کمبر قاضی: قربانی، عمل اور آزادی کی صوفیانہ تاویل

تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچ گل زمین پر درد کے ہزاروں قصے اور کہانیاں بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ زمین صدیوں کی ، قربانی اور جدوجہد سے سیراب ہے۔ یہاں کا ہر پتھر، ہر ریگزار اور ہر پہاڑ گواہی دیتا ہے کہ اس خطے کے دیس وادیوں نے ہمیشہ وقت کے تھپیڑوں اور ظلم کے گھاؤ برداشت کیے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس مسلسل اذیت اور بے پایاں دکھ کے باوجود یہاں کے راہی اپنی مسافت سے باز نہیں آئے۔درد کا سفر ہمیشہ طویل ہوتا ہے۔ یہ انسان کی ہمت کو آزماتا ہے، اس کی روح کو زخمی کرتا ہے اور اس کے جسم کو تھکا دیتا ہے۔ لیکن جب یہ سفر صدیوں پر پھیل جائے، جب قربانیاں نسل در نسل داستانوں میں ڈھل جائیں، تو یہ دکھ محض ذاتی تجربہ نہیں رہتا، بلکہ ایک اجتماعی شعور کی علامت بن جاتا ہے۔ وہ شعور جو تاریخ کے صفحات پر سیاہی نہیں بلکہ خون سے لکھا جاتا ہے۔انسان کے وجود میں دو حقیقتیں ہمیشہ سے کارفرما رہی ہیں: ایک فنا اور دوسری بقا۔ فنا جسم کو حاصل ہے اور بقا روح کو۔ لیکن جب کوئی قوم اپنے اجتماعی دکھ کو فنا نہیں ہونے دیتی بلکہ اسے تاریخ کا حصہ بنا دیتی ہے، تو وہ دکھ بقا اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عشروں پر محیط زخم بھی مرہم نہیں ڈھونڈتے بلکہ نئی نسل کے سینوں میں نئی چنگاریاں بھڑکاتے ہیں یہی درد جب نسلوں میں منتقل ہوتا ہے تو وہ محض یاد نہیں رہتا، وہ تحریک بن جاتا ہے۔

اس مسلسل دکھ کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کا درد وقتی حادثہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور جاوید حقیقت ہے۔ یہ قربانیاں محض لمحاتی ردِعمل نہیں بلکہ ایک ایسے شعور کا ثبوت ہیں جو اپنی بقا کے لئے ہر کرب کو قبول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانیوں کی داستانیں محض گزرے ہوئے واقعات نہیں بلکہ آنے والے کل کے لئے رہنمائی کا چراغ ہیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ صدیوں کا یہ طویل دکھ دراصل زندگی کے تسلسل کا دوسرا نام ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ جدوجہد ختم نہیں ہوئی، یہ محض ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف بڑھتی ہے۔ اور جب قوم کا دکھ تحریک میں بدل جائے، تو پھر کوئی طاقت اسے فنا نہیں کر سکتی۔ وہ تحریک زندہ رہتی ہے، وقت کو بدل دیتی ہے، اور تاریخ کو ایک نئے معنی عطا کرتی ہے۔

اس سفر کی اصل طاقت "زادِ راہ” ہے۔ اور وہ زادِ راہ کوئی مادی سرمایہ نہیں، بلکہ خونِ جگر ہے۔ اپنے لہو سے جلائی گئی شمعیں، اپنی قربانیوں سے روشن کیے گئے راستے اور اپنی آہوں سے تراشے گئے خواب ہی وہ قوت ہیں جو مسافر کو تھکن کے باوجود زندہ رکھتے ہیں۔ وقت کی سختیاں، زمانے کے ظلم، اور اقتدار کے گھاؤ اس مسافر کو زخمی تو کرتے ہیں لیکن اس کی روح کو شکست نہیں دے پاتے۔
جب کوئی راہی ان تمام اذیتوں اور کرب کے باوجود نہ تھکے، نہ رکے، نہ مایوس ہو تو ماننا پڑتا ہے کہ وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔ وہ اپنی منزل پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کی استقامت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے مقصد میں راسخ العقیدہ ہے، اس کے یقین کی جڑیں صدیوں پرانی تاریخ سے بندھی ہیں۔بلوچستان کا ہر قصہ اور ہر کہانی اسی استقامت کی مثال ہے۔ یہ کہانیاں محض غم کے نوحے نہیں بلکہ آنے والے کل کے لیے امید کی کرنیں ہیں۔

انسانی تاریخ کی سب سے بڑی صداقت یہی ہے کہ ظلم اور جبر لمحاتی ہوتے ہیں مگر مزاحمت اور شعور دائمی۔ وہ قومیں جنہوں نے صدیوں تک دکھ جھیلا، جن کے زخم وقت کے مرہم سے مندمل نہ ہو سکے، وہی قومیں اپنی بقا اور اپنی آزادی کی مثالیں رقم کرتی ہیں۔ ان کے زخم چراغ بن جاتے ہیں، ان کی چیخیں نغمۂ حیات میں ڈھل جاتی ہیں، اور ان کی قربانیاں وہ سرمایہ بن جاتی ہیں جس سے تحریکیں صدیوں تک توانائی پاتی ہیں۔ بلوچ کی سرزمین اس حقیقت کی روشن تصویر ہے۔ یہاں کا ہر ریگزار، ہر پہاڑ، ہر نخلستان اور ہر کوچہ صدیوں کے دکھوں کی کہانیاں سناتی ہے۔ لیکن ان دکھوں میں کوئی کمزوری یا شکست نہیں، بلکہ ایک ایسی توانائی ہے جو ہر نسل کو اپنی اصل کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ان کے قدم کبھی خون میں رنگ جاتے ہیں، کبھی زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں، لیکن ان کے حوصلے شکست نہیں کھاتے۔ یہ استقامت اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ ان کی تاریخ محض ماضی کے اوراق پر نہیں، بلکہ ایک مسلسل تحریک کی صورت میں جاری و ساری ہے۔

یہ ایک مستند حقیقت ہے کہ شعور کو فنا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ شعور جو قربانی سے پروان چڑھا ہو، وہ فکر جو صدیوں کے دکھوں میں سانس لیتی ہو، اور وہ جذبہ جو عشروں کی قربانیوں سے قوت پاتا ہو، وہ کبھی محض وقت کی گرد میں دفن نہیں ہوتا۔ وہ اپنی راہوں پر رواں رہتا ہے، چاہے کتنے ہی طوفان اس کا راستہ روکنے کی کوشش کریں۔
یہی وجہ ہے کہ عشروں کا دکھ شکست کی نہیں بلکہ استقامت کی علامت ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ تاریخ جامد نہیں بلکہ متحرک ہے، اور یہ متحرک تاریخ دراصل ایک تحریک ہے۔ ایک ایسا کارواں جو تھکتا نہیں، رکتا نہیں، اور جس کی سانسوں میں مستقبل کی نوید اور حریت کی بشارت گونجتی رہتی ہے۔جب کوئی راہی ان تمام اذیتوں اور کرب کے باوجود نہ تھکے، نہ رکے، نہ مایوس ہو تو ماننا پڑتا ہے کہ وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔ وہ اپنی منزل پر ایمان رکھتا ہے۔ ۔

چونکہ ہم۔ جس غلامانہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں اس کے اپنے حقائق ہیں۔ ان حقائق کا سب سے کربناک اور بیک وقت بامعنی پہلو یہ ہے کہ یہاں درد محض ایک کیفیت نہیں بلکہ حیات کا بنیادی استعارہ ہے۔ غلامانہ سماج میں درد جست بھی ہے، درد سفر بھی ہے اور درد ہی منزل بھی۔ یہ ایک ایسا عجب جہان ہے جہاں مسافر جب اپنی آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے درد کو دیکھتا ہے، جب قدم بڑھاتا ہے تو درد اس کے ساتھ چلتا ہے، اور جب وہ منزل کی تلاش میں تھک کر رکتا ہے تو پھر بھی درد ہی اس کی رہنمائی کرتا ہے۔
یہی درد کبھی زنجیروں کی جھنکار میں بولتا ہے، کبھی صحراؤں کی خاموشی میں چیختا ہے اور کبھی تاریخ کے اوراق پر خون بن کر بہتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہی درد انسان کو بیدار رکھتا ہے۔ غلامانہ سماج کے افراد کے لئے درد صرف ایک بوجھ نہیں بلکہ ان کی سانسوں کی حرارت ہے۔ اس کے بغیر وہ مردہ ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ درد ہی ہے جو غلامی کے بوجھ تلے کچلے ہوئے جسم کو زندہ رکھتا ہے، اور بظاہر شکست خوردہ روح کو حیاتِ نو کی بشارت دیتا ہے۔

غلامی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اسیر کو درد میں ڈبو دیتی ہے، لیکن اسی درد کے بطن سے وہ شعور پیدا ہوتا ہے جو انقلاب کی کرن بن کر اُبھرتا ہے۔ جب انسان کو اپنے دکھ کی معنویت کا احساس ہو جائے تو پھر وہ جان لیتا ہے کہ اس کی اصل قوت اسی دکھ میں پوشیدہ ہے۔ یہ راز جان لینے کے بعد غلامی کی زنجیریں خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، وہ انہیں توڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
یہی تو وہ نکتہ ہے جس پر یہ سارا فلسفہ قائم ہے کہ درد منزل کا پتہ دیتا ہے۔ غلامانہ سماج میں درد ہی چراغ، نشانِ راہ، اور رُخ نما ہوتا ہے یہی درد ہے جو جہد کار کے دل میں روشنی بن کر ابھرتا ہے جہاں اس نے اپنا خون بہایا، جہاں اس نے ارمان قربان کیا، اور جہاں اس نے اپنے دکھ کو اپنے ایمان کی صورت جیا۔”اس غلامانہ سماج کے مسائل م درد ہی سے جُڑے ہیں۔ فاقے درد ہیں، بے گھری درد ہے، قید و بند درد ہیں، اور موت بھی درد ہے۔ مگر کمال یہ ہے کہ ان سب کا علاج بھی درد ہی میں مضمر ہے۔ جب دکھ شعور میں بدلتا ہے تو وہی علاج بنتا ہے۔ جب زخم چراغ بن جاتے ہیں تو راستے روشن ہوتے ہیں۔ گویا درد ہی بیماری ہے اور درد ہی دوا، درد ہی زنجیر ہے اور درد ہی آزادی ہے۔ پس،

آج بلوچ سرزمین کے سینے میں مدفون ایک ایسے درد کی بات کرتے ہیں جو محض ایک واقعہ یا حادثہ نہیں بلکہ ایک پوری تاریخ کا عکس ہے۔ کمبر قاضی کی شہادت کی خبر دل کے نہاں خانوں میں یوں بجلی بن کر گری کہ جیسے صدیوں سے چھپا ہوا دکھ یکایک بیدار ہو گیا ہو۔ یہ درد ایک شخص کی جدائی کا نہیں، بلکہ ایک عہد کے رخصت ہونے کا ہے۔
کمبر جان کو میں نے بیس برس پہلے بی ایم سی کے میڈیکل کمپلیکس میں دیکھا۔ وہ پہلی ملاقات محض ملاقات نہ تھی بلکہ ایک آشنائی تھی جو روح کے کسی پرانے رشتے کو جگا گئی۔ بعد ازاں یہ سلسلہ حال و احوال تک محدود نہ رہا، بلکہ دوستی، انسیت اور ہم سفری کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کی گفتگو سے پھول کی خوشبو آتی تھی، اور اس کی شاعری ایسی لگتی جیسے دلِ مضطر کے زخموں پر مرہم۔
جب شہید حنیف شریف کی جبری گمشدگی کے بعد ان کی یاد میں ایک سیمینار منعقد ہوا تو کمبر قاضی کی شاعری نے محفل کو یوں معطر کیا کہ ہر لفظ اذیت کو عشق میں ڈھالنے لگا۔ وہ اشعار گویا آسمان سے اترتی ہوئی کوئی صحیفہ تھے۔ اس لمحے میں نے محسوس کیا کہ کمبر محض شاعر نہیں بلکہ ایک سالک ہے، جس کا کلام صوفیانہ وجد کی مانند قلوب کو ہلا دیتا ہے۔

کمبر قاضی، مبارک قاضی کا بیٹا تھا۔ لیکن وہ محض بیٹا نہ تھا، بلکہ اپنے باپ کی فکری و ادبی وراثت کا امین تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں مبارک قاضی کا عکس دیکھا، مگر اس عکس میں ایک نیا رنگ بھی تھا۔ جیسے روحانی زنجیر ایک حلقے سے دوسرے حلقے کو منتقل ہوتی ہے، ویسے ہی ادب، فکر اور درد کی یہ وراثت کمبر کے وجود میں ڈھل گئی تھی۔صوفیا کہا کرتے ہیں کہ عشق دراصل درد کا دوسرا نام ہے۔ کمبر قاضی اس صوفیانہ سچائی کا جیتا جاگتا استعارہ تھا۔ اس کے ہونٹوں سے نکلنے والا ہر لفظ گویا کسی باطنی آگ کی چنگاری تھی، جو سننے والوں کے دل میں اتر کر انہیں اپنے حال سے آگاہ کرتی تھی۔ کمبر جان کی جدائی گویا جسمانی وجود کا خاتمہ ہے، لیکن فکر کی سطح پر وہ آج بھی زندہ ہے۔ وہ اپنی شاعری کے وسیلے سے، اپنی فکر کے ذریعے اور اپنے جدوجہد کی وراثت سے آج بھی سانس لے رہا ہے۔ آج جب ہم اس کی یاد کرتے ہیں تو وہ یاد کسی مرثیے کی طرح دل کو بوجھل نہیں کرتی بلکہ ایک وجدانی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ گویا اس کا جانا محض جدائی نہیں، بلکہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ وہ سفر جس میں کمبر کے لفظ چراغ ہیں اور اس کی روح رہبر۔

زندگی کبھی کبھی ایسے رشتے تراشتی ہے جو محض جسمانی قربت یا وقتی دوستی کے نہیں ہوتے بلکہ فکر، شعور اور روح کی ہم آہنگی سے جڑ جاتے ہیں۔ کمبر قاضی سے میرا رشتہ بھی ایسا ہی تھا۔ ابتدا میں یہ تعلق سیاسی تھا،ادبی تھا، نظریاتی تھا، اور ذہنی ہم آہنگی کی صورت میں پروان چڑھا۔ اس کی محفلوں میں بیٹھنا، اس کے الفاظ سننا، اور اس کی شاعری کی خوشبو میں سانس لینا ایسا تھا جیسے روح کو کسی گہری وادی میں لے جایا جا رہا ہو جہاں ہر شے معنی خیز ہے۔لیکن پھر وہ لمحہ آیا جب کمبر قاضی زیرِ زمین چلا گیا۔ جہاں شاعری کی نرم لہروں کے ساتھ کلاشنکوف کی سخت گونج بھی شامل تھی۔ اُس وقت ملاقاتوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مجھ سے کبھی جدا نہ ہوا۔ اس کے الفاظ، اس کی شاعری، اس کی تقاریر اور اس کی محفلیں میرے قریب رہیں۔ میں نے کمبر کو ہر جگہ محسوس کیا، کبھی لفظوں کے بین السطور میں، کبھی خاموش راتوں میں اپنی یادوں کے ساتھ، اور کبھی خواب کی دھند میں۔ گویا اس کی روح ہر وقت میرا ہم سفر بنی رہی۔

کمبر نے اپنی زندگی سے یہ سچ آشکار کیا کہ آزادی محض شاعری، ادب یا سیاسی حکمتِ عملی سے نہیں ملتی۔ اس کے لئے قربانی کے ساتھ ساتھ بندوق کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن اس کا ہنر یہ تھا کہ اس نے اس بارِ گراں کو جمالیات کا حصہ بنا دیا۔ اس کے ہاتھ میں قلم اور کلاشنکوف دونوں تھے، مگر دونوں میں کوئی تضاد نہ تھا۔ جیسے صوفی کے ہاتھ میں تسبیح اور عصا ایک ساتھ ہوتے ہیں؛ یہی تو کمبر کا کمال تھا۔ اس نے دکھایا کہ بندوق موت کی نہیں جدوجہد کی علامت ہے۔ جب اس نے بندوق اٹھائی تو اس کے ساتھ اس کی شاعری بھی اور زیادہ گہری ہو گئی۔ اس کے الفاظ میں درد کی کاٹ بھی تھی اور امید کا نور بھی، روایت میں کہا جاتا ہے کہ عشق جب کامل ہو جائے تو عاشق کے لئے ہر شے معبود کی طرف اشارہ بن جاتی ہے۔ کمبر قاضی کے عشق کا مرکز آزادی تھی۔ اس کے لئے اس کی شاعری بھی عبادت تھی، اس کی تقریر بھی اور اس کی کلاشنکوف بھی ایک تسبیح تھی جس کے دانے گرتے ہوئے ظلم کی زنجیروں کو توڑتے تھے۔کمبر کی جدوجہد نے یہ ثابت کیا کہ جمالیات محض نرمی اور لطافت کا نام نہیں، بلکہ قربانی اور مزاحمت کا نام بھی ہے۔ اس نے دکھایا کہ آزادی کا عنوان لفظوں میں بھی زندہ رہتا ہے اور بندوق کی نالی سے بھی جنم لیتا ہے۔ اس کا وجود گویا قلم اور کلاشنکوف کا امتزاج تھا، اور یہی امتزاج عشق اورجمالیات کی بلند ترین صورت ہے۔جہاں فن اور جنگ ایک ہی حقیقت کے دو پہلو بن جاتے ہیں۔آج کمبر قاضی جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں، مگر اس کی روح ہر ادبی سیاسی اور مزاحمتی سرکل میں موجود ہے۔ اس کی شاعری ، اس کی تقریریں اور اس کی بندوق آج بھی ہماری رگوں میں حوصلہ بن کر دوڑتی ہے۔ کمبر فنا ہو کر بقا پا گیا ہے۔ اور یہی سچ ہے کہ جو عشق میں فنا ہو وہ ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتا ہے۔

کمبر قاضی کی شخصیت ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو وقت کے اندھیروں میں بھی بجھتا نہیں بلکہ اپنی لو سے مزید روشنی دیتا ہے۔ وہ شاعر بھی تھا، انقلابی بھی اور صوفیانہ مسلک کا سالک بھی۔ اس کی زندگی نے یہ راز کھولا کہ عشق اگر اپنی معراج پر پہنچ جائے تو پھر اس کے اظہار کے لئے کوئی ایک وسیلہ کافی نہیں رہتا۔ کبھی وہ عشق لفظوں میں ڈھلتا ہے، کبھی نغمے میں، کبھی خون میں اور کبھی بندوق کی گھن گرج میں۔کمبر قاضی کا تعلق محض ادب تک محدود نہیں رہا۔ ابتدا میں وہ شاعری کی نرم خوشبو میں ڈوبا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے اشعار ایسے لگتے تھے جیسے پھولوں پر شبنم کے قطرے ٹھہر گئے ہوں، مگر جب وقت نے تقاضا کیا تو وہی شاعر زیرِ زمین اتر گیا۔
یہ وہی وحدت ہے جس کا اشارہ بلھے شاہ نے کیا تھا:
"عشق ہووے تاں رنگ ہزاراں، عشق نہ ہووے تاں سب سہاراں.”کمبر کے عشق نے اسے کئی رنگ دیے۔ وہی عشق جس نے اسے شاعر بنایا، اسی نے اسے مجاہد بنایا۔ وہی عشق جو اشک میں ڈھلتا تھا، وہی عشق بارود کی گھنکار میں بھی بولتا تھا۔

کمبر قاضی کی شخصیت محض ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک کائنات ہے۔ وہ ایک تخلیق کار بھی تھا اور ایک مبلغ بھی؛ ایک استاد بھی اور ایک پیغمبر بھی۔ اس کی باتوں میں وہ جاذبیت تھی جو مکالمے کو محض لفظوں کا تبادلہ نہیں رہنے دیتی تھی بلکہ حقیقت کے نئے در وا کرتی تھی۔ وہ جب بولتا تو سامعین محض سننے والے نہیں رہتے، بلکہ سوال اٹھانے اور نتیجہ اخذ کرنے کی قوت حاصل کرتے۔ یہی اس کی علمی اور روحانی میراث تھی۔کمبر قاضی ایک سادھو اور سنیاسی کی مانند تھا، مگر وہ سادھو نہیں جو وقت کے قابضوں کے در پر جھکے ہوں۔ وہ بدھا کی خاموشی، مہاویر کی سچائی، شنکر کی جستجو اور مسیح کی قربانی کا امتزاج تھا۔ وہ وقت کا پیغمبر تھا جس نے غلامی کی تاریکی میں چراغ جلایا۔ سقراط نے کہا تھا: “استاد ایک دایہ کی مانند ہوتا ہے جو نئی روح کی پیدائش میں مدد دیتا ہے۔” کمبر قاضی یہی دایہ تھا جس نے نوجوان نسل کے شعور کو جنم دیا، ان کے ذہن کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کیا اور ان کی روح میں مزاحمت کی آگ بھڑکائی۔وہ محض ایک استاد نہیں تھا بلکہ ایک سماجی جراح تھا اس نے نوجوان نسل کو پارلیمانی جرائم، گماشتگی، کاسہ لیسی اور غلامی کے گندے جراثیم سے نکالا اور انہیں آزادی کی راہ پر ڈال دیا۔

اوشو نے کہا تھا کہ ریاضی کی سیدھی لکیروں پر چلنا زندگی کو ایک ریل کی مانند بنا دیتا ہے جو محض پٹری پر دوڑتی ہے۔ مگر زندگی دریا کی طرح ہے جو بنائے بنائے راستوں پر نہیں بہتا بلکہ نامعلوم اور نامانوس راستے تراشتا ہے۔ یہی عشق کا سفر ہے۔ وطن سے عشق بھی ایسے ہی نامعلوم راستوں پر بہتا ہے۔ عشق توانائی کا سرچشمہ ہے، وہ راز ہے جو انسان کو فنا کے دہانے پر لے جا کر بقا کا راز عطا کرتا ہے۔ جیسے پروانہ جانتے ہوئے بھی چراغ سے لپٹتا ہے اور جل کر فنا ہو جاتا ہے، مگر اسی فنا میں اپنی حقیقت پاتا ہے۔کمبر قاضی کے عشق نے بھی یہی روپ اختیار کیا۔ اس نے تاریخ کو محض زہنی آسودگی کے لئے نہیں پڑھا بلکہ اس سے حقیقی رشتہ جوڑا۔ جعلی تعلقات کے بجائے اس نے سچا رشتہ استوار کیا۔ کمبر قاضی کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آزادی کے لئے راستہ سیدھی لکیروں میں نہیں ملتا۔ یہ راہ دریا کی مانند گھماؤ کھاتی ہے، اندھیروں سے گزرتی ہے اور قربانی کے سنگلاخ راستوں پر چلتی ہے۔ اس کی ذات اس بات کی علامت ہے کہ استاد صرف کتابی علم نہیں دیتا بلکہ روح کو نئی آنکھیں عطا کرتا ہے۔ وہ پیغمبر کی مانند اپنی قربانی سے نئی امت تراشتا ہے۔ وہ پروانے کی مانند عشق میں فنا ہو کر روشنی کو دوام دیتا ہے۔ یہی تو عشق کی معراج ہے کہ مسافر پروانے کی طرح جلنے کے لیے روشنی کی طرف لپکتا ہے۔ وطن سے عشق بھی ایسا ہی ہےیہ جلانے والا عشق ہے، مگر اسی میں زندگی ہے، توانائی ہے، اور اسرار کی راہیں کھلتی ہیں۔

کمبر قاضی کی شخصیت دراصل دو متضاد حقیقتوں کی ہم آہنگی تھی: ایک طرف وہ صوفی کی مانند باطن کی گہرائیوں میں اترنے والا سالک تھا، دوسری طرف وہ مجاہد کی مانند ظاہری محاذ پر لڑنے والا سپاہی۔ یہی کمبر کا کمال تھا کہ اس نے قلم اور کلاشنکوف کو ایک دوسرے کا متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا تکملہ بنا دیا۔

اوشو نے کہا تھا کہ “اگر کوئی سماج مرنے سے انکار کر دیتا ہے تو اسے نئی زندگی ملتی ہے۔” یہی صدا ہمیں آزادی کے سفر میں سنائی دیتی ہے۔ کیونکہ آزادی محض ایک نعرہ نہیں بلکہ زندگی کے دھارے کو نئی سمت دینے کا نام ہے۔ اس کے لئے جسمانی قربانی شرطِ اوّل ہے۔ جب انسان اپنے لہو کو زمین کے سپرد کرتا ہے تو اس زمین سے آزادی کی نئی کونپلیں جنم لیتی ہیں۔آزادی کے راستے معبد ہیں، جنگ اس معبد کی عبادت ہے، اور شہادت اس عبادت کا سب سے اعلیٰ رُتبہ۔ یہ جنگِ آزادی دراصل نئی زندگی کا پیام ہے۔ وہ زندگی جس کے دھارے قربانی کے خون سے بہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے جب بھی قربانی دی، اس نے اپنی تقدیر خود لکھی۔ اس نے وہ سب کچھ بدل ڈالا جسے پہلے “قسمت” سمجھا گیا تھا۔کمبر قاضی اسی تقدیر کا وہ نوشتہ تھا جو اپنی ہتھیلی کسی نجومی کو دکھانے کا قائل نہ تھا۔ وہ اپنے مستقبل کو کسی زائچے میں تلاش نہیں کرتا تھا۔ وہ آگ کے سامنے منتر پڑھنے والا سادھو نہیں تھا، نہ ہی بارش کے لئے کسی مذہبی رسومات کا پیروکار تھا۔ وہ ایک ایسا مردِ عمل تھا جو یقین رکھتا تھا کہ دنیا کو بدلنے کے لئے الفاظ اور عقائد کافی نہیں، عمل درکار ہےوہ عمل جو قربانی کے بغیر ادھورا ہے۔

کمبر قاضی نے اپنی جدوجہد اور اپنی قربانی سے یہ ثابت کیا کہ آزادی کسی جادوئی منتر یا غیبی دعا سے نہیں ملتی۔ آزادی قربانی کے اُس بحرِ بیکراں سے حاصل ہوتی ہے جہاں لہو کی لہریں ٹکرا کر وقت کے ساحل کو بدل ڈالتی ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ تقدیر انسان کے ہاتھ کی لکیر نہیں بلکہ اس کے عمل کا حاصل ہے۔یہی کمبر کی اصل میراث ہے۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ آزادی کی جنگ میں دعا سے زیادہ عمل کا چراغ جلانا ضروری ہے۔ آزادی خون کے سمندر سے جنم لیتی ہے، قربانی اس کا دروازہ ہے، اور عمل اس کی کنجی۔ یہی وہ صداقت ہے جس نے کمبر کو فنا سے بقا تک پہنچا دیا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مشکے، شاہرگ، گورکوپ اور زامران میں پاکستانی فورسز پر حملے، متعدد ہلاکتیں

پیر ستمبر 1 , 2025
بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے مشکے اوگار میں گزشتہ روز مسلح افراد نے ایک فوجی چوکی کو نشانہ بنایا۔ ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے بعد ازاں چوکی سے نکلنے والی فوجی گاڑی پر گھات لگا کر شدید فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں گاڑی مکمل طور پر تباہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ