی دھونس کے آگے بلوچ قوم جھک جائے گی۔مگر اسے جلد ہی اندازہ ہوا کہ بلوچ قوم کی ساخت محض قبائلی نہیں، بلکہ آزادی کے اصول پر قائم ایک سیاسی وحدت ہے۔
برطانوی سامراج جب اپنی طاقت کے زعم میں بلوچستان کی تہذیبی، سیاسی اور جغرافیائی وحدت کو چیلنج کرنے لگا تو بلوچ قیادت نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ کہ بلوچستان کی شناخت، اس کی ریاست، اور اس کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گایہ وہ لمحہ تھا جب تاریخ نے بلوچ قومی تحریک کی پہلی بڑی علامت شہید میر محراب خان کو سامنے لایا۔محراب خان محض ایک حکمران نہیں تھے،وہ بلوچ سیاسی وراثت، عسکری شجاعت، اور قومی غیرت کے امین تھے۔آج کی بلوچ قومی تحریک اسی کی تسلسل، اسی فکری تاریخ، اور اسی سیاسی وراثت کا نتیجہ ہے۔
1839 میں جب انگریزوں نے بلوچستان پر چڑھائی کی تیاری کی، تو میجر ولشائر نے شہید محراب خان کو ایک مراسلہ بھیجا۔ اس مراسلے میں چند شرائط تھیں،قلات کو برطانوی کنٹرول میں دینا،ہتھیار ڈالنے کا حکم،سیاسی ماتحتی قبول کرنااور اپنی آزادی سے دستبرداری یہ وہ سامراجی
شرائط تھیں جو کسی بھی آزاد قوم کو قبول نہیں ہوسکتیں، اور نہ ہی محراب خان جیسے بہادر قائد اسے قبول کرسکتے تھے۔محراب خان نے اس مراسلے کا جواب ایک دھمکی نہیں، ایک تاریخی اعلان کے طور پر دیا”اگر انگریز قلات پر حملہ کرے گا تو میں ایک بلوچ سپاہی کی طرح آخری سانس تک لڑوں گا اور اپنے وطن کے دفاع کے لیے اپنی جان قربان کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گا۔“یہ وہ جواب تھا جس نے بلوچ قومی تحریک کے فکری ڈھانچے کی پہلی اینٹ رکھی۔یہ جواب صرف ایک شخص کا نہیں تھا بلکہ بلوچ قوم کے قومی فخر، تہذیبی وقار اور تاریخ آزادی کا اعلان تھا۔جب انگریزوں نے قلات پر حملہ کیا تو محراب خان نے اپنے مختصر لشکر کے ساتھ مقابلہ کیا۔مزاحمت کے دوران شہید

ہوکرثابت کیا کہ قبضہ گیر کے سامنے جھکنا بلوچ قوم کی تاریخ و روایت کی توہین ہے۔شہید محراب خان کی شہادت نے بلوچ مزاحمت کی روح میں وہ آگ بھردی جو آج 186 سال بعد بھی بجھی نہیں۔ان کی قربانی نے تاریخی تسلسل میں مزاحمت کا پہلا سنگِ بنیاد رکھا، جس کے بعد ایک کے بعد ایک نسل نے آزادی کے خواب کو آگے بڑھایا۔اسی وراثت نے بلوچ تحریک کو ایک تاریخی، فکری اور اخلاقی سمت دی۔
اسی وراثت نے ہر دور کے شہداء کو حوصلہ دیا کہ مزاحمت کا راستہ مقدس ہے۔
بلوچستان کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی اُن عظیم جدوجہدوں میں شمار ہوتی ہے جنہوں نے نہ صرف نوآبادیاتی سامراج کے مقابلے میں ایک محکوم قوم کی مزاحمت، جرات اور خودداری کو زندہ رکھا بلکہ آزادی، وقار، شناخت اور خود اختیاری کے اُن اقدار کو بھی ایک عالمی تصور کی حیثیت دی جو انسان کی فطری ضرورت ہیں۔ یہ تحریک ایک طویل، مسلسل اور فکری سفر ہے جس نے بلوچ قوم کے شعور کو نہ صرف بیدار کیا بلکہ اسے ایک زندہ، منظم اور نظریاتی قوم کی حیثیت بھی عطا کی۔بلوچ سرزمین کی تاریخ اس حقیقت سے عبارت ہے کہ یہاں کی، آزادی، وسائل اور جغرافیائی ساخت ووحدت ہمیشہ بیرونی طاقتوں کی نظر میں رہی۔ 19ویں صدی میں جب برطانوی سامراج نے تقسیم، معاہدات اور عسکری قوت کے ذریعے بلوچستان کو اپنے تسلط میں لینے کی کوشش کی تو بلوچ مزاحمت کا پہلا جدید باب شروع ہوا۔ انگریزوں کے خلاف یہ جدوجہد کسی وقتی ردِ عمل کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اپنی مٹی، اپنی آزادی اور اپنی نیشنلزم کے اصولی دفاع کی ایک روشن مثال تھی۔ محراب خان کی شہادت، برطانوی جارحیت کے خلاف قومی مزاحمت، اور قوم کی اجتماعی نفسیات میں آزادی کا مضبوط احساس وہ بنیادیں تھیں جنہوں نے آنے والے ہر دور میں تحریکِ آزادی کے تسلسل کو برقرار رکھا۔

1947 میں ہندوستان کی غیر فطری تقسیم کے بعد برطانوی سامراجی ڈھانچے کا بوجھ نیا روپ اختیار کر گیا۔ بلوچ قوم، جو اپنی تاریخی ریاستی شناخت رکھتی تھی، اس سے اپنی آزادی اور خودمختار حیثیت چھین لی گئی۔ 27 مارچ 1948 کی جبری الحاقی کارروائی بلوچ تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے، جب ایک زندہ اور آزاد قوم کو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی طاقت کے ذریعے مقبوضہ بنایا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مزاحمت کا دوسرا دور شروع ہوا، اور جدید سیاسی جدوجہد، مسلح مزاحمت، سفارتی کوششیں اور فکری تحریک ایک نئے تسلسل کے ساتھ سامنے آئیں۔بابا خیر بخش مری، ، شہید اکبر خان بگٹی شہید غلام محمد بلوچ اور بعد میں ابھرنے والی نئی جہدکار نسل نے اس تحریک کی فکری و حربی بنیادوں کو تقویت دی۔ انہوں نے نہ صرف غلامی کے خلاف مزاحمت کو سیاسی فلسفے کی شکل دی بلکہ اسے مزاحمتی مورچوں تک وسعت دی۔
بلوچ تحریکِ آزادی کی سب سے نمایاں اور روشن خصوصیت اُس کی قربانیوں کی لمبی اور نہ ٹوٹنے والی زنجیر ہے۔ ہزاروں شہدا، گھروں سے بے گھر ہونے والے خاندان، جبری گمشدہ افراد کے دکھ، اجتماعی قبریں، ریاستی جبر، فرضی مقابلوں میں قتل عام یہ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ بلوچ قوم نے آزادی کے لیے اپنے خون کا وہ فرض ادا کیا ہے جو کسی بھی زندہ اور باشعور قوم کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔

21ویں صدی میں بلوچ آزادی کی تحریک نے خود کو سیاسی، سفارتی، سماجی و ڈیجیٹل محاذوں، انسانی حقوق کے پلیٹ فارمز اور بین الاقوامی فورمز پر نئے انداز میں منظم کیا ہے۔ یہ تحریک اب صرف پہاڑوں اور مورچوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ علم، دلیل، تحقیق، پالیسی اور عالمی انسانی حقوق کے ڈسکورس کا حصہ بن چکی ہے۔ بلوچ مزاحمت کاروں اور شہداء نے اپنی بے مثال قربانیوں سے ثابت کیا ہے کہ طاقت صرف ہتھیاروں میں نہیں بلکہ اصولوں، اخلاقی جواز اور فکری استقلال میں بھی ہوتی ہے۔آج کا بلوچ نوجوان پہاڑی محاذ سے لے کر تحقیقی اداروں تک، صحافت سے لے کر سفارتی سرگرمیوں تک، ایک منظم اور باشعور قوم کی طرح آزادی کے مقدمے کو عالمی سطح پر پیش کر رہا ہے۔ بلوچ آزادی کی تحریک اس بنیادی اصول پر قائم ہے کہ آزادی انسان کا فطری، غیرقابلِ تنسیخ اور تاریخی حق ہے۔ یہ تحریک قومی شعور، فکری وضاحت، سیاسی بصیرت اور قربانی کے فلسفے کا یکجا اظہار ہے۔ بلوچ شہداء نے ثابت کیا ہے کہ غاصب قوتیں قوموں کو وقتی طور پر زیر کر سکتی ہیں، مگر ان کے نظریات، ان کے خواب، ان کی مزاحمت اور ان کی شناخت کو کبھی ختم نہیں کر سکتیں۔یہ جدوجہد آج بھی اسی عزم، اسی تسلسل اور اسی جذبے کے ساتھ جاری ہے جو ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ پہلے، 186 سال قبل، اس سفر کے آغاز پر موجود تھا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

خضدار کے بولان ایریا میں فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق

اتوار نومبر 16 , 2025
خضدار کے بولان ایریا میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ایک شخص جاں بحق ہوگیا، پولیس کے مطابق مقتول کی شناخت محمد اشرف ولد حمزہ میراجی کے نام سے ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق محمد اشرف، اسما جتک کے ماموں تھے۔ یاد رہے کہ اسما جتک اغوا کیس رواں سال […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ