
تحریر: دودا بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچستان وہ مقدس سرزمین ہے جہاں ہر ذرّہ اپنی مٹی میں داستانِ مزاحمت لیے ہوئے ہے۔ یہ وہ دھرتی ہے جس نے ہمیشہ ایسے نوجوان پیدا کیے جو غلامی کے اندھیروں میں شعور اور روشنی کی مشعل جلانے والے ثابت ہوئے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دکھ، درد اور جبر کے ماحول میں بھی فکر اور آگہی کے چراغ روشن کیے۔ انہی چراغوں میں سے ایک نام شبیر عرف لکو جان کا ہے — جو صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک فکری استعارہ، نظریاتی روشنی، اور بلوچ شعور کا آئینہ ہیں۔ انہوں نے علم، جدوجہد اور سیاسی شعور کے ذریعے بلوچ تحریک میں فکری روح پھونکی۔
لکو جان وہ رہنما ہیں جنہوں نے ہم جیسے لاپرواہ اور بے حس نوجوانوں کو بتایا کہ قومی تحریک صرف نعروں کا نام نہیں، بلکہ ایک مسلسل فکری اور عملی عمل ہے۔ وہ بخوبی واقف تھے کہ قوموں کی نجات صرف جذباتی نعروں سے نہیں بلکہ سیاسی شعور اور علمی و ادراکی بنیاد سے ممکن ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اس فلسفے کو زندہ رکھا کہ تحریک کی اصل بنیاد تنظیمی شعور، فکری استقامت، اور اجتماعی وابستگی پر ہے۔
لکو جان کا شمار ان سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے جدوجہد کو صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں رکھا، بلکہ فکری، سماجی اور شعوری محاذ پر بھی ایک مسلسل جنگ لڑتے رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اصل مزاحمت بندوق سے نہیں بلکہ فکر سے شروع ہوتی ہے، کیونکہ بندوق بغیر شعور کے صرف شور پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ نوجوانوں کے شعور کو بیدار کرنے میں صرف کیا۔
لکو جان ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ جدوجہد کا پہلا زینہ شعور ہے، اور جب قوم کا نوجوان خود کو پہچان لیتا ہے تو غلامی کے تمام دروازے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ ان کے نظریے نے یہ واضح کیا کہ مزاحمت صرف ریاستی جبر کے خلاف نہیں بلکہ اپنے اندر کے خوف، خاموشی اور فکری غلامی کے خلاف بھی ہوتی ہے۔
انہوں نے بلوچستان کے خطرناک اور محدود علاقوں میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو ترک نہیں کیا۔ لکو جان کے ہمسفر بیان کرتے ہیں کہ جب بلوچستان میں جبری گمشدگیاں عام تھیں اور روز لاشیں پھینکی جاتی تھیں، ایسے وقت میں بھی لکو جان ان علاقوں میں جانے اور کام کرنے کے لیے سب سے پہلے تیار ہوتے تھے۔ جہاں دوسرے ہچکچاہٹ محسوس کرتے، وہاں لکو جان آگے بڑھتے — کیونکہ ان کے نزدیک خوف کوئی مانع نہیں تھا؛ مقصد اور منزل ہی سب کچھ تھے۔
اسی لیے وہ ہر اس علاقے میں گئے جہاں خوف عام تھا، ہر اُس جگہ بولے جہاں خاموشی مسلط تھی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ تحریکیں نظریاتی جڑوں سے پروان چڑھتی ہیں، اور ان کی بقا علم و شعور سے ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک جدوجہد صرف ایک سیاسی پروگرام نہیں بلکہ ایک ایسا نظریاتی عمل ہے جس میں انسان اپنی ذاتی خواہشات اور زندگی تک قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
اگر ہم بلوچ مزاحمت کی فکری روایت دیکھیں تو یہ محض جنگی تاریخ نہیں بلکہ فکری تسلسل اور شعوری بیداری کا عمل ہے۔ بلوچ قوم کی تاریخ صرف جنگ و جدل کی داستان نہیں بلکہ فکری ارتقاء کی ایک طویل کہانی ہے۔ بلوچ ماؤں نے ہمیشہ اپنی اولاد کو چاکر، گھرام، حمل کلمتی اور شہید محراب خان کے قصے سنائے تاکہ آنے والی نسلیں یہ جان سکیں کہ مزاحمت ایک وراثت ہے اور غلامی کے خلاف جدوجہد ایک فرض۔
وقت بدلا تو کہانیاں بھی بدل گئیں، مگر جذبہ وہی رہا۔ آج بلوچ مائیں بی ایس او (آزاد) کے اُن جوانوں کی قربانیوں کے قصے سناتی ہیں جنہوں نے علم اور سیاسی شعور کے ذریعے مزاحمت کے تصور کو نئے فکری قالب میں ڈھالا۔ قصے بدلتے رہیں گے، مگر مزاحمت کی روح وہی رہے گی۔ ان راہنماؤں کی قربانیاں بلوچ نسل کے شعور میں نئی توانائی پیدا کر رہی ہیں اور یہی وہ بنیاد ہے جسے لکو جان جیسے استادوں نے مضبوط کیا۔
میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں لکو جان کو گہرائی سے جانتا تھا، مگر میری زندگی کے وہ تین دن جو اُن کے ساتھ گزرے، میرے فکری سفر کی بنیاد بن گئے۔
سال 2014 کی بات ہے۔ بارشوں کا موسم تھا اور مشکے کی فضا خوف سے بھری ہوئی۔ روز فوجی آپریشن ہوتے، مرد حضرات راتیں جنگلوں میں گزارتے، اور عورتیں قریبی گھروں میں پناہ لیتی تھیں۔ ایسے میں ہم بھی اکثر اپنا گھر چھوڑ کر رشتہ داروں کے ہاں رات گزارتے تھے۔
اُسی دوران شہید جلال جان نے امی کو فون کیا:
"امی، کچھ مہمان میرے ساتھ آرہے ہیں، آپ کسی کو ساتھ لے کر گھر آجائیں۔”
میں اُس وقت جلال جان کا لاڈلا بھانجا تھا۔ جب بھی وہ سفر سے واپس آتے، تو ہمیشہ کہتے: "دودا کو بھی ساتھ گھر لے آؤ۔”
اُس رات میں بھی امی کے ساتھ گھر گیا۔ کچھ دیر بعد جلال جان پہنچے اور اُن کے ساتھ بی ایس او آزاد کے چند کارکن بھی تھے۔ انہی میں سے ایک لکو جان تھے۔
میں نے اپنی زندگی میں بولان سے مکران تک بے شمار جہدکار دیکھے، مگر لکو جان جیسا خوش مزاج، متوازن اور باوقار انقلابی کبھی نہیں دیکھا۔ وہ آتے ہی مسکراتے ہوئے دوسرے کمرے میں گئے اور امی سے کہا:
"امی جان، سالن میں خود بناؤں گا، روٹی جلال جان پکائے گا۔ آپ اتنی رات گئے آئی ہیں، ہم آپ کو مزید تکلیف نہیں دینا چاہتے۔”
یہ الفاظ آج بھی میرے دل میں گونجتے ہیں — محبت، عاجزی اور شعور کا حسین امتزاج۔
لکو جان نے سالن بنانا شروع کیا اور جلال جان روٹی پکانے لگے۔ کچھ دیر بعد جلال جان نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
"یہ میرا دودا ہے، اور میرا آنے والا کل۔”
میں اُس وقت ان الفاظ کی گہرائی نہیں سمجھ سکا۔
لکو جان نے میری طرف دیکھا اور کچھ دیر خاموش رہ کر پوچھا:
"دودا، تم کس کی طرح بننا چاہتے ہو؟”
میں نے کہا: "میں چیئرمین زاکر کی طرح بننا چاہتا ہوں۔”
وہ مسکرائے اور بولے:
"اُس کے لیے تمہیں زیادہ پڑھنا ہوگا، اپنی قومی درد کو سمجھنا ہوگا۔ اُس درد کو محسوس کرنے کے لیے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے دن رات لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ اور جو حالات ہم پر گزر رہے ہیں، اُن کی مثال تمہارے گھر سے بڑھ کر کیا ہوگی — اتنا بڑا گھر ہونے کے باوجود تم لوگ دوسروں کے گھروں میں سونے پر مجبور ہو۔ اگر اُس مقام تک پہنچنا ہے تو کل یہ گھر نہیں رہیں گے، یہ لوگ نہیں رہیں گے۔ سب کچھ قربان کرنا پڑے گا۔ جو اس راہ پر چلتا ہے، اُس کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔”
وہ خود سوال کرتے اور خود جواب دیتے تھے۔ اچانک بولے:
"بی ایس او آزاد کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ کبھی اُس کے کتابچے پڑھے ہیں؟”
میں نے جواب دیا: "نہیں، بس بلوچ قومی ترانے کی پہلی چار سطریں یاد ہیں، باقی کچھ نہیں جانتا۔”
وہ مسکرائے اور بولے:
"دو منٹ صبر کرو، میں آتا ہوں۔”
دو منٹ بعد واپس آئے، ہاتھ میں بی ایس او آزاد کا پمفلٹ تھا۔ انہوں نے مجھے وہ چار سطریں سنائیں اور پھر ایک ایک لائن سمجھاتے ہوئے باقی ترانہ پڑھایا، اور بی ایس او آزاد کے مقصد اور وجود کے بارے میں بتایا۔
باتوں ہی باتوں میں سالن تیار ہو گیا۔ سب کھانے بیٹھ گئے۔ اگلی صبح جب میں اُن کے لیے چائے لے کر گیا، تو لکو جان نے کہا:
"یہاں بیٹھو، ہم پھر بات کریں گے۔”
ان تین دنوں میں لکو جان نے میرے فکری دروازے کھول دیے جو شاید برسوں بعد بھی نہ کھل پاتے۔ میں آج بھی محسوس کرتا ہوں کہ میری سوچ، میرا نظریہ، اور میرا عزم، اُن تین دنوں کی میراث ہے۔ ان کی باتوں میں جو نرمی تھی، ان کی آنکھوں میں جو چمک تھی، اور ان کی مسکراہٹ میں جو سادگی تھی، وہ سب ایک انقلابی انسان کا عکس تھا۔
وقت گزرتا گیا، مشکے کے وہ دن تاریخ کا حصہ بن گئے، مگر لکو جان کی یاد آج بھی میرے شعور میں زندہ ہے۔ اُن کی باتیں، اُن کا لہجہ، اور اُن کی مسکراہٹ — میرے فکری سفر کا چراغ ہیں۔
شبیر بلوچ عرف لکو جان صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظریہ ہیں۔ جب وہ گزشتہ نو سالوں سے پاکستانی تشدد گاہوں میں ظلم و جبر سہہ رہے ہیں، تو ان کے شاگرد بلوچ قومی تحریک کو مزید مضبوط اور منظم بنا رہے ہیں۔ آج ان کے شاگرد اپنی فکری و شعوری فصیلوں کو ازسرِنو تعمیر کر رہے ہیں۔
وہ ظلم و ستم اور جبری گمشدگی جیسے مظالم سے گزرنے کے باوجود اس سیاسی نظریے سے دستبردار نہیں ہوئے، نہ ہی اس سبق کو بھولے ہیں جو انہیں ان کے سیاسی استاد نے دیا تھا۔
لکو جان نے اپنی جدوجہد سے یہ ثابت کیا کہ تحریک کی اصل بنیاد فکری تربیت، تنظیمی نظم و ضبط، اور سیاسی بصیرت ہے۔
مثال کے طور پر سال 2016 کو دیکھیں۔ جب پورے بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی تھیں اور گھروں سے باہر نکلنا بھی موت کے مترادف سمجھا جاتا تھا، تب کچھ لوگوں کا نظریہ تھا کہ اب بلوچستان میں سیاست کرنا اور سیاسی تحریک چلانا ناممکن ہے۔ لیکن ایسے وقت میں لکو جان جیسے رہنما بلوچستان میں سیاسی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ جب وہ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے، وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے انفارمیشن سیکرٹری تھے۔
لکو جان کا یقین تھا کہ قوموں کی نجات صرف جذبات سے نہیں بلکہ عمل اور شعور سے ممکن ہے۔ وہ کہا کرتے تھے:
"جو شعور سے خالی ہو، وہ مزاحمت کو قائم نہیں رکھ سکتا۔”
اسی لیے وہ تنظیمی حلقوں میں مطالعہ، بحث، اور فکری مکالمے کو لازمی سمجھتے تھے۔ ان کے نظریات میں مارکس اور لینن کی فکری گہرائی جھلکتی تھی، مگر وہ صرف نظریات کے قاری نہیں تھے، بلکہ انہیں عملی طور پر نافذ کرتے تھے۔ ان کی سیاست صرف کتابی نہیں بلکہ زمین سے محبت، عوامی حمایت، اور سب سے بڑھ کر قومی ذمہ داری سے جڑی ہوئی تھی۔
اس رات کی خاموشیوں میں، جب ہر لفظ بوجھل تھا، میں نے لکو جان سے پوچھا:
"کامریڈ، ذاکر جان کب زندان سے آزاد ہوگا؟”
انہوں نے مسکرا کر کہا:
"ریاست چاہے ایک فرد کو قید کر سکتی ہے، لیکن اس اجتماعی شعور اور مزاحمت کو کبھی قید نہیں کر سکتی۔”
آج، ذاکر جان اور ہزاروں نوجوان جبری طور پر لاپتہ ہونے کے باوجود، بلوچ قومی تحریک اب بھی جاری ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ منظم اور مضبوط ہے۔ ذاکر کی سوچ نے آج ہزاروں ذاکر مجید کو جنم دیا ہے۔
لکو جان! آج اس ریاست نے آپ کو بھی جبری طور پر لاپتہ کر کے زندان کی کسی تنگ کوٹھڑی میں بند کیا، یہ سمجھ کر کہ وہ چیئرمین ذاکر جان اور چیئرمین زاہد جان کے اس نظریے کو ختم کر دے گی، جو آپ تک تسلسل کے ساتھ پہنچا تھا۔ لیکن آپ کی جبری گمشدگی کے بعد وہ نظریہ مزید مضبوط اور منظم ہوا ہے۔
کل شاید آپ کے خاندان میں سے آپ ہی اس کارواں کے مسافر تھے، مگر آج سیما اور آپ کی ننھی بھانجی شارل، جو صرف تین سال کی ہے، بھی اسی کارواںِ مزاحمت کا حصہ بن چکی ہیں۔
وہ مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں کبھی حب چوکی میں، کبھی کراچی سے کوئٹہ تک، اور اب تو اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی اس کارواں کی آواز گونج رہی ہے۔ یہی آواز کہتی ہے:
"تم صرف ایک فرد کو قید کر سکتے ہو، لیکن اس کی دی ہوئی اجتماعی سوچ کو نہیں۔ تم اس کی یادوں، باتوں، قربانیوں اور بہادری کو قید نہیں کر سکتے — جو وہ پچھلے نو سالوں سے زندان کی دیواروں میں ایک چٹان کی طرح محفوظ کھڑا ہے۔
لکوجان ان تمام بلوچ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں جو بندوق سے زیادہ قلم کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، جو مزاحمت کو نفرت نہیں بلکہ شعور اور محبت کا عمل سمجھتے ہیں۔
آج ہر وہ بلوچ نوجوان جو ظلم کے خلاف سوال اٹھاتا ہے، کتاب پڑھتا ہے، سوچتا ہے، یا اپنی سرزمین کے حق میں لکھتا ہے، وہ دراصل لکو جان جیسے کردار کے فکری ورثے کا تسلسل ہے۔ جو کہتے ہیں کہ تم صرف ایک فرد کو زندان کرسکتے ہو، لیکن اس کی شعوری مزاحمت کو نہیں — اور آج لکوجان کی کارواں شارل کی شکل میں جاری ہے۔
