کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج، خواتین اور بچوں کی ریلی کے بعد مرکزی شاہراہ پر دھرنا

کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلا ماری پور کے علاقے سنگھور پاڑہ میں درجنوں خاندانوں نے اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاجی مارچ کیا، جو سائیکل چوک پہنچ کر دھرنے میں بدل گیا۔

ریلی میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شریک تھی جنہوں نے ہاتھوں میں لاپتہ رشتہ داروں کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر انصاف اور بازیابی کے مطالبات درج تھے۔ شرکا نے “ہمارے پیارے واپس کرو”، “جبری گمشدگیاں بند کرو” اور “انصاف چاہیے” جیسے نعرے لگائے۔ دھرنے کے باعث ماری پور روڈ کا ٹریفک شدید متاثر ہوا اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔

اس دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری بھی موقع پر پہنچی اور شاہراہ پر رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی، جس پر مظاہرین نے مزاحمت کی۔ کئی گھنٹوں تک آنکھ مچولی کے بعد یہ دھرنا اس وقت ختم ہوا جب سرکاری حکام نے مظاہرین سے مذاکرات کے دوران لاپتہ افراد کی بازیابی کی یقین دہانی کرائی۔

مظاہرے میں لاپتہ نوجوان شیراز بلوچ اور سیلان بلوچ کی بہن گل سدہ بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 23 مئی کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے چھاپہ مار کر ان کے دونوں بھائیوں کو حراست میں لیا اور اس کے بعد سے ان کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ “ہمارے گھر میں ویرانی چھا گئی ہے اور خاندان شدید ذہنی و مالی مشکلات کا شکار ہے۔”

اسی طرح سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن بلوچ نے کہا: “میرا بیٹا کئی مہینوں سے لاپتہ ہے۔ اگر اس نے کوئی قصور کیا ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے، مگر یوں چھین لینا ایک ماں کے لیے سب سے بڑا ظلم ہے۔” ان کے روتے ہوئے الفاظ سن کر احتجاج میں شریک کئی خواتین بھی اشکبار ہوگئیں۔

زاہد علی بلوچ کے والد حمید بلوچ نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو 17 جولائی 2025 کو لیاری سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ “سادہ لباس اہلکاروں نے زاہد کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر اس کا رکشہ بھی ساتھ لے گئے، اور آج تک اس کا کچھ پتہ نہیں۔ میں نے درجنوں بار پولیس اسٹیشنز اور سرکاری دفاتر کے چکر لگائے مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔”

مظاہرین نے دیگر لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کا بھی مطالبہ کیا جن میں رمیز بلوچ (24 مئی کو لاپتہ)، رحیم بخش بلوچ (23 مئی کو لاپتہ) اور رحمان بلوچ (24 مئی کو لاپتہ) شامل ہیں۔ اسی طرح میر بالاچ بلوچ اور صادق مراد بلوچ کی گمشدگی کا ذکر بھی کیا گیا جن کے لواحقین کئی ماہ سے انتظار میں ہیں۔

مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ جبری گمشدگیوں نے بلوچ خاندانوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ “مائیں اپنے بچوں کی راہ تک رہی ہیں، بہنیں بھائیوں کے انتظار میں ہیں، اور مرد حضرات روزگار چھوڑ کر تھانوں، عدالتوں اور احتجاجی کیمپوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔”

ریلی کے اختتام پر مظاہرین نے اعلان کیا کہ اگر ان کے پیارے جلد بازیاب نہ کیے گئے تو احتجاج مزید وسعت اختیار کرے گا اور شہر کے دیگر اہم مقامات پر بھی دھرنے دیے جائیں گے۔ مظاہرین نے زور دیا کہ ان کا مطالبہ صرف انصاف اور اپنے پیاروں کی بازیابی ہے، جو آئین اور قانون کے عین مطابق ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا دھرنا سخت موسم اور شدید بارش کے باوجود 48ویں روز بھی جاری

پیر ستمبر 1 , 2025
بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے گرفتار رہنماؤں کے اہلِ خانہ کا اسلام آباد میں دھرنا 48ویں روز بھی جاری رہا۔ مظاہرین اپنے پیاروں کی بازیابی، رہنماؤں کی رہائی اور انصاف کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ آج اسلام آباد میں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ