
بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے شہداء میموریل کونسل (شھمیرانی تاک) نے بلوچ شہداء کے لیے ایک مخصوص علامت جاری کر دی ہے۔ شھمیرانی تاک، جو بی این ایم کے انفارمیشن، آئی ٹی اور کلچرل ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرتا ہے، کا بنیادی مقصد بلوچ شہداء کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور انھیں ویب سائٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانا ہے۔
نئی علامت کے اجرا کے موقع پر بی این ایم کے انفارمیشن سیکریٹری نے ایک تفصیلی تحریر بھی شائع کی، جس میں اس علامت کے تاریخی، فلسفیانہ، ثقافتی اور فنی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس علامت میں دو متحد المرکز تہیں شامل ہیں، جن میں ہر ایک گہرا علامتی معنی رکھتی ہیں۔
ادارے کی جانب سے کی گئی اس نئی علامت کی تشریح کے مطابق ، اندرونی تہہ ایک 17 پھنکڑیوں والا کھلا ہوا پھول ہے، جو زندگی، روح اور تجدید کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے تین حصے ہیں: مرکز میں موجود گہرا سرخی مائل نکتہ قومی وحدت کی علامت ہے، اس کے گرد موجود دائرہ قوم کی بقا میں وحدت کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ پھول کی پتیاں شہداء کے کردار کی عظمت اور قومی احترام کی نمائندگی کرتی ہیں۔ 17 پھنکڑیاں روحانی توازن، ایمان اور تجدید کی علامت سمجھی جاتی ہیں، اور درمیان کی مکمل شبیہ کو گہرے سرخی مائل رنگ میں پیش کیا گیا ہے جو شہداء کے خون اور قربانی کی یاد دلاتا ہے۔
بیرونی تہہ روشن چمکدار سورج کی علامت ہے، جس کی 28 شعاعیں زندگی، تسلسل اور قربانی کی روشنی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ عدد 28 قمری چکر اور وقت کے تسلسل سے منسلک ہے اور اس کے چار برابر حصوں میں ہر حصے میں ‘7’ آتا ہے، جو عدل و انصاف اور شہداء کی بلاتفریق قربانیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ علامت کو دائرے کی شکل دی گئی ہے، جو حق کے لیے قربانی اور جہد مسلسل کی علامت ہے اور اس کا کوئی اختتام نہیں، حق کی جدوجہد نسل در نسل جاری رہتی ہے۔
رنگوں کی وضاحت میں بیرونی پرت یعنی سورج کی شعاعوں کے لیے سنہری پیلا رنگ (#F6BD17) اور اندرونی پرت اور پھول کے لیے گہرا سرخ (#640B0A) استعمال کیا گیا ہے۔
قاضی ریحان نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ یہ علامت بلوچ شہداء کے لیے دیرینہ خیال کا عملی اظہار ہے، جس میں تاریخی پس منظر، زمین سے تعلق اور ثقافتی اہمیت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچ تاریخی ورثہ کی حفاظت نہ ہونے کے باعث عوامی شعور میں اپنی تاریخ سے کٹاؤ پیدا ہوا ہے، اور اس علامت کے انتخاب کا مقصد اسی نفسیاتی خلا کو پر کرنا اور ثقافتی مزاحمت کو فروغ دینا ہے تاکہ نئی نسل اپنی تاریخ، علامت اور وراثت سے جڑ سکے۔
