بلوچ قومی تحریک: پاکستانی پروپیگنڈا، بیانیہ اور سوشل میڈیا وار فیئر

تحریر: دودا بلوچ – آخری قسط

جیسا کہ پہلے حصّے میں ذکر ہو چکا ہے کہ بیانیہ اور پروپیگنڈا کس طرح کام کرتے ہیں، نوم چومسکی کے ماڈل آف پروپیگنڈا کی تفصیل بھی بیان کی جا چکی ہے۔ ساتھ ہی جنگوں اور تحریکوں میں پروپیگنڈا اور بیانیہ کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ اوپر ہٹلر اور گوئبلز کے پروپیگنڈے کے طریقے بھی بیان ہو چکے ہیں۔ اب یہ بات واضح ہے کہ آج کے دور میں جنگوں میں سب سے خطرناک ہتھیار سوشل میڈیا پر بیانیہ اور پروپیگنڈا ہیں۔ تو آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جدید وارفیئر میں بلوچ قومی بیانیہ کہاں کھڑا ہے۔

لفظِ بیانیہ یا پروپیگنڈا بسا اوقات ناخوشگوار محسوس ہوتا ہے، مگر آپ لوگوں نے سرفراز بگٹی کی بات ضرور سنی ہوگی۔ سر سرفراز بگٹی ہر بات میں کہتے ہیں کہ "ہمیں بلوچستان میں بیانیے کو شکست دینی ہے اور اپنی بیانیہ اور پروپیگنڈا کو مضبوط اور ایک لیگل فریم ورک دینا ہوگا”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ آج کے دور میں پروپیگنڈا اور بیانیہ ایک منظم اور مضبوط ہتھیار ہیں — کسی تحریک یا ریاست کو توڑنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے — اور بلوچستان میں بھی بیانیے کی ایک جنگ جاری ہے۔ چاہے وہ ریاست کی طرف سے ہو یا بلوچ قومی تحریک کی طرف سے، دونوں اپنی بیانیہ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستانی ایک سابق میجر کے مطابق پاکستان نے بلوچ قومی تحریک کے بیانیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے اسی سال چھ ہزار سے زائد طلبہ و طالبان کو ہائر کیا ہے تاکہ وہ بیانیہ کو کاؤنٹر کر کے "پاکستانی” بنا سکیں۔

لیکن بلوچ تحریک میں کچھ لوگ بیانیہ اور سوشل میڈیا وار فیئر، بیانیہ اور کاؤنٹر بیانیہ کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ تحریک کا سافٹ امیج اسی میڈیا سے بنتا ہے اور دشمن کے بیانیہ کو رد بھی مضبوط بیانیہ اور پروپیگنڈا کی شکل میں کیا جاتا ہے۔

بلوچ قومی تحریک کے جہدکاروں کو اس بات پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی نظریے کو عوام تک پہنچانے کے لیے بیانیہ بنایا جاتا ہے اور اسے عام کرنے کے لیے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ لفظ "پروپیگنڈا” سننے میں برا لگتا ہے، مگر اس کا انحصار استعمال پر ہے کہ اسے کیسے استعمال کیا جائے۔ لہٰذا بلوچ جہدکاروں کو بیانیے سے انکار نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بیانیے اور پروپیگنڈا کو مزید وسعت دے کر مضبوط اور مربوط کرنا چاہیے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ سرفراز بگٹی کس بیانیے کی بات کرتے ہیں۔ وہ علال اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہر طالب علم روزانہ تین منٹ نکال کر پاکستان آرمی کی امیج بلڈنگ کے لیے پوسٹ کرے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کس طرح بلوچ قومی تحریک کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ بلکہ اب وہ طلبہ سے بھی اپیل کر رہا ہے کہ شامل ہو جائیں، حالانکہ ان کے پیڈ قومی میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیمیں پہلے ہی متحرک ہیں۔ شاید آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ جب آپریشن ہیروف ہوا تو حکومت نے انٹرنیٹ جام کر دیا تھا؛ بعد میں وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ یہ سب کچھ بی ایل اے کے بیانیہ کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اب دیکھیں سوشل میڈیا کی طاقت — ایک تنظیم کا قومی کاز اور بیانیہ کتنا اہم اور مؤثر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت نے بھی اس بات کا اعتراف کیا۔

اب بات کرتے ہیں بلوچ قومی تحریک کے نظریاتی بیانیہ اور پاکستان کی پروپیگنڈا کی۔

بلوچ قومی تحریک کا نظریاتی بیانیہ بلوچ تحریک کا بنیادی بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان ایک نوآبادیاتی ریاست ہے جس نے 27 مارچ 1948 کو بلوچستان پر زبردستی قبضہ کیا۔ بلوچوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے پہلے بلوچستان ایک آزاد و خودمختار ریاست تھا۔ اسی لیے تحریکِ آزادی کا بنیادی مقصد بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کروانا ہے۔ بلوچوں کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کی تشکیل نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات و ایما کے تحت ہوئی تھی؛ بلوچ قومی ریاست کو جبراً اس میں شامل کیا گیا، بلوچوں کی مرضی و منشا کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا گیا، بلکہ بلوچوں نے اس کے خلاف طویل مزاحمت پیش کی ہے — چاہے وہ سیاسی ہو یا عسکری۔

دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ بلوچ ایک قدیم قوم ہیں جن کی اپنی شناخت، تہذیب، تمدن اور زبان ہے، جو مہرگڑھ تہذیب کے قدیم باشندے ہیں۔ تیسرا بیانیہ یہ ہے کہ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی جنگ کا مقصد بلوچستان کو آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر قائم کرنا ہے تاکہ ریاستی جبر سے نجات حاصل کی جا سکے۔

پاکستانی بیانیہ اور ریاستی پروپیگنڈا پاکستان اس کے برعکس پروپیگنڈا کرتا ہے کہ بلوچستان پہلے چار ریاستوں پر مشتمل تھا اور پاکستان نے انہیں یکجا کر کے بلوچستان بنایا۔ وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بلوچ خوشی سے پاکستان میں شامل ہوئے اور آج پورا بلوچستان پاکستان کا حصّہ ہے، صرف چند افراد مزاحمت کر رہے ہیں۔ پاکستان بعض اوقات بلوچستان کی تاریخ کو اپنی مراد کے مطابق پیش کرتا ہے؛ مثلاً بلوچوں کو خانہ بدوش، وحشی، جاہل اور گوار دکھایا جاتا ہے، حالانکہ یہ تمام پروپیگنڈا قبضہ گری اور سامراجی رویوں کی مثالیں ہیں۔ ایک ایسی قوم جس نے ہزاروں سال پہلے اس خطے پر حکمرانی کی — اور قلات کی ریاست نے تقریباً 550 سال تک حکومت کی — ایک ایسا خطہ جس کی عمر ہزاروں سال ہے، وہ بلوچوں کو کم علم اور تاریخ سے نابلد دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب نوآبادیاتی پروپیگنڈا اور بیانیہ کا حصہ ہیں۔

اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بلوچ تنظیموں کو بھارت یا مغرب کی پشت پناہی حاصل ہے تاکہ پاکستان کی شبیہہ بین الاقوامی سطح پر بدنام ہو سکے۔ بعض اوقات پنجاب میں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تاثر عام کیا جاتا ہے کہ بلوچ مسلح تنظیمیں پنجابیوں کو ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بناتی ہیں۔ ایسے بیانیات کا مقصد تحریک کو "دہشت گرد” ثابت کرنا اور عوامی ہمدردی کو کم کرنا ہے — اس کا مطلب تحریک کے سوفٹ امیج کو نقصان پہنچانا ہے۔

جبری گمشدگیوں پر پروپیگنڈا دنیا بھر میں تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں جیسے سنگین جرائم ہو رہے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں، اور ریاست پاکستان اس میں براہِ راست ملوث ہے۔ مگر پاکستان اس حقیقت کو چھپانے کے لیے پروپیگنڈا کرتا ہے کہ لاپتہ افراد یا تو دہشت گردوں کے کیمپوں میں ہیں یا افغانستان و دیگر ہمسایہ ممالک میں چلے گئے ہیں۔ 2020 کے بعد ریاست نے اس پروپیگنڈا کو منظم کرنے کے لیے جبری طور پر لاپتہ افراد کی ویڈیوز بنانا شروع کیں، حالانکہ خفیہ سیلوں میں ٹارچر سے لیے گئے بیانات کا کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ 2023 میں ماہِل بلوچ اور 2025 میں پروفیسر عثمان بلوچ کے حوالے سے بھی ایسے بیانیات سامنے آئے جنہیں باشعور بلوچ اس ریاستی پروپیگنڈا کا حصہ سمجھتے ہیں۔

بلوچ سرمچاروں کے خلاف پروپیگنڈا پاکستان "نام کالنگ” کے ذریعے بلوچ سرمچاروں کو کافر، "فتنہِ ہندوستان” کہہ کر مسلمانوں کا دشمن قرار دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے شفیق مینگل جیسے لوگوں کو میڈیا پلیٹ فارمز پر بٹھایا جاتا ہے تاکہ مذہبی بنیاد پر بلوچ جہدکاروں کو بدنام کیا جا سکے۔ یہ وہی طریقہ ہے جو گوئبلز نے یہودیوں کے خلاف استعمال کیا تھا — یہودیوں کو مذہب کی بنیاد پر دشمن قرار دے کر عوامی جذبات بھڑکائے گئے تھے۔ اسی طرح پاکستان بلوچ سرمچاروں کو "فتنہِ ہندوستان” کہہ کر عوامی جذبات بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ بلوچوں کے خلاف منظم پروپیگنڈا کے ذریعے نفرت پھیلائی جا سکے۔

زبان اور قبائلی نظام کے ذریعے تقسیم بلوچ قومی تحریک کو توڑنے کے لیے زبان، قبائلی، مذہبی اور علاقائی اختلافات کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کی تاریخ بتاتی ہے کہ زبان، مذہب اور فرقہ واریت کو سماج کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان بھی اسی حکمتِ عملی کو بروئے کار لا رہا ہے تاکہ بلوچ شناخت کو کمزور کیا جا سکے اور بلوچ قوم کو متحد ہونے سے روکا جائے۔

مثال کے طور پر مکران میں جہاں بلوچی زبان زیادہ بولی اور پڑھی جاتی ہے، وہاں انگریزی میڈیم اسکولز اور تعلیمی ادارے قائم کیے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، بینکنگ اور دیگر سروسز کی ڈھانچہ بندی اس طرح کی جا رہی ہے کہ نوجوان بلوچی زبان اور تاریخ سے دور رہ جائیں۔ اور بعض اوقات براہوئی کو ایک الگ شناخت دے کر بھی تقسیم کاری کی کوششیں دکھائی دیتی ہیں — جیسے براہوئی کلچر و ادب کو الگ منانا یا وہاں سیاسی جماعتوں کو ابھارنا — تاکہ بلوچ قوم کو اندرونی طور پر تقسیم کیا جا سکے۔ یہ وہی "Divide and Rule” پالیسی ہے۔

قبائلی نظام قبائلی نظام کو کٹھ پتلی سرداروں کے ذریعے تقویت دے کر ریاستی کنٹرول برقرار رکھا جا رہا ہے، جبکہ بین الاقوامی سطح پر یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قبائلی نظام "ترقی کی راہ میں رکاوٹ” ہے۔ یہ سب پروپیگنڈا عوامی رائے کو متاثر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

مذہبی بنیاد پر پروپیگنڈا کئی علاقوں میں مذہبی بنیاد پر بھی بلوچ قومی تحریک کے خلاف تشہیر کی جاتی ہے۔ بعض جہادی رجحانات یا مذہبی انتہاپسندی کو بھڑکا کر جہدکاروں کو کافر قرار دینا اور ان کے خلاف تشدد کو جائز بتانا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔

علاقائی ترقی کے نام پر پروپیگنڈا پاکستانی میڈیا اکثر دعویٰ کرتا ہے کہ بلوچستان میں ترقیاتی کام جاری ہیں اور بلوچ قومی تحریک اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مثال کے طور پر گوادر اور سی پیک کو بطور نمونہ دکھا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اگر بلوچ تحریک رکاوٹ نہ بنتی تو گوادر کو ایک شاندار بندرگاہی شہر بنایا جا سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ گوادر کے منصوبوں کے لیے ملنے والی رقم بعض اوقات دیگر شہروں میں خرچ ہو چکی ہے، اور مقامی عوام کو بنیادی سہولیات مثلاً پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اس طرح عوام کو ترقی کے خواب دکھا کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت مختلف ہوتی ہے۔

اگر پروپیگنڈا کی بات کی جائے تو بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک کے خلاف مختلف پلیٹ فارمز پر پروپیگنڈا گذشتہ 76 سالوں سے منظم انداز میں جاری ہے۔ اس حکمتِ عملی کا مقصد بلوچ قوم کو کمزور کرنا اور اسے متحد ہونے سے روکنا ہے، اور بہت سی پہلو ایسے ہیں جنہیں ایک مضمون میں مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔

سوشل میڈیا اور بیانیہ سازی کی ضرورت آج سوشل میڈیا کے دور میں بلوچ قومی تنظیموں کو مزید منظم اور پیشہ ورانہ انداز میں کام کرنا ہوگا۔ چونکہ جنگیں اب پانچویں جنریشن وار فیئر کی شکل اختیار کر چکی ہیں، اس لیے سوشل میڈیا/ماس میڈیا بیانیہ سازی اور بگاڑنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کو اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کو ایک مؤثر ہتھیار بنانا ہوگا۔ روایتی اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے مقابلے میں سوشل میڈیا تیز، براہِ راست اور عوامی رسائی والا ذریعہ ہے۔ یہاں بیانیہ صرف طاقتور ریاستیں نہیں بناتیں بلکہ عام لوگ بھی اپنی آواز اٹھاتے ہیں؛ وائرل مواد اور ٹرینڈز پالیسیاں اور رائے عامہ پر اثر ڈالتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی تحریکیں، سماجی مہمات اور حتیٰ کہ جنگی تنازعات بھی یہیں جگہ پاتے ہیں، جہاں سچ اور جھوٹ دونوں تیزی سے پھیلتے ہیں۔

مثال کے طور پر اسلام آباد میں بلوچ لانگ مارچ پر کریک ڈاؤن کے دوران ریاست نے سردی میں مظاہرین پر پانی پھینکا، مگر یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور ریاست کو مجبور کیا کہ وہ مظاہرین کو رہا کرے اور پرامن احتجاج کی اجازت دے۔

ہم اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں میڈیا کوریج نہیں ملتی، مگر آج سوشل میڈیا کے دور میں ہمیں اپنی آواز خود بلند کرنی ہے۔ جتنا زیادہ آپ آواز بلند کریں گے، اتنا زیادہ آپ کی بات دنیا تک پہنچے گی۔ مظلوم اقوام کے پاس روایتی ماس میڈیا کے وسائل کم ہوتے ہیں، اس لیے انہیں سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنانا پڑتا ہے۔ فلسطینی تحریک کی مثال ہمیں سکھاتی ہے کہ مضبوط بیانیہ اور منظم سوشل میڈیا مہم عالمی ہمدردی اور حمایت جیت سکتی ہے۔ یہ سبق بلوچ تحریک سمیت دیگر مظلوم قوموں کے لیے بھی اہم ہے: بیانیہ کی جنگ میں جدید میڈیا کے مؤثر استعمال کے بغیر عالمی ہمدردی حاصل کرنا مشکل ہے۔

موجودہ خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت بلوچ قومی تحریک میں کسی منظم میڈیا ڈپارٹمنٹ کی عدم موجودگی ایک بڑا نقصان ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں میڈیا کی جنگ چند لوگوں تک محدود ہے؛ وہ چند لوگ اچھا کام کر رہے ہیں، مگر ان کے کام میں بعض خامیاں ہیں۔ وہ محض مسلح تنظیموں یا سیاسی افراد کے بیانیہ کو بیک وقت نشر کر دیتے ہیں، جسے ریاستی میڈیا آسانی سے اپنے حق میں استعمال کر لیتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کون سی معلومات ہمارے لیے "worthy” ہیں اور کون سی "unworthy”۔ نوم چومسکی کے پانچ فلٹرز میں یہ تصور بھی شامل ہے کہ صحافت میں کون سی خبریں سامنے لانی چاہئیں۔ تحریکوں کے لیے یہ امر بہت اہم ہے: سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون سی خبریں ہمارے مقصد کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور کون سی نقصان دہ ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کسی کا تعلق سیاسی تنظیم سے ہے تو اسے محتاط رہنا چاہیے کہ اس کے ذاتی بیانات یا پوسٹس مسلح تنظیموں کے بیانات سے مشابہ نہ ہوں، ورنہ ریاستی میڈیا انہیں غلط تناظر میں پیش کر کے فائدہ اٹھا لے گا۔ اکثر ہمیں ایسے واقعات نظر آتے ہیں جہاں پاکستانی منشری ہمارا پوسٹ یا بیان بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ایک عملی حل یہ ہے کہ اگر کوئی جہدکار سوشل میڈیا پر کام کرنا چاہتا ہے اور وہ سیاسی و مسلح دونوں بیانیوں کو فروغ دینا چاہتا ہے تو اس کے لیے الگ ٹولز موجود ہیں اور اسے یہ جاننا ہوگا کہ وہ یہ کام بیک وقت کیسے کر سکتا ہے۔

بلوچستان کے کارکنان اس بات کا خیال نہیں رکھتے؛ خصوصاً جہدکار اپنے ذاتی اکاؤنٹس پر مسلح تنظیموں اور سیاسی تنظیموں کے بیانات دونوں شیئر کر دیتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا کام صرف ایک پوسٹ کرنا نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی جنگ میں بیانیہ کو مضبوط کرنا اور ریاستی پروپیگنڈا کو توڑنا ہے۔ ہمیں ہزاروں مناظر، بیانات اور پوسٹس تیار کر کے مسلسل میدانِ عمل میں رہنا ہوگا۔ جیسا کہ میدانِ جنگ میں ایک سپاہی ہر وقت تیار رہتا ہے، ویسے ہی سوشل میڈیا پر بھی مسلسل سرگرمی درکار ہے۔ ہمیں ریاستی پروپیگنڈا کے مقابلے میں بھی اسی تعدد اور شدت سے کام کرنا ہوگا، نہ کہ محض کسی سیاسی یا مسلح تنظیم کے اعلان کا انتظار کرنا ہوگا۔

بلوچ جہدکاروں اور کارکنان کو سوشل میڈیا کو بطورِ جنگی میدان استعمال کرنا ہوگا اور اپنے پیغام کو منظم انداز میں دنیا تک پہنچانا ہوگا۔ یہ نہ صرف بیانیہ سازی بلکہ دفاعِ انسانی حقوق اور بین الاقوامی ہمدردی جیتنے کا مضبوط راستہ ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ریاستی پروپیگنڈا کتنی منظم اور طویل المعیاد ہو سکتی ہے؛ اسی طرح ہمیں بھی اپنے بیانیے کو پیشہ ورانہ انداز میں، متواتر نئی حکمتِ عملیوں کے ساتھ چلانا ہوگا اور فیس بک اور ٹویٹر کی پوسٹس تک اپنی میڈیا کو محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں مختلف پلیٹ فارمز پر اور نیوز چینلز کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے۔ روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں اور ڈاکومنٹریاں بنانی چاہیئیں تاکہ بلوچ قومی تحریک کی سچائی دنیا تک پہنچ سکے اور ریاستی بربریت اور نسل کشی کی پالیسیاں عیاں ہوں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

سوراب: مل شاہورائی میں مسلح افراد کی ناکہ بندی، فائرنگ سے بلوچستان کانسٹیبلری کا اہلکار ہلاک ، اسلحہ ضبط

جمعہ اکتوبر 17 , 2025
بلوچستان کے ضلع سوراب میں کوئٹہ کراچی مرکزی شاہراہ پر مل شاہورائی کے مقام پر مسلح افراد نے ایک گھنٹے تک ناکہ بندی اور چیکنگ کی۔ اس دوران حملہ آوروں نے لیویز چوکی پر قبضہ کر کے اہلکاروں کا اسلحہ بھی ضبط کر لیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں بلوچستان کانسٹیبلری […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ