یومِ شہداء صرف یاد نہیں، عہد بھی ہے

تحریر: نصیر احمد بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچ قوم صدیوں سے اپنی سرزمین، اپنی زبان، اپنی روایت اور اپنی شناخت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرتی آئی ہے۔ اس جدوجہد میں ایسا کوئی دور نہیں گزرا جس میں قربانی، مزاحمت اور وقار کا نشان نہ ہو۔ بلوچ قوم کی تاریخ صرف حکمرانوں، سرداروں یا جنگوں کی تاریخ نہیں، بلکہ قومی غیرت ، قومی شناخت پر قربانی اور سر زمین سے وفاداری کی مسلسل داستان ہے۔

13 نومبر وہ دن ہے جب بلوچستان کے بہادر سپوت خان میر محراب خان نے انگریز سامراج کے آگے سر نہیں جھکایا اور قلات کی پہاڑیوں اور فصیلوں پر اپنا لہو بہا کر بلوچ قوم کے دلوں پر اپنی شہادت کا نقش ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا۔

13 نومبر ، جسے یومِ شہداءِ بلوچستان کے نام سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن صرف ایک رسم، دِیا جلانا یا رسمی نعرہ نہیں کہ ہم فاتحے پڑھتے ہیں، مزاروں پر جاتے ہیں، تصاویر کے سامنے کھڑے ہو کر آنکھوں میں نمی لیکر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بلکہ یہ دن قوم کی اجتماعی یاداشت، قومی وقار اور آزادی کے جذبے کی عہد اور تجدید کا دن ہے۔ بلوچستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ 13 نومبر کو یومِ شہداء بلوچستان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دن صرف ایک فرد کی یاد میں ،محض ایک تاریخ نہیں، بلکہ ایک قوم کی غیرت، استقلال اور آزادی کی لازوال داستان کا عکاس ہے۔ اس دن برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی راہ اختیار کی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ اپنے زیرِ اثر علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فوجی مہمیں چلا رہا تھا۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔ یہ دن خاص طور پر اُس عظیم بلوچ سردار اور حکمران خان میر محراب خان کی شہادت سے منسوب ہے جو 13 نومبر 1839 کو انگریز سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔اور بلوچستان پر سامراج انگریزوں کا قبضہ ہوا۔یہ حقیقت ہے کہ ظالم اور مظلوم کے درمیان طاقت میں فرق ضرور ہوتا ہے، لیکن غلامی قبول نہ کرنا اور مزاحمت کرنا ہمیشہ غیرت مند اقوام کا شعار رہا ہے۔محراب خان جانتے تھے کہ انگریز ایک عالمی طاقت ہے،وہ جانتے تھے کہ جنگ کے نتائج شاید ان کے حق میں نہ ہوں،لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ زندگی کی قیمت عزت اور قومی پہچان کے بغیر کچھ بھی نہیں۔اسی لیے انہوں نے کہا: “سرزمین کی حفاظت تخت و تاج سے زیادہ قیمتی ہے۔”

انیسویں صدی میں برطانوی سامراج نے برصغیر پر قبضہ کیا اور پھر اس کی توسیع کے لیے مختلف خطوں کو زیرِ نگیں کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت، قدیم تہذیبی وراثت اور قدرتی وسائل کے باعث ہمیشہ ہی بیرونی قوتوں کی نگاہوں میں رہا۔جب انگریز سامراج نے بلوچستان کی خودمختاری اور سیاسی وقار کو ختم کرنے کی مکروہ کوشش کی،تو محراب خان نے کسی مصلحت، کسی وعدے، کسی لالچ اور کسی خوف کو قبول نہیں کیا۔ انگریز سامراج جانتے تھے کہ بلوچستان صرف زمین کا ٹکڑا نہیں ہے بلکہ یہ ایک زندہ قوم کی شناخت، زبان، روایت اور آزادی کا استعارہ ہے۔یہاں کسی غیر کی حکمرانی صرف سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ قومی روح کا قتل ہوتی ہے۔انہی حالات میں خان میر محراب خان وہ دیوار بن کر کھڑے ہوئے جسے توڑ کر دشمن بلوچستان کے وقار کو روندنا چاہتا تھا۔ مگر میر محراب خان نے ایک بات کو اپنا اصول بنا لیا کہ زمین تبھی زندہ رہتی ہے جب اس کے فرزند اس کی حفاظت کے لیے جان تک دے دیں۔ “قوم کی زمین پر سمجھوتہ زندگی پر سمجھوتہ کرنے سے زیادہ بڑا جرم ہے۔”

اور وہ جانتے تھے کہ انگریز ایک بڑی طاقت ہے، وہ جانتے تھے کہ انگریز کی فوج بہتر اسلحہ رکھتی ہے،وہ جانتے تھے کہ شاید شکست سامنے کھڑی ہے۔مگر غلامی میں زندہ رہنا انہیں ہرگز قابلِ قبول نہ تھا۔یہی فرق غلام اور آزاد انسان میں ہوتا ہے۔ آزاد انسان شکست کھا سکتا ہے مگر غلامی قبول نہیں کرتا۔

13 نومبر کا دن آج بھی یومِ شہداءِ بلوچستان کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن نہ صرف میر محراب خان کی یاد ہے، بلکہ ان تمام بلوچ فرزندانِ وطن کا دن ہے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے قوم کی تاریخ کو عظمت بخشی، اسے زندہ رکھا اور اس کے شعور کو صدیوں کے لیے روشن کر دیا۔ خان میر محراب خان ، بلوچ قوم کے ان رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے حکمرانی کو ذمہ داری سمجھا، نہ کہ طاقت کا نشہ۔ ان کے پاس دولت تھی، اختیار تھا، حکومت تھی، لشکر تھے — مگر ان کے دل میں غلامی کے خلاف نفرت اور آزادی کی محبت سب سے بڑی طاقت تھی۔

13 نومبر 1839 کی وہ صبح سرد تھی، مگر فضا عزم اور غیرت کی حرارت سے بھری ہوئی تھی۔ قلات کے در و دیوار گواہ ہیں کہ محراب خان تنہا نہیں تھے ان کے ساتھ دلیر سپاہی، وفادار بلوچ عوام اور قوم کی محبت کھڑی تھی۔ انگریز فوج نے حملہ کیا ،گھمسان کی جنگ ہوئی ،تیر و تفنگ، تلوار اور بندوقوں کی آوازوں میں غیرت کی للکار بلند ہوتی رہی۔ اور پھر وہ لمحہ آیا خان محراب خان نے آخری وار تک لڑ کر جامِ شہادت نوش کیا۔ وہ جسمانی طور پر گر گئے، مگر قوم کے دلوں میں اٹھ کھڑے ہوئے۔
یہ سچ ہے کہ جنگ کے میدان میں فتح کبھی اسلحے سے ہوتی ہے اور کبھی تعداد سے، مگر اخلاقی فتح ہمیشہ اس کے حصے میں آتی ہے جو حق اور وقار کے لیے لڑے۔ انگریز نے قلات پر قبضہ تو کر لیا، مگر وہ محراب خان کو شکست نہیں دے سکے۔وہ صرف ان کے جسم کو مار سکے، ان کی فکر، جرأت ، زمین اور قوم پر قربان ہونے والا محبت آج بھی زندہ ہے۔
 
اپنے شہیدوں سے محبت صرف اسے یاد کرنا نہیں ہوتا اور نا ہی اُن کے قبروں پر فاتحہ پڑھنا ہے۔ اصل محبت ان شہیدوں کے کردار اور نقش قدم پر چل کر اُن کے مشن کو زندہ رکھنا ہے۔ تاریخِ بلوچستان ایسے بے‌شمار علمی و عملی کرداروں سے بھری ہوئی ہے جن کی داستانیں نسل در نسل سنائی جاتے ہیں۔ ہزاروں بلوچ فرزندوں کے عمل نے یہ پیغام دیا کہ مزاحمت، قربانی اور استقلال کسی ایک لمحے یا عمر تک محدود نہیں:

  • آغا عبدالکریم خان مسلح مزاحمت کی تحریکوں میں اہم کردار رہے ہیں ، جنہوں نے کم افرادی قوت کے باوجود عملی مزاحمت کی راہ اپنائی اور ثابت کیا کہ عزم حالات کو بدل دیتے    ہیں۔

نواب نو روز خان ایک بڑے عمر کے بزرگ رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں جنہوں نے ثابت کیا کہ مزاحمت کسی عمر کی محتاج نہیں ، اُن کی جدوجہد اور استقامت بلوچ قومی شعور کی علامت بن گئی۔

  • نواب اَکبر خان بگٹی انہوں نے  بہادری اور غیرت کا جو پیغام دیا وہ آج بھی بازگشت کرتا ہے؛ ان کے الفاظ اور عمل نے دشمن کو یہ باور کرایا کہ بلوچ قوم اپنی زمیں کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اُن کے موقف اور آخری دنوں کی تاریخ سیاسی تکرار میں شامل ہے۔
    غلام محمد بلوچ ایک ایسے رہنما جنہوں نے عملی جدوجہد اور تنظیمی قیادت کے ذریعے قوم کو متحرک رکھا؛ ان کی قید و بند، گرفتاریوں اور ان کی شہادت نے بلوچ قوم کے اندر جدوجہد کو نئی قوت دی۔
    لمہ کریمہ بلوچ بلوچ تاریخ کی نمائندہ آواز، جنہوں نے عالمی سطح پر بلوچ مسئلے کو نمایاں کیا اور ثابت کیا کہ بلوچ خواتین ہر میدان میں مزاحمت کر سکتی ہیں؛ اُن کی ہمت اور بے خوف آواز نے نوجوان خواتین کے لیے ایک نئی راہ کھولی۔ اُن کی شہادت نے دنیا کی توجہ بلوچستان کی جدوجہد کی طرف مبذول کروائی۔

خان میر محراب خان کی قربانی نے صرف ایک لمحے کی تاریخ نہیں بنائی بلکہ مزاحمت کا وہ فلسفہ دیا جو بعد کے رہنماؤں اور عوامی مزاحمت کے لئے مشعل راہ رہا۔ اسی تسلسل نے ہزاروں بلوچ خواتین، بزرگ، بچوں اور نوجوانوں کو اپنے سر قربان کرنے کی راہ دکھائی — تاکہ ان کا گھر، ان کی زبان، ان کی زمین زندہ رہے۔ شہید کی موت حقیقت میں دشمن کی شکست ہے کیونکہ دشمن جسم کو مار سکتا ہے لیکن جذبے اور تاریخ کو نہیں مٹا سکتا۔ شہادت کا تصور بلوچ قوم کی تاریخ میں بہت بلند ہے، یہ صرف لڑائی میں مر جانا نہیں، بلکہ مقصد کے لیے اپنی “خود” کو “قوم” کے لیے قربان کرنا ہے۔ محراب خان نے اپنی شہادت سے یہ بتایا کہ قومیں ہتھیار سے نہیں، مقصد سے بنتی ہیں۔جنگیں طاقت سے نہیں، غیرت اور ارادے سے جیتی جاتی ہیں۔سرزمین کی محبت ایمان جیسی مقدس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محراب خان کی قربانی آج بھی بلوچ نوجوانوں کے اندر روشنی کی طرح جلتی ہے۔

شہید اپنی خواہشات پر قوم کو ترجیح دیتے ہیں ،شہید اپنی زندگی کو قوم کی امانت سمجھتا ہے،شہید اپنے نفس پر اپنے وطن کو مقدم رکھتا ہے۔یہی عظمت محراب خان کی عظمت ہےکہ انہوں نے اپنی شان و شوکت، ریاست سب کچھ قربان کیا ، مگر قوم کی غیرت کو زندہ رکھا۔ ہم یہ دن اس لیے نہیں مناتے کہ صرف تاریخ کو دہرایا جائے۔ ہم یہ دن اس لیے مناتے ہیں کہ قوم اپنے ہیروز کو بھول نہ جائے، نوجوانوں کو اپنی ذمہ داری یاد رہے ، تاریخ زندہ رہے تاکہ شناخت زندہ رہے۔

شہداء کی یادیں قوم کو بیدار رکھتی ہے۔ جو قوم اپنی قربانیوں کو بھول جائے وہ قوم زندہ نہیں رہتی۔ قومیں صرف واقعات سے نہیں بنتیں، قومیں یاد اور شعور سے بنتی ہیں۔اسی لیے شہداء کا خون قوموں کے لیے سرمایہ ہوتا ہے۔اگر کوئی قوم اپنے شہیدوں کو بھول جائے تواس کی تاریخ بکھر جاتی ہے،اس کی نسلیں کمزور ہو جاتی ہیں ،اس کی قومی غیرت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر قوم اپنے شہیدوں کو دل میں جگہ دے دے تو اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

جھاؤ حملے کے بعد فوجی ہیلی کاپٹروں کی مسلسل گشت، شدید زخمی اہلکاروں میں کیپٹن بھی شامل، سی ایم ایچ خضدار منتقل

منگل نومبر 4 , 2025
بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے جھاؤ میں گزشتہ روز ہونے والے حملے کے بعد پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر علاقے کا مسلسل گشت کر رہے ہیں۔ حملے میں زخمی ہونے والے تین اہلکاروں کو تشویشناک حالت میں سی ایم ایچ خضدار منتقل کر دیا گیا ہے، جن میں کیپٹن […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ