
بلوچ وومن فارم کے رہنما ڈاکٹر شلی بلوچ نے کہا ہے کہ ساقب بزدار کی 27 اگست 2025 کو کوئٹہ سے جبری گمشدگی نہ صرف ایک فرد کے بنیادی حقوق کی معطلی ہے بلکہ عام بلوچ شہریوں کے بارے میں ریاستی اداروں کے اجتماعی نفسیاتی رویے کی عکاسی بھی ہے۔ ان کے نزدیک ہر بلوچ ایک خطرہ ہے، جو مقامی لوگوں کی توہین ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی وجود پر براہِ راست حملہ بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ساقب بزدار پنجاب یونیورسٹی (لاہور) سے نیا فارغ التحصیل ہوا تھا جو اپنی بقا کے لیے ذریعہ معاش حاصل کر کے ایک عام زندگی گزارنے کی جستجو میں تھا۔ اس کی جبری گمشدگی نہ صرف اس کی زندگی کے لیے خطرہ ہے بلکہ معاشرے کے دوسرے تعلیم یافتہ طبقے کے لیے بھی زندگی اور سلامتی کے خطرے کی گھنٹی ہے، جو براہِ راست ریاست کی بدنام زمانہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے متاثر ہیں۔
ڈاکٹر شلی بلوچ نے مزید کہا کہ میں ساقب بزدار کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتی ہوں اور اس بھیانک و غیر قانونی جبری حراست میں ملوث مجرموں کا احتساب بھی۔ ریاستی ادارے، بشمول قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اسمبلیاں، مسلسل جبری گمشدگیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن وہ کبھی اس کو جواز نہیں دے سکے۔ آج بھی اس کا کوئی جواز نہیں ہے، اور کبھی تھا بھی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ساقب اور تمام جبراً لاپتہ بلوچ افراد کو غیر قانونی اذیت خانوں سے بلا تاخیر اور غیر مشروط طور پر آزادی ملنی چاہیے۔ یہی قانون ہے، یہی انسانیت ہے اور یہی طریقہ ہونا چاہیے۔
