
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچستان کے معروف بینجو نواز استاد رفیق کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے قومی نقصان قرار دیتی ہے۔ استاد رفیق نہ صرف براہوی و بلوچی موسیقی کے ممتاز فنکار تھے بلکہ وہ ان چند شخصیات میں سے تھے جنہوں نے مقامی موسیقی کے آلات، بالخصوص بینجو کو عالمی سطح پر شناخت دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بلوچستان کی سرزمین صدیوں سے تہذیب و ثقافت کی امین رہی ہے، جہاں فنکار اپنے فن کے ذریعے محبت، امن اور مزاحمت کا پیغام دیتے آئے ہیں۔ استاد رفیق جیسے فنکار اس خطے کے اصل سفیر تھے جنہوں نے اپنی دھنوں کے ذریعے بلوچ معاشرے کے جذبات، دکھ اور امیدوں کو آواز دی۔ ان کا فن کسی نسل، قبیلے یا زبان تک محدود نہیں تھا بلکہ پورے خطے کی مشترکہ ثقافتی روح کی نمائندگی کرتا تھا۔
بی ایس او سمجھتی ہے کہ فنکار معاشرے کے ضمیر ہوتے ہیں، جو اپنے فن کے ذریعے قوموں کی شناخت اور تاریخ کو زندہ رکھتے ہیں۔ استاد رفیق کی جدائی بلوچستان کے ثقافتی منظرنامے کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کا فن آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گا۔
بی ایس او ثقافتی اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ استاد رفیق جیسے فنکاروں کے ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، تاکہ یہ قیمتی ثقافتی سرمائے مٹنے نہ پائیں۔
بی ایس او استاد رفیق کے اہلِ خانہ، شاگردوں اور تمام موسیقی سے وابستہ افراد سے اظہارِ ہمدردی کرتی ہے اور ان کے فن کو بلوچستان کی ثقافتی تاریخ کا لازوال حصہ قرار دیتی ہے۔
