
کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ اپنے 29ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ سخت گرمی اور مشکلات کے باوجود لاپتہ نوجوانوں کے اہلخانہ، جن میں خواتین، بزرگ اور بچے شامل ہیں، اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز تھے جن پر انصاف، آئین کی بالادستی اور انسانی حقوق کی بحالی کے مطالبات درج تھے۔
لاپتہ نوجوان زاہد بلوچ کے والد، حمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماری پور میں حالیہ دھرنا محض اس یقین دہانی پر ختم کیا گیا تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے گا، لیکن تاحال کسی کو رہا نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق یہ طرزِ عمل اہلخانہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
حمید بلوچ نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو کسی عدالتی حکم یا قانونی کارروائی کے بغیر لاپتہ کیا گیا۔ “اگر اس پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے، مگر یوں اچانک غائب کر دینا آئین اور انصاف دونوں کے منافی ہے،” انہوں نے کہا۔ ان کے مطابق زاہد بلوچ نے حال ہی میں کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ سے گریجویشن مکمل کی تھی اور گھر کے اخراجات میں مدد کے لیے رکشہ چلاتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود جگر کے عارضے میں مبتلا ہیں جبکہ مالی مشکلات بھی درپیش ہیں، ایسے میں بیٹے کی گمشدگی نے پورے خاندان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
اہلخانہ کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں سے ایک درجن کے قریب بلوچ نوجوان کئی ماہ سے لاپتہ ہیں، جن میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے کے شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں، جبکہ ملیر سے میر بالاچ بلوچ اور صادق مراد بلوچ بھی جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔
حمید بلوچ اور دیگر مظاہرین نے واضح کیا کہ جب تک نوجوانوں کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا، ان کی احتجاجی تحریک جاری رہے گی اور مزید وسعت اختیار کرے گی۔
