
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین دہائیوں کے وقفے کے بعد نیوکلیئر ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق صدر نے محکمۂ جنگ کو ہدایت دی ہے کہ وہ امریکہ کی دفاعی برتری برقرار رکھنے کے لیے فوری طور پر نیوکلیئر تجربات کی تیاری شروع کرے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا کہ روس اور چین اپنی جوہری صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کر رہے ہیں جبکہ امریکہ نے 1992 کے بعد کوئی تجربہ نہیں کیا، جس سے اس کی دفاعی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ ان کے بقول اب وقت ہے کہ امریکہ “قیادت سنبھالے، نہ کہ پیچھے رہے۔”
ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ نیواڈا میں واقع نیوکلئیر ٹیسٹنگ سینٹر میں “سب کریٹیکل” نوعیت کے تجربات کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے امریکہ اپنے پرانے نیوکلیئر ذخائر کی جانچ اور جدید کاری کے عمل کو تیز کرے گا۔
چین نے اس اعلان کو “انتہائی خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ روس نے بھی سخت ردعمل دیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ اگر امریکہ عملی طور پر ٹیسٹ شروع کرتا ہے تو ماسکو “جوابی اقدامات” پر غور کرے گا۔
یورپی یونین نے نیوکلیئر ٹیسٹنگ پر عالمی پابندی (CTBT) کے احترام پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ دنیا کو ایک نئی ہتھیاری دوڑ کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے اس اقدام سے بین الاقوامی استحکام متاثر ہوگا اور بڑی طاقتوں کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ متوقع ہے۔
سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ عملی طور پر نیوکلیئر دھماکے کرتا ہے تو دنیا ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے۔

