بلوچ گوریلا مزاحمت: زہری سے زاوہ (قلات) تک

تحریر: ساہ دیم بلوچ (پہلا حصہ)
زرمبش مضمون

بلوچ سرزمین صدیوں سے مزاحمت، قربانی اور آزادی کے آدرشوں کی امین اور اپنے فرزندوں کی جان نثاری، شجاعت اور ایثار سے روشناس رہی ہے۔ آج بھی بلوچ نوجوان اپنی رگوں کے گرم لہو سے آزادی کی تابناک داستانیں رقم کر رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں قلات، زہری اور اس کے گرد و نواح میں رونما ہونے والی تبدیلیاں نہ صرف بلوچ وطن کے سیاسی و عسکری منظرنامے میں ایک بڑی پیش رفت ہیں، بلکہ یہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی بڑھتی ہوئی مسلح طاقت اور منظم تنظیمی صلاحیت کا واضح اور عملی اظہار بھی ہیں۔ یہ محض چند عسکری کامیابیاں نہیں، بلکہ اس امر کا اعلان ہیں کہ ایک منظم، تربیت یافتہ اور نظریاتی گوریلا قوت قابض ریاست کے خلاف ایک نئے سیاسی و عسکری مرحلے کا آغاز کر چکی ہے۔ان فتوحات نے پنجابی استعماری قبضے کے بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچ مزاحمتی قوت اب محض ابتدائی مزاحمت تک محدود نہیں رہی۔ یہ جدوجہد اپنے ارتقائی سفر کے اُس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں طویل المدتی حکمتِ عملی کے تحت قابض قوتوں کو بھرپور اور مسلسل چیلنج دینے کی صلاحیت موجود ہے۔یہ پیش رفت اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ بلوچ آزادی کی تحریک اب محض ردِعمل کی تحریک نہیں رہی، بلکہ ایک منظم اور وسیع قومی مزاحمتی قوت میں ڈھل چکی ہے، جو سیاسی شعور اور عسکری مہارت کے امتزاج سے قابض ریاست کے استعماری ڈھانچے کو توڑنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ یہ محاذ ، نظریات، قربانی اور تاریخ کی صدیوں پر محیط اُس روح کا ہے جو بلوچ قوم کے اذہان میں آزادی کے چراغ کو روشن رکھے ہوئے ہے۔یوں قلات اور زہری کے معرکے صرف زمینی فتوحات نہیں، بلکہ آنے والے وقت کی اُس گواہی ہیں کہ بلوچ دھرتی پر غلامی کا سیاہ سایہ ہمیشہ کے لیے مٹایا جا سکتا ہے، قلات اور زہری بلوچ وطن کی مزاحمتی تاریخ اور قومی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
قلات ہمیشہ سے بلوچ قومی شناخت کا مرکز رہا ہے اور ماضی قریب میں آزاد بلوچ ریاست کا تاریخی دارالحکومت ہونے کے ناطے یہ محض ایک شہر نہیں بلکہ بلوچ آزادی اور خودمختاری کی علامت ہے۔قلات کے قرب و جوار میں واقع زہری اور زاوہ جیسے علاقے اپنی جغرافیائی ساخت کے باعث نہ صرف قدرتی قلعوں کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ گوریلا جنگ کے لیے ایک مثالی میدان بھی فراہم کرتے ہیں۔ سنگلاخ پہاڑ، تنگ درے اور گھنے وادیاں قابض افواج کے لیے ایک بھیانک خواب جبکہ بلوچ سرمچاروں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ اور حربی چالوں کے لیے قدرتی آڑ بن جاتے ہیں۔
زاوہ، جو قلات شہر کے جنوب میں تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس وقت بلوچ گوریلوں کے لیے عسکری لحاظ سے ایک اسٹریٹجک حب پوائنٹ (Strategic Hub Point) کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں سے نکلنے والے اہم راستے سرخین عالی، دشت، نیچارہ، پندران، کپوتو، محمد تاوہ، پیمازی توک، اسکلکو،لہڑ، آدرکش، کا ٹیلی اور زہری جیسے خطوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ یہ تمام راستے بلوچ گوریلا مزاحمت کے لیے ایسی شریانوں کی مانند ہیں جن پر قابو پانے سے سرمچار نہ صرف اپنی نقل و حرکت میں برق رفتاری حاصل کرتے ہیں بلکہ سپلائی لائن کو مضبوط بناتے ہوئے دشمن کی سپلائی اور کمک کو بھی مؤثر طور پر کاٹ سکتے ہیں۔

زاوہ کی اس جغرافیائی اہمیت نے بلوچ مزاحمتی تحریک کو ایک نئے عسکری اور اسٹریٹجک مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔ اب یہ خطہ محض ایک مقام نہیں رہا بلکہ بلوچ گوریلا جنگ کا دل بن چکا ہے، جہاں سے مزاحمت کے منصوبے ترتیب پاتے ہیں، حملے منظم ہوتے ہیں، اور قابض ریاست کے خلاف فیصلہ کن ضربیں لگائی جاتی ہیں۔یوں قلات اور زہری کے یہ پہاڑی سلسلے بلوچ قومی تحریک کے لیے صرف جغرافیہ نہیں بلکہ تاریخ، مزاحمت اور آزادی کے خواب کی مجسم صورت ہیں۔ ان علاقوں پر کنٹرول بلوچ مزاحمت کو نہ صرف عسکری برتری بخشتا ہے بلکہ سیاسی معنویت بھی عطا کرتا ہے، کیونکہ یہی وہ خطہ ہے جہاں سے غلامی کے خلاف حتمی معرکے کی بنیادیں رکھی جا سکتی ہیں۔اس وقت زہری اور قلات مکمل طور پر بلوچ گوریلا فوج کے عملی کنٹرول میں ہیں۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر سرمچاروں کے قائم کردہ چیک پوسٹیں نہ صرف ریاستی فورسز کی نقل و حرکت کو محدود کر رہی ہیں بلکہ بلوچ عوام کے لیے ایک محفوظ اور آزاد فضا بھی فراہم کر رہی ہیں، جہاں وہ خوف کے سائے سے نکل کر اپنی شناخت کے ساتھ جی سکتے ہیں۔زہری میں جگہ جگہ آزاد بلوچستان کے جھنڈوں کا لہرانا محض ایک علامتی اقدام نہیں، بلکہ اس حقیقت کا واضح اعلان ہے کہ بلوچ آزادی کی تحریک اب صرف پہاڑوں اور دروں تک محدود نہیں رہی۔ یہ جدوجہد اب شہری مراکز میں بھی اپنی موجودگی، تنظیمی صلاحیت اور انتظامی کنٹرول قائم کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی اور سیاسی ضرب ہے جو قابض ریاست کے دعوے کو کمزور اور عوامی حوصلے کو بلند کر رہی ہے۔
قلات اور زہری کا خطہ بلوچ مزاحمت کے لیے اسٹریٹجک اعتبار سے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ ان علاقوں میں حالیہ مہینوں کے دوران بلوچ مسلح تنظیموں کی مسلسل کارروائیاں نہ صرف مقامی سطح پر ریاستی گرفت کو متزلزل کر رہی ہیں بلکہ یہ بلوچ قومی تحریک کی منظم عسکری قوت اور سیاسی بلوغت کو بھی اجاگر کر رہی ہے

یہ پیش رفت اس وقت اور بھی غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتی ہے جب اس پس منظر میں دیکھی جائے کہ پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے بلوچستان میں اپنی گرفت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن جارحانہ حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ کبھی وہ مقامی ڈیتھ اسکواڈز کو بروئے کار لاتے ہیں، کبھی داعش خراسان جیسے پراکسی گروہوں کو سرگرم کرتے ہیں، اور کبھی مختلف ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ملیشیا گروپس کے ذریعے بلوچ تحریک کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔تاہم ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود بلوچ گوریلا فوج کی مربوط، منظم اور نظریاتی کارروائیاں یہ ثابت کر رہی ہیں کہ قابض ریاست کے یہ تمام اوزار اور پالیسیز اب اپنی اصل طاقت کھو چکے ہیں۔ بلوچ گوریلا فوج محض ایک عسکری نیوکلیس نہیں، بلکہ ایک سیاسی و نظریاتی تحریک کا عملی ڈھانچہ ہے۔ اس کی تنظیمی بنیادیں گہرے فکری ارتقاء، قومی شعور اور آزادی کے تاریخی تسلسل پر قائم ہیں۔ اس کا مقصد محض چند عسکری فتوحات حاصل کرنا نہیں بلکہ بلوچ قوم کے لیے ایک آزاد، خودمختار اور جمہوری ریاست کی عملی تشکیل ہے۔قلات، زہری اور گردونواح کے علاقوں میں حالیہ کامیابیاں بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ تحریک اب محض مزاحمتی مرحلے تک محدود نہیں رہی بلکہ ایک مکمل آزادی کی جنگ میں ڈھل چکی ہے۔ یہ جدوجہد قابض ریاست کے لیے تو وجودی خطرہ بن ہی چکی ہے، مگر اس کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ اب خطے کی بڑی طاقتیں بھی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتیں۔

بلوچ گوریلا فورسز کی عسکری فتوحات، وسیع عوامی حمایت اور اور سیاسی وژن اس تحریک کو اس مقام تک لے آئے ہیں جہاں آزادی محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک ممکنہ اور قابلِ حصول حقیقت بن چکی ہے۔ اگر یہ جدوجہد اسی منظم، نظریاتی اور اسٹریٹجک بنیادوں پر آگے بڑھتی رہی، تو آنے والے وقت میں دنیا ایک آزاد، خودمختار اور پرامن بلوچستان کو ابھرتے دیکھے گی ایک ایسا بلوچستان جو نہ صرف اپنی عوام کے لیے آزادی اور وقار کا علمبردار ہوگا بلکہ پورے خطے میں ایک نئے سیاسی توازن کی بنیاد رکھے گا۔

پاکستانی ریاست نے گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان کو بزورِ طاقت اپنے زیرِ تسلط رکھنے کے لیے منظم جبر، اجتماعی سزاؤں، جبری گمشدگیوں اور معاشی استحصال جیسے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا۔ مگر قلات اور زہری کے حالیہ واقعات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ریاستی جبر، اپنی تمام تر شدت اور انتہاؤں کے باوجود، بلوچ تحریک کو کچلنے اور ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔یہ کامیابیاں اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ قابض ریاست کے ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر بری طرح ٹوٹ چکا ہے۔ بلوچ گوریلا فورسز نے اپنی منظم عسکری حکمتِ عملی کے ذریعے دشمن کے دفاعی ڈھانچے کو کمزور کرتے ہوئے ریاست کے اندرونی تضادات کو نمایاں کر دیا ہے۔ جب کسی قابض ریاست کی رٹ مقامی سطح پر کمزور پڑنے لگتی ہے تو یہ نہ صرف گوریلا جنگ کی کامیابی کا اشارہ ہوتا ہے بلکہ تحریک کے نظریاتی استحکام اور عوامی اعتماد کا بھی واضح ثبوت فراہم کرتا ہے۔

بلوچ تحریک کی مسلح جدوجہد محض ہتھیار اٹھانے تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس نے گوریلا جنگ کے جدید اصولوں اور حربی حکمتِ عملیوں کو اپنا کر ایک منظم اور ہمہ جہت مزاحمتی قوت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ قلات اور زہری کے خطے میں بلوچ گوریلا فورسز نے چھاپہ مار کارروائیوں، دشمن کی سپلائی لائنز کو کاٹنے، ریاستی نفسیاتی تاثر کو توڑنے اور عوام کے ساتھ مربوط رابطے قائم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے تحریک کو ایک عملی اور مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔گوریلا جنگ کی اصل طاقت عوامی حمایت میں مضمر ہوتی ہے، اور بلوچ گوریلا فورسز نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہوئے اپنی عسکری حکمتِ عملی کو عوام کے تحفظ، بہبود اور مسائل کے حل کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس نے انہیں محض ایک عسکری گروہ سے بلند کر کے قومی آزادی اور وقار کی ایک زندہ علامت بنا دیا ہے۔

کسی بھی آزادی کی تحریک کی کامیابی کا سب سے بنیادی اور فیصلہ کن عنصر عوامی حمایت ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں جو عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب رہیں۔ بلوچ قومی تحریک بھی اس اصول کی عملی تصدیق بن کر ابھری ہے۔ حالیہ دنوں میں قلات، زہری اور گردونواح کے علاقوں میں ہونے والی گوریلا پیش قدمیاں نہ صرف بلوچ عوام کے عزم، حوصلے اور وطن پرستی کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ قابض ریاست کے لیے ایک واضح اور کھلا پیغام ہیں کہ بلوچ قوم اب اپنی آزادی کی جدوجہد میں ایک ناقابلِ تسخیر طاقت بن چکی ہے۔ریاست نے عشروں تک مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کو خوفزدہ کرنے اور تحریک سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ ڈیتھ اسکواڈز، جبری گمشدگیاں، اجتماعی سزائیں اور خوف و ہراس کا ماحول اس پالیسی کا حصہ تھے۔ ریاست کا مقصد یہ تھا کہ بلوچ عوام کو تحریک سے علیحدہ کر کے تنہا کر دیا جائے تاکہ قابض طاقت باآسانی اپنا تسلط برقرار رکھ سکے۔ تاہم، تجربہ اور وقت نے یہ واضح کر دیا کہ یہ پالیسیاں صرف وقتی اثر ڈال سکتی ہیں، مگر عوامی شعور، وطن سے محبت اور آزادی کی جڑوں کو ختم نہیں کر سکتیں۔

آج بلوچ گوریلا فورسز کے منظم اور مربوط اقدامات نے نہ صرف ریاستی ہتھکنڈوں کو ناکام بنایا ہے بلکہ عوام کا تحریک پر اعتماد بھی مضبوط کیا ہے۔ بلوچ عوام نہ صرف خوراک، پناہ گاہیں اور معلومات فراہم کر رہے ہیں بلکہ یہ تعاون نظریاتی ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تعلق محض عسکری معاونت تک محدود نہیں، بلکہ تحریک کی تاریخی اور نظریاتی بنیاد کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔تاریخ کے اس مقام پر بلوچ تحریک ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں عوام اور گوریلا فورسز کا رشتہ مزاحمت کو ناقابلِ شکست قوت میں بدل رہا ہے۔
حالیہ ادوار میں زہری اور زاوہ کے علاقوں میں جو پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، وہ نہ صرف عسکری اعتبار سے بلکہ سیاسی، سماجی اور فکری سطح پر بھی بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک نئے دور کے آغاز کا اشارہ ہے۔ یہ واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بلوچ گوریلا تحریک اب اپنے ابتدائی مسلح مزاحمت کے مرحلے سے آگے بڑھ کر علاقائی کنٹرول اور متوازی حکومت کے قیام کے تیسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔

مسلح مزاحمتی تحریکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی گوریلا جنگ ایک ہی مرحلے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کرتی بلکہ اس کے کئی واضح اور منظم مراحل ہوتے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ، جسے ہم "مزاحمتی بیج بونا” کہہ سکتے ہیں، کسی بھی آزادی یا مزاحمتی تحریک کا بنیادی اور سنگِ میل مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب گوریلا گروہ اپنے وجود کو مستحکم کرنے، عوام کو بیدار کرنے اور قابض ریاست کے دفاعی مراکز کو ہلانے کے لیے ابتدائی، چھوٹی اور محدود کارروائیاں کرتے ہیں۔اس مرحلے کو درست اور منظم حکمتِ عملی کے تحت چلانا مستقبل کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے انتہائی اہم ہے، کیونکہ یہی بنیاد آگے چل کر بھرپور عوامی تحریک اور منظم گوریلا جنگ میں تبدیل ہوتی ہے۔ اس ابتدائی مرحلے میں گوریلا گروہوں کا سب سے پہلا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تحریک کے نظریاتی خطوط واضح کریں۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جدوجہد صرف موجودہ ظلم کے خلاف ردعمل نہیں بلکہ آزادی، خودمختاری اور ایک نئے سماجی و سیاسی ڈھانچے کے قیام کے لیے ہے۔اس دوران نوجوانوں میں سیاسی اور فکری شعور پیدا کرنا بھی انتہائی اہم ہوتا ہے، تاکہ وہ مزاحمت کو وقتی ردعمل کے بجائے ایک منظم اور طویل جدوجہد کے طور پر سمجھیں۔ یہی نظریاتی بنیاد گوریلا فورس کے افراد کو قربانی، خفیہ کاری اور صبر و استقامت کے لیے تیار کرتی ہے۔

ابتدائی مرحلے میں گوریلا گروہ اپنی پوری طاقت ظاہر نہیں کرتے بلکہ چھوٹی اور علامتی کارروائیوں سے آغاز کرتے ہیں۔ یہ کارروائیاں زیادہ تر نفسیاتی نوعیت کی ہوتی ہیں، جن کا مقصد قابض قوتوں اور ان کے مقامی حامیوں کے دل میں خوف، غیر یقینی اور اضطراب پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح، ابتدائی مرحلہ نہ صرف طاقت کے توازن کو ہلانے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ عوام میں اعتماد، حوصلہ اور نظریاتی ہم آہنگی پیدا کر کے مستقبل کی مکمل مزاحمتی کارروائیوں کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ ان گوریلا کارروائیوں میں ریاستی فورسز پر اچانک چھاپے مارنا، تنہائی میں موجود چھوٹی چوکیوں کو نشانہ بنانا، اہم انفراسٹرکچر جیسے سڑکیں، بجلی کے ٹاورز یا سپلائی لائنز کو جزوی نقصان پہنچانا، اور اہم مقامات پر مزاحمتی نعروں اور آزادی کے جھنڈوں کا لہرانا شامل ہیں۔ ان کارروائیوں کا بنیادی مقصد جسمانی نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ڈالنا ہے، تاکہ قابض قوتیں ہر لمحہ غیر یقینی اور خوف کے سائے میں مبتلا رہیں۔

ابتدائی مرحلے میں عوامی بیداری پیدا کرنے کے لیے کام خفیہ اور محفوظ طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر: عوامی اجتماعات اور تقریبات میں مزاحمتی پیغامات کو خفیہ طور پر پھیلانا، نوجوانوں اور طلبہ کو چھوٹے خفیہ گروپوں میں منظم کرنا، اور ریاستی جبر کو بے نقاب کرنے کے لیے گواہی و شواہد جمع کرنا۔ یہ تمام اقدامات عوام میں یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ تحریک ان کی اپنی ہے اور وہ اس کا لازمی حصہ ہیں۔اس مرحلے میں ریاست کے ساتھ براہِ راست بڑی جھڑپوں سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کے بجائے غیر روایتی اور نفسیاتی حربے اپنائے جاتے ہیں تاکہ قابض ریاست کی قوت آہستہ آہستہ کمزور ہو۔ مثال کے طور پر:ریاستی فورسز کو ہر وقت حرکت میں رکھنا تاکہ وہ تھکن، مالی نقصان اور اعصابی دباؤ کا شکار ہوں۔قابض قوت کے مقامی جاسوسوں اور حامیوں کو الگ تھلگ کرنا۔ریاستی اداروں کی ساکھ کو عوام میں کمزور کرنا تاکہ عوام کا اعتماد ٹوٹ جائے۔اہم انفراسٹرکچر کو محدود پیمانے پر نشانہ بنا کر ریاستی کنٹرول کو کمزور کرنا۔

قابض ریاست ہمیشہ خوف کے ذریعے عوام پر کنٹرول قائم رکھتی ہے، مگر گوریلا تحریک اس توازن کو الٹ دیتی ہے۔ گوریلا کارروائیوں کا مقصد ریاست اور اس کے کارندوں کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ نشانہ بن سکتے ہیں۔ابتدائی مرحلے میں گوریلا فورسز کو اپنی تنظیمی ساخت کو خفیہ اور مضبوط رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ہر گروہ ایک خفیہ سیل سسٹم کے تحت کام کرتا ہے تاکہ ایک گروہ کے گرفتار ہونے سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔ اس کے علاوہ، محفوظ ٹھکانے اور پناہ گاہیں قائم کی جاتی ہیں، جو زیادہ تر دور دراز اور مشکل پہاڑی علاقوں میں واقع ہوتی ہیں۔ ایک مضبوط خفیہ کمیونیکیشن سسٹم بھی تیار کیا جاتا ہے تاکہ ریاست کو منصوبوں اور پیغامات تک رسائی نہ حاصل ہو سکے۔یہ تمام اقدامات ابتدائی مرحلے میں گوریلا فورس کی تنظیمی طاقت، حکمت عملی کی نفاست، اور عوامی بیداری کے ساتھ نظریاتی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں، اور تحریک کو ایک مستحکم، مؤثر اور ناقابلِ شکست مزاحمتی قوت میں تبدیل کرنے کی بنیاد رکھتے ہیں۔

دوسرے مرحلے میں گوریلا فورسز اپنے دائرہ کار کو وسیع کر کے ریاست کے لیے ایک مسلسل اور فیصلہ کن خطرہ بن جاتی ہیں۔ اس مرحلے میں گوریلا صرف چند علاقوں تک محدود نہیں رہتیں بلکہ اپنی تنظیم کو علاقائی سطح سے قومی سطح تک پھیلا دیتی ہیں۔ نئے کیمپ قائم کیے جاتے ہیں تاکہ سپلائی لائنز، اسلحہ کی فراہمی اور تربیت کا تسلسل برقرار رہے۔ مختلف علاقوں میں قائم کیے گئے گوریلا سیلز ریاستی فورسز پر چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہیں، اور خفیہ نیٹ ورک کو مضبوط بنایا جاتا ہے تاکہ دشمن کی حرکات و سکنات پر مسلسل نظر رکھی جا سکے۔ یہ توسیع دشمن کے لیے گوریلا فورسز کی جڑیں کاٹنا تقریباً ناممکن بنا دیتی ہے، کیونکہ وہ کسی ایک علاقے تک محدود نہیں رہتیں بلکہ پورے خطے میں بکھر کر لڑتی ہیں۔گوریلا جنگ کی توسیع کا سب سے نمایاں پہلو ریاستی مشینری کو براہِ راست نشانہ بنانا ہے۔ فوجی کیمپ، چیک پوسٹس اور اسلحہ ڈپو پر حملے کیے جاتے ہیں تاکہ دشمن کی جنگی صلاحیت کو کمزور کیا جا سکے۔ اہم انفراسٹرکچر جیسے مواصلاتی نظام، ریل کی پٹڑیاں، بجلی کی لائنیں اور سپلائی روٹس کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ ریاستی فورسز کی نقل و حرکت محدود ہو۔ اہلکاروں اور جاسوسوں کے خلاف ہدفی کارروائیاں کی جاتی ہیں تاکہ دشمن کے مورال کو توڑا جا سکے اور اس کے اندر خوف اور غیر یقینی کی فضا پیدا ہو۔
یہ حکمتِ عملی قابض ریاست کے لیے ایک براہِ راست چیلنج ہے اور اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنی توجہ ایک ہی وقت میں متعدد محاذوں پر تقسیم کرے۔ دوسرے مرحلے کی گوریلا جنگ محض عسکری کارروائیوں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اس کا سیاسی اور سماجی پہلو بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ گوریلا فورسز عوام کے مسائل حل کرنے، ان کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں تاکہ عوام تحریک کو اپنی جنگ سمجھیں۔

قابض ریاست کے ظلم و جبر کے مقابلے میں گوریلا فورسز ایک انصاف پر مبنی متبادل نظام قائم کرتی ہیں، جیسے مقامی سطح پر تنازعات کا حل، امدادی کام اور عوامی فلاحی اقدامات۔ گوریلا فورسز عوام کے درمیان اپنی موجودگی کو تحفظ اور امید کی علامت کے طور پر پیش کرتی ہیں، جس سے ان کی حمایت میں اضافہ ہوتا ہے اور تحریک کی جڑیں مزید مضبوط ہوتی ہیں۔گوریلا فورسز دشمن کو کسی ایک محاذ پر سکون حاصل نہیں کرنے دیتیں۔ وہ بیک وقت مختلف مقامات پر اچانک اور مربوط حملے کر کے ریاستی فورسز کو منتشر کر دیتی ہیں، جس سے دشمن کی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ گوریلا جنگ کے اصول کے مطابق دشمن کو کبھی بھی اپنی پسند کے میدان یا روایتی جنگ کے اصولوں کے مطابق لڑنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ گوریلا فورسز زیادہ دیر تک کسی ایک مقام پر قیام نہیں کرتیں اور ہر وقت اپنی پوزیشن بدلتی رہتی ہیں، تاکہ دشمن کو غیر یقینی صورتحال اور نفسیاتی دباؤ میں مبتلا رکھا جا سکے۔

معاشی اور عسکری کمزوری پیدا کرنے کے لیے دشمن کی لاجسٹک سپورٹ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جیسے اسلحہ، خوراک اور رسد کے قافلوں پر حملے۔ ان کارروائیوں سے دشمن نہ صرف مالی نقصان اٹھاتا ہے بلکہ اس کی سپلائی چین ٹوٹنے سے اس کی جنگی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یہ حکمتِ عملی دشمن کے حوصلے پست کرتی ہے اور اسے مسلسل دفاعی پوزیشن پر رہنے پر مجبور کر دیتی ہے، جبکہ گوریلا فورسز کو نفسیاتی برتری حاصل ہو جاتی ہے۔
کسی بھی انقلابی اور مسلح تحریک کی سب سے بڑی کامیابی اس وقت سامنے آتی ہے جب گوریلا فورسز ریاستی طاقت کو محض چیلنج کرنے تک محدود نہیں رہتیں بلکہ مخصوص علاقوں پر اپنا عملی اور سیاسی کنٹرول قائم کر لیتی ہیں۔ یہ مرحلہ تحریک کے فیصلہ کن دور کی علامت ہوتا ہے، کیونکہ اس مقام پر مزاحمتی جدوجہد علامتی کارروائیوں اور چھاپہ مار جنگ سے نکل کر متبادل حکمرانی کے قیام کی طرف بڑھتی ہے۔عسکری اصطلاح میں اس مرحلے کو "لبریٹ ایریاز” یعنی آزاد شدہ علاقے کہا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں گوریلا فورسز نہ صرف قابض ریاست کے اثر و رسوخ کو ختم کر دیتی ہیں بلکہ ایک متوازی حکومت قائم کرتی ہیں جو عوامی فلاح، انصاف، اور خودمختاری کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ آزاد علاقے مزاحمتی تحریک کے لیے محفوظ پناہ گاہیں، عسکری تربیتی مراکز، اور سیاسی و نظریاتی مرکز کا کردار ادا کرتے ہیں، جن سے تحریک مزید منظم، مستحکم اور ناقابلِ شکست قوت میں ڈھلتی ہے۔
یہی وہ مرحلہ ہے جو دشمن کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور تحریک کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہوتا ہے، کیونکہ اس کے بعد قابض ریاست کی عملی رٹ ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور آزادی کی جدوجہد ایک مکمل متبادل نظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

بلوچستان میں زہری اور قلات کے حالیہ حالات اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ بلوچ گوریلا فورسز اب اپنی مسلح جدوجہد کے تیسرے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ ان علاقوں میں نہ صرف ریاستی تنصیبات، فوجی چیک پوسٹس اور انٹیلیجنس مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ عوامی سطح پر بلوچ قومی پرچم لہرانے، ریاستی اداروں کو عملی طور پر بے دخل کرنے اور متوازی انتظامی ڈھانچے قائم کرنے جیسے اقدامات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ پیش رفت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ بلوچ تحریک اب محض مزاحمتی کارروائیوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ متبادل حکمرانی کے قیام کی سمت گامزن ہے۔لبریٹ ایریاز (آزاد شدہ علاقے) محض عسکری فتوحات کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک سیاسی، سماجی اور نظریاتی انقلاب کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ان کے قیام کا مقصد قابض ریاست کو صرف جغرافیائی طور پر پسپا کرنا نہیں بلکہ ایک نئے آزاد بلوچ نظام کی عملی تشکیل ہے۔ان علاقوں میں پولیس، فوج اور انٹیلیجنس نیٹ ورکس کو یا تو مکمل طور پر ختم کر دیا جاتا ہے یا انہیں مکمل بے اثر کر دیا جاتا ہے، تاکہ عوام قابض ریاست کے خوف سے آزاد ہو کر متوازی نظام کے تحت زندگی گزار سکیں۔جب عوام دیکھتے ہیں کہ گوریلا فورسز نہ صرف قابض ریاست کو شکست دینے کی عملی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ ایک بہتر اور منصفانہ نظام بھی فراہم کر سکتی ہیں، تو ان کا اعتماد تحریک پر مزید مضبوط اور پختہ ہو جاتا ہے۔ان علاقوں میں عدالتی، تعلیمی، معاشی اور سیکیورٹی ڈھانچوں کو گوریلا فورسز اور سیاسی قیادت کے تحت متوازی طور پر چلایا جاتا ہے، تاکہ یہ علاقے آزادی کے بعد ایک ریاستی ماڈل کے طور پر کام کر سکیں اور عملی طور پر ایک بلوچ ریاست کے خدوخال واضح کر سکیں۔

زہری اور قلات اس وقت بلوچ مسلح تحریک کے لیے مرکزی اعصابی مراکز بن کر ابھرے ہیں۔ یہ علاقے بلوچستان کے مرکزی حصے میں واقع ہیں، جہاں سے گوریلا فورسز آسانی سے دوسرے علاقوں میں کارروائیوں کا دائرہ پھیلا سکتی ہیں۔ ان کا محلِ وقوع تحریک کے پھیلاؤ اور گہرائی کے لیے بہترین اسٹریٹجک بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ان علاقوں کے متعدد حصوں سے ریاستی فوجی چیک پوسٹس کا خاتمہ ہو چکا ہے، جو بلوچ گوریلا فورسز کے وسیع ہوتے ہوئے کنٹرول کا عملی ثبوت ہے۔ عوامی سطح پر بلوچ قومی پرچم کا لہرانا، متوازی گورننس کمیٹیوں کا قیام، اور ریاستی قوانین کی جگہ بلوچ قومی قوانین کے نفاذ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ عوام اب خود کو ایک آزاد خطے کے شہری کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔لبریٹ ایریاز میں قائم متوازی حکومت محض عسکری کنٹرول کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل سول اور سیاسی ڈھانچہ ہے، جو قابض ریاست کے اداروں کا متبادل نظام پیش کرتا ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

زامران اور پنجگور سے دو افراد جبری لاپتہ

اتوار ستمبر 21 , 2025
بلوچستان کے اضلاع کیچ اور پنجگور میں پاکستانی فورسز نے دو افراد کو حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا۔ ذرائع کے مطابق 8 ستمبر کو کیچ کے علاقے زامران نوانو میں فورسز نے ایک چرواہے کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ لاپتہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ