
کراچی پریس کلب کے باہر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ مسلسل جاری ہے اور ہفتہ کو یہ کیمپ اپنے 40ویں روز میں داخل ہوگیا۔
لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انصاف کے تمام دروازے کھٹکھٹائے، عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور مقامی تھانے میں ایف آئی آر بھی درج ہے، مگر ریاستی ادارے اب تک زاہد کی گرفتاری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا: “اگر میرے بیٹے پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ خفیہ حراست اور ماورائے آئین حربے کسی صورت قبول نہیں کیے جائیں گے۔”
انہوں نے کہا کہ زاہد اپنے پورے گھر کی کفالت کر رہا تھا، لیکن جبری گمشدگی نے خاندان کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ صرف کراچی کے مختلف علاقوں سے متعدد بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا ہے۔ ان میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے کے رہائشی شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ کارکنوں کے مطابق یہ سب محنت کش اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی گمشدگی نے خاندانوں کو ناقابلِ برداشت اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
مظاہرین اور انسانی حقوق کے نمائندوں نے کہا کہ جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف جرم ہے اور آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ہر شہری کو گرفتاری کی صورت میں عدالت کے سامنے پیش کرنے اور شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم نہ کیا گیا تو یہ بحران پورے ملک کے لیے ایک بڑے انسانی المیے میں بدل سکتا ہے۔ مظاہرین نے حکومت اور اداروں سے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ افراد کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اس غیرقانونی پالیسی کو ختم کیا جائے۔
