
تحریر: این کیو بلوچ
زرمبش مضمون
آزادی لا خواب محض کوئی خیال نہیں، یہ لمحہ موجود میں ہمارے سانسوں کا حصہ ہے، جو بلوچ سرزمین کے رگ و ریشے میں دوڑتا ہے۔ یہ خواب صدیوں پرانا ہے، جو ہر بلوچ کے دل کی دھڑکن، ہر سانس کی حرارت، اور ہر آنکھ کے آنسو میں سمایا ہوا ہے۔
بلوچستان کی آزادی کا نعرہ محض سیاسی عزم نہیں، بلکہ ایک گہرا جذبہ ہے، جو ہر بلوچ کے رگوں میں گردش کررہا ہے۔ یہ خواب ہے اپنی سرزمین کو اپنی مرضی سے سجانے کا ہے، قومی ثقافت کو سینے سے لگانے کا ہے، اپنی زبان کو ہر زندگی کی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنے کا ہےاور اپنی شناخت کو سر اٹھا کر عزت دینے کا ہے۔ یہ خواب ہے ایک ایسی سرزمین کا ہے، جہاں بلوچ قوم اپنے وسائل کی مالک خود ہو، اپنے فیصلوں میں خودمختار ہو ، اور قومی فیصلوں کا اختیار دار خود ہو۔
بلوچستان، یہ وہ خطہ ہے جو اپنی دلفریب قدرتی خوبصورتی، خوبصورت پہاڈ، بیش بہا معدنی وسائل، اور سمندری ساحلوں کے ساتھ اپنی بہادر اور خوددار قوم کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ مگر اس سرزمین کی تاریخ خون اور آنسوؤں سے لکھی گئی ہے۔ صدیوں سے استعماری طاقتوں نے اس زمین کو اپنے ناپاک مفادات کے لیے لوٹا، اس کے وسائل کو چھینا، اور اس کے باسیوں کو اپنے ہی زمین میں اجنبی بنا دیا۔ ہر ظلم، ہر ناانصافی، اور ہر جبر نے بلوچ قوم کے دل میں آزادی کے اس خواب کو چنگاری سے شعلے میں بدل دیا ہے۔
یہ خواب محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کی خواہش نہیں، بلکہ ایک ایسی جدوجہد ہے، جس سے قومی شناخت کو بحال کیا جائے، زبان کو زندہ رکھنے جدوجہد ہے، اور ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے لڑی جا رہی جنگ ہے۔ یہ جدوجہد کوئی نئی نہیں ہے۔ بلوچ قوم صدیوں سے اپنی خودمختاری کے لیے لڑتی آ رہی ہے۔ کبھی تلواروں سے، تو کبھی قلم کی نوک سے، اور کبھی اپنے خون کی قربانی سے۔ ہر نسل نے اس خواب کو اپنے سینوں میں سجایا، اپنے دل کی آگ سے روشن کیا، اور اگلی نسل کے حوالے کیا۔
یہ خواب بلوچ ماؤں کی لوریوں میں سمایا ہے، بہنوں کی بہادری میں جھلکتا ہے، شاعروں کے اشعار میں گونجتا ہے، اور بلوچ سرمچاروں کی قربانیوں میں زندہ ہے۔ ہر بلوچ کا خون اس خواب کے لیے وقف ہے، ہر سانس اس خواب کے لیے اٹھتی ہے۔ مگر یہ خواب ابھی ادھورا ہے۔ ہمیں اور قربانی دینا ہوگا۔
آج بھی بلوچستان کے باسی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، مگر ان کی آواز کو بے رحمی سے کچھلا جاتا ہے۔ آج بھی بلوچ قوم کو اپنے وسائل پر حق حاصل نہیں ہے، بلکہ ان کے حصے میں لاشیں، غم، اور درد لکھ دیا گیا ہے۔ آج بھی بلوچ قوم اپنی شناخت کے لیے لڑ رہی ہے، مگر انہیں خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن بلوچ قوم کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے کبھی سر نہیں جھکائی ہے۔ ہر دھوکا، ہر ظلم، اور ہر مشکل کو اس قوم نے عزم اور پختہ ادارے سے سامنا کیا ہے۔ ہر آنسو اس خواب کو اور گہرا کرتا ہے، ہر قربانی اسے اور روشن کرتی ہے۔
بلوچستان کی آزادی کا خواب ایک دن ضرور پورا ہوگا، کیونکہ یہ کوئی عام خواب نہیں، بلکہ ایک ایسی آگ ہے جو کبھی نہیں بجھتی۔ یہ وہ جذبہ ہے جو ہر بلوچ کے دل میں پل رہا ہے، ہر سانس کے ساتھ جیا جارہا ہے۔ جب تک اس سرزمین پر ایک بھی بلوچ سانس لے رہا ہے، یہ خواب زندہ رہے گا۔ یہ سفر آسان نہیں، مگر بلوچ قوم نے کبھی سہولتوں کی تلاش نہیں کی ہے، یہ قوم اپنی منزل کی خود متلاشی ہے، اپنے خواب خود پورے کرتی ہے۔
آزادی صرف زمین کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے۔ اصل آزادی وہ ہے جو دلوں کو آزاد کرے، دماغوں کو منور کرے اور روحوں کو آزادی عطا کردے۔ بلوچ قوم کا خواب نہ صرف بلوچ اور بلوچستان کی آزادی کا ہے، بلکہ ایک ایسی دنیا کا قیام ہے جہاں ہر فرد، ہر قوم، اور ہر شناخت کو عزت، مساوات، اور آزادی کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔ یہ خواب ہم سب مشترکہ میراث ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے ہر بلوچ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ جب تک ہم متحد ہیں، تو کوئی بھی طاقت ہمارے خواب کو چھین نہیں سکتا ہے۔ ہمارا قومی عزم ہماری طاقت ہے، ہمارا اتحاد ہماری فتح ہے، اور ہمارا خواب ہماری منزل ہے۔
