
تحریر: داد جان بلوچ
زرمبش مضمون
مظلوموں کی تعلیم و تربیت, مشہور برازیلی ماہر تعلیم پاؤلو فرائرے کی کتاب ہے۔ یہ کتاب انیس سو ستر میں شائع ہوئی اور اس کا بنیادی مقصد تعلیمی نظام کو سماجی انصاف کے لیے استعمال کرنا ہے۔ فرائرے نے تعلیم کے روایتی طریقوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ایک نیا تعلیمی ماڈل پیش کیا ہے جو آزادی اور شعور کے فروغ پر مبنی ہے۔
کتاب کا خلاصہ
مظلوم اور ظالم کا رشتہ
فرائرے کے مطابق، دنیا کو ظالم اور مظلوم کے درمیان تقسیم کیا جا سکتا ہے اور تعلیم کو اکثر ظالم طبقہ مظلوموں کو دبا کر رکھنے اور استحصال کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ سامراجی نظام کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام مظلوموں کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ اپنے حالات کو قبول کریں، تبدیلی کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی اس نظام کے خلاف جدوجہد کریں اور آواز اٹھائیں
بینکنگ ماڈل آف ایجوکیشن
فرائرے نے روایتی تعلیم کو "بینکنگ ماڈل” کہا، جس میں طلبہ کو محض "خالی برتن” سمجھا جاتا ہے جنہیں اساتذہ "علم” سے بھر دیتے ہیں۔ یہ ماڈل درج ذیل خصوصیات رکھتا ہے تاکہ طلبہ غیر فعال ہوجائیں نہ کہ تنقیدی سوچ اپناکر سوالات کریں۔ انہیں صرف یہ سمجھایا جاتاہے کہ سامراجی نظام ان کی بہتری کیلئے ہے مزاحمت بری ہے، ان کے ذہن میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ سامراجی جو کچھ کررہے ان کی بہتری کیلئے ہے لیکن اگر مظلوم آواز اٹھائیں تو ان کےقتل کو جائز قرار دیا جاتاہے اور انہیں سکھایا جاتاہے کہ یہ سب کچھ نظام کی بہتری کیلئے ہے حالانکہ یہ سب کچھ ان کی صلاحیتوں کو ختم کرکے محض بونہ بنانے کیلئے کیا جاتاہے۔
استاد واحد علم رکھنے والا تصور کیا جاتا ہے اور اس کے پڑھائے لفظ کو ہی حرف آخرسمجھانے کی کوشش ہوتی ہے تاکہ مزاحمتی سوچ پنپ نہ سکے۔ مثال کے طورپر پاکستانی نظام تعلیم میں ایسے لوگوں کو ہیرو بنایا گیاہے جوکہ اصل میں رھزن تھے، دراصل ان سب کا مطلب ایک کند ذہن تیار کرنا ہے تاکہ لوگ اپنی اصل ہیروز سے غافل رہیں اور ان کے محمود بن قاسم جیسے شدت پسندوں کو ہی ہیروز تسلیم کریں
اسلئے تعلیم کو طلبہ کی زندگی کے تجربات سے جوڑنے کے بجائے یک طرفہ عمل بنایا جاتا ہے
مسئلہ حل کرنے والی تعلیم (Problem-Posing Education):
اس کے برعکس فرائرے نے مسئلہ حل کرنے والی تعلیم کا ماڈل پیش کیا جو مکالمے، تنقید، اور شعور کے فروغ پر مبنی ہے۔ اس میں سقراط کےطریقہ تعلیم پر بھی بحث کی گئی ہے تاکہ استاد اور طالب علم دونوں اس سے استفادہ کرسکیں اور ایک اہم حل پر پہنچ سکیں اس میں استاد اور طالب علم برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
سوالات پوچھنے اور مسائل کو سمجھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ طلبہ کو اپنے سماجی حالات کو سمجھنے اور انہیں تبدیل کرنے کے لیے شعور دیا جاتا ہے اور انہیں یہ بتایا جاتا کہ فقط یہ صحیح اور وہ غلط ہے پر تکیہ نہ کریں بلکہ وہ خود راستہ ڈھونڈیں-
استعمار اور تعلیم
فرائرے کے مطابق، تعلیم کو نوآبادیاتی طاقتوں نے مظلوم قوموں کو دبانے کے لیے استعمال کیا۔ یہ طاقتیں ؛
مقامی ثقافتوں اور زبانوں کو کمتر ثابت کرتی ہیں تاکہ ان کی اسٹیٹ کو برقرار رکھا جائے
مظلوم طبقے کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی موجودہ حالت فطری اور ناقابل تبدیل ہے اور جدوجہد اور مزاحمت شجر ممنوعہ ہے۔ یہ نظام تعلیم ایک اندرونی استعمار پیدا کرتی ہیں جہاں مظلوم خود کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور ظالم کے اقدار کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بینکنگ ماڈل کا استعماری تناظر
استعمار کے دوران، بینکنگ ماڈل کو یوں استعمال کیا گیا ؛
ثقافتی غلامی: مقامی زبانوں، تاریخ، اور علم کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور استعماری زبانوں اور اقدار کو نافذ کیا جاتا ہے جیسا کہ اردو زبان کو پاکستان نے دوسرے اقوام پر مسلط کیا ہے۔
اس نظام کے ذریعے نو آبادیات کے شہریوں کو کم تر بے عقل اور غیر فعال اور اطاعت گزار بنانے کے لیے تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کا مقصد سماجی شعور کو دبانا مظلوم طبقات کو سماجی تبدیلی کے امکانات سے لاعلم رکھنا ہوتا ہے۔
یہ کتاب تعلیم کو ایک انقلابی عمل کے طور پر پیش کرتی ہے جہاں مظلوم طبقات نہ صرف اپنی حالت کو سمجھ سکیں بلکہ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ بینکنگ ماڈل کے برعکس، فرائرے کا تجویز کردہ تعلیمی طریقہ خود شناسی، سماجی شعور اور آزادی کے اصولوں پر مبنی ہے۔
اگر ہم اس فلسفے کو آج کے تناظر میں دیکھیں تو یہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ تعلیم کو صرف علم کی منتقلی کے بجائے شعور اور تبدیلی کے آلے کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
