
بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ پیر کو اپنے 35ویں روز میں داخل ہوگیا جبکہ اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی رہائی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے جاری دھرنا 55 دن مکمل کرچکا ہے۔
کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ میں شریک لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ جگر کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن بیٹے کی بازیابی کے لیے احتجاج پر مجبور ہیں۔ ان کے مطابق زاہد نے حال ہی میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا تھا اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے رکشہ چلاتا تھا۔ “میرا بیٹا محنتی اور بے ضرر نوجوان تھا، اگر اُس پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے،” عبدالحمید بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں سے کئی بلوچ نوجوان لاپتہ ہیں، جن میں شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں نے ان کے خاندانوں کو شدید ذہنی دباؤ اور معاشی مسائل سے دوچار کردیا ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد میں جاری احتجاج اپنے 55ویں روز میں داخل ہوگیا ہے جہاں بچے اور بزرگ اور خواتین سخت سردی، بارش اور دھوپ میں اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود نہ حکومت نے ان سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی مرکزی میڈیا نے ان کے مطالبات کو اجاگر کیا ہے۔
احتجاج میں شریک مظاہرین نے کہا کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی تک پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے گرفتار رہنماؤں سمیت تمام لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے اور ان کے خلاف اگر کوئی الزام ہے تو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔