بے لوث وطن دوست رہنماء، چیئرمین زبیر بلوچ

تحریر: فریدہ بلوچ
زرمبش مضمون

کسی شخصیت کے جانے پر ایک عمومی تبصرہ کیا جاتا ہے کہ ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے یا ان کی کمی مدتوں محسوس کی جاتی رہے گی۔ اگر یہی الفاظ چیئرمین زبیر بلوچ کی شخصیت کے بارے میں کہے جائیں تو یہ الفاظ مبالغہ آرائی اور لفاظی محسوس نہیں ہوتے۔ ان کی شخصیت اور عمل کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کمی مدتوں محسوس کی جاتی رہے گی۔ بی ایس او کے ایک کارکن کی حیثیت سے لے کر تنظیم کے اعلیٰ عہدے چیئرمین شپ تک ان کے متحرک ہونے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ عہدے نے ان کے عام سیاسی کارکن جیسے عاجز مزاجی کو چھین لیا بلکہ اسی عاجزانہ مگر جوشیلے انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

چیئرمین زبیر بلوچ کی سیاسی بصیرت اور وطن دوستی نے دوسرے طلبہ تنظیموں کے ساتھ فرق کو مٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچ نوجوانوں کو ایک لڑی میں پرونے اور بلوچ قومی تحریک میں اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش میں وہ اس فکری تندہی سے کام کرتے رہے کہ ایک وقت میں بی ایس او کے گروپس اپنے گروہی ناموں کو تقریباً بھول گئے تھے۔ اتحاد کے ایجنڈے اور سلوگن کو اپنا تنظیمی مفاد حاصل کرنے اور سیاسی قد بڑھانے کی بجائے عملاً وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ بلوچ وطن کے وسائل کی حفاظت، بلوچ قومی تشخص اور قومی آزادی کی بحالی کے لیے یہ عہدے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ نمود و نمائش سے کسی کا قد بڑھا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اپنی جدوجہد سے یہ ثابت کیا کہ گروہی مفادات قومی جہد میں فقط ایک تفریقی اور منفی سیاسی رجحان نہیں بلکہ زہر قاتل ہیں، جس کی نہ صرف انہوں نے اپنے الفاظ بلکہ عمل سے بیخ کنی کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر جس میں زبیر بلوچ دوسرے بی ایس او کے چیئرمین کے ساتھ موٹرسائیکل پر جا رہے ہیں، وائرل ہوئی۔ بلوچ نوجوان بنا کسی بغض و عناد اور تنظیمی تفریق کے اسے زیادہ شیئر کرتے رہے۔ اس کا مطلب تھا کہ بلوچ نوجوان قومی و وطنی وحدت کے واحد نقطے پر سب کو اکٹھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آج ان کی شہادت کے بعد سیاسی اور طلبہ تنظیموں کے علاوہ پوری بلوچ قوم ان کی شہادت پر نوحہ کناں ہو کر ان کے قومی جدوجہد میں کردار کو خراجِ تحسین اور شہادت کو خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے۔

چیئرمین زبیر بلوچ نے ایک وطن دوست سیاسی رہنماء کی حیثیت سے یہ ثابت کیا کہ ایک فکری جہدکار اپنی زندگی کی دیگر مجبوریوں کو عذر بنا کر کبھی پیش نہیں کرتا اور بہانہ سازی کو اپنا کردار اُجلا دکھانے کے لیے استعمال میں نہیں لاتا۔

بلوچ قومی جدوجہد کا مقصد وطن کی آزادی ہے اور یہ بھی کہ بلوچ سماج میں نوآبادیاتی اثرات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور ہر طرح کے منفی رجحانات کو رد کر کے آزاد سماج کی تشکیل ممکن بنائی جائے جہاں انسان کی خودداری کو کوئی ٹھیس نہ پہنچائی جا سکے۔ چیئرمین زبیر بلوچ ان درج بالا فقروں کی عملی تصویر تھے۔ ان کے رویے اور عمل کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہر طرح کے منفی رجحانات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کا عکس تھے۔ ایک وقت میں ان کی کسی ملاقات کی تصویر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر ایک پل کے لیے بھی وہ دل برداشتہ نہ ہوئے اور جدوجہد میں اپنے حصے کا فرض نبھانے میں اور زیادہ تندہی سے جڑے رہے۔

بی ایس او سے فراغت کے بعد ایک وکیل اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے انہوں نے اپنے اہداف متعین کر لیے تھے۔ جس طرح میں نے پہلے کہا کہ بہانہ سازی اور مجبوریوں کا عذر پیش کرنے والے وہ شخصیت ہی نہیں تھے۔ اگر وہ دالبندین تک پریکٹس کے لیے جانے کی بجائے اپنے گھر مستونگ میں وکالت کرنے کا جواز بناتے تو اس سے ان پر ایک حرفِ تنقید بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جس طرح بی ایس او میں جدوجہد کے دوران نمود و نمائش سے مبرا تھے، اسی طرح وکالت کے پیشے کو اختیار کرنے اور عملی میدان میں اپنی خدمات دینے کے لیے انہوں نے دالبندین کا چناؤ کیا۔ ان کے قریبی حلقے ان کے اس عمل پر حیران تھے کہ اتنی دور جانے اور پریکٹس کرنے کی کیا منطق ہے، لیکن زبیر بلوچ کو سمجھنے والے یہ پرکھ چکے تھے کہ سرزمینِ بلوچستان پر بات کرنے کے دوران جوشیلے انداز میں للکارنے والا زبیر اپنا ہر قدم اٹھانے سے پہلے دلیل بھی رکھتا ہے۔ جوش و جنون میں خطاب کرتے ہوئے وہ دلیل و منطق اور سیاسی نقطہ خیزی کو بھی مدنظر رکھتے۔ فکر اور عمل کا بہترین امتزاج رکھنے والے اگر کسی سیاسی رہنماء کی عکس کشی کی جائے تو ان تصاویر میں سے ایک تصویر لازمی طور پر زبیر کی ہوگی۔

دالبندین میں وکالت کے دوران بلوچ عوام میں ایک قوم دوست عوامی وکیل تھے۔ مستونگ آتے تو چوک پر سیاسی جلسے میں خطاب کرتے، مستونگ کے سیاسی ورثے کی یاد دلاتے اور کوئٹہ میں ہوتے تو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں ماما قدیر کے ساتھ ہم نشست ہوتے۔ جہاں بولنے کی ضرورت محسوس کرتے اپنی بات بغیر کسی لگی لپٹی کے منطقی انداز میں رکھتے۔

زبیر بلوچ سیاسی کارکنوں کے لیے ایک مثال بن کر جئے اور ثابت کیا کہ وطن کی آزادی سے قبل اپنے آپ کو ہر طرح کے منفی جذبات و رجحانات سے نجات پا لینا لازمی ہے۔ یہ نوآبادیاتی رجحانات ہمارے سماج میں داخل کیے گئے ہیں، ہم ایسے نہیں تھے اور بلوچ اپنی پرانی آزاد حیثیت میں بحالی کے بعد نہ ایسے ہوں گے۔ زبیر بے لوث جہدکار اور متحرک جہدکار تھے۔ سیاسی کارکنوں کے لیے ان کی جدوجہد قابلِ تقلید ہے۔ اسی لیے تو کہتی ہوں کہ زبیر بلوچ جیسے رہنماؤں کے لیے حقیقتاً کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کمی محسوس کی جاتی رہے گی۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ڈیرہ مراد جمالی: پٹ فیڈر کینال کے مقام پر ریلوے پل پر بم دھماکہ، ریل سروس متاثر

جمعرات اکتوبر 9 , 2025
ڈیرہ مراد جمالی میں پٹ فیڈر کینال کے مقام پر ریلوے ٹریک کے پل پر بم دھماکہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچا۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ