
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سابقہ انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کو ایک شعوریافتہ و طلباء رہنماء ہونے کی پاداش میں گزشتہ نو سالوں سے قابض پاکستانی فورسز نے ٹارچر سیلوں میں قید رکھا ہے جو ناصرف قابض کی شکست کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس بات کی بھی ثبوت ہے کہ بلوچ سیاسی جہدکار قابض کے ٹارچر سیلوں میں بھی ٹوٹنے و جھکنے کے بجائے دشمن کے مظالم کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ میں وہ ابواب ہیں جہاں ہر مظلوم قوم نے اپنی آزادی سے پہلے مزاحمت کی وہ باریک مگر طاقتور راستے کو چھن کر ظالم و قابض کے خلاف سر جھکانے کے بجائے سینہ تان کر ان کے خلاف جدوجہد میں گزارے ہیں، اسی طرح بلوچ قوم بھی تاریخ کے انہی ابواب میں داخل ہے جس میں بلوچ نوجوان شعور سے لیس اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔
انہوں نے کہا شبیر بلوچ وہ شعوریافتہ نوجوان ہے جنہوں نے نا صرف قومی غلامی کو محسوس کیا بلکہ انہوں نے سیاسی جدوجہد سے اپنے قوم کے نوجوانوں کو غلامی کی ناسور مرض کے خلاف جدوجہد کرنے میں رہنمائی کی جن کے پاداش میں ان کو نو سالوں سے ٹارچر سیلوں میں قید رکھا گیا ہے، مگر دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم نے آزادی کی سنہری روشنی کو دیکھنے سے پہلے قربانیوں کے عظیم کارنامے سرانجام دیے۔
اسی طرح بلوچ قوم بھی اپنے جائز آزادی کی جدوجہد میں ٹارچر سیلوں کی ازیتیں، ڈرل شدہ اجسام، مسخ شدہ لاشوں دیکھنے کے باوجود بھی اپنی آزادی کی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوئی ہے۔
بی ایس او ترجمان کے مطابق شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو قابض پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے علاقے کیچ میں غیر قانونی حراست میں لے کر جبری طور پر گمشدہ کیا، جو نو سالوں سے ٹارچر سیلوں میں بند ہے وہ ایک باشعور بلوچ سیاسی کارکن کے حیثیت سے پرامن سیاسی جدوجہد کررہا تھا مگر ان کی شعور و حقیقی جدوجہد قابض فورسز کو راس نہیں آئی تو اپنے مظالم چھپانے کے لیے ان کو جبری طور پر گمشدہ کیا مگر باشعور بلوچ نوجوانوں کی نظریاتی کاروان بی ایس او آزاد کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ شبیر جیسے نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں میں بند کرنے سے تنظیم کمزور ہونے کے بجائے نظریاتی و فکری حوالے سے مزید منظم ہوگئی ہے اور شبیر بلوچ کے نظریاتی ساتھی ان کے فکری کاروان کو آگے لے جانے میں اپنے انقلابی کردار کو ادا کرنے میں مصروف ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ شبیر جیسے کردار جو برسوں سے زندانوں میں قید ازیتیں سہ رہے ہیں، بلوچ نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں، بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ انہی عظیم انقلابی کرداروں کے بارے میں اپنے قوم کو آگاہ کرنے سمیت ان کی دی گئی راہ پر چل کر قومی زمہ داریوں کو نبھانے میں اپنی کردار ادا کریں۔