
بلوچ لاپتہ افراد اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے لواحقین کا احتجاجی دھرنا اسلام آباد میں 47 روز سے جاری ہے۔ جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر دھرنے کے شرکاء کی جانب سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس کا عنوان تھا: “یاد بطور شناخت، جبری گمشدگیوں کی تاریخ کے ذریعے حال کو سمجھنا”۔
کانفرنس کا مقصد ریاستی جبر کے ہاتھوں لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی جدوجہد، اُن کے دکھ اور انصاف کے حصول کی طویل جدوجہد کو اجاگر کرنا تھا۔ اس موقع پر انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی، جن میں آمنہ مسعود جنجوعہ، عائشہ مسعود، پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما فرمان وزیر، طاہرہ عبداللہ اور دیگر شخصیات شامل تھیں۔
شرکاء نے بلوچ خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی قرار دیا اور حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے کہا کہ “ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ صرف میری بہن نہیں بلکہ بلوچ قوم کی آواز اور آنے والے کل کی نوید ہے۔ ریاست اُس کو قید نہیں رکھنا چاہتی بلکہ اُس امید کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے جو بلوچ عوام کو انصاف اور آزادی کے لیے متحرک کرتی ہے۔”
خضدار سے تعلق رکھنے والے لاپتہ آصف اور رشید کی بہن، جو 47 دنوں سے اسلام آباد میں دھرنے پر موجود ہیں، نے کہا کہ ہمارے بھائیوں کی گمشدگی کو سات برس مکمل ہونے والے ہیں۔ یہ سات سال صرف وقت نہیں بلکہ ہر لمحہ درد، بے بسی اور انتظار سے بھرے ہیں۔ لیکن امید کا چراغ اب بھی جل رہا ہے۔
اسی طرح بی ایس او آزاد کے جبری لاپتہ رہنما شبیر بلوچ کی بہن نے کہا کہ “جب شبیر کو اغوا کیا گیا تو میرا دکھ صرف شبیر تک محدود تھا، مگر آج بلوچستان کا ہر زخم میرا زخم ہے۔ ہم تمام تر مشکلات کے باوجود مزاحمت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”
دھرنے میں راشد حسین، جہانزیب محمد حسنی، سلمان بلوچ اور لیویز اہلکار سعید احمد سمیت درجنوں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین شریک ہیں، جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
