
تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون
اسلام آباد کی تپتی سڑکوں اور سخت سیکیورٹی کے درمیان ایک نرم آواز مسلسل گونج رہی ہے۔ یہ آواز ماہ زیب بلوچ کی ہے، جو آج کل لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں۔ وہ اپنے لاپتہ ماموں، راشد بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کررہی ہیں۔
راشد بلوچ، ایک تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان تھا، جو معاشی حالات بہتر بنانے کی خاطر متحدہ عرب امارات گیا۔ 26 دسمبر 2018 کو دبئی سے ان کی جبری گمشدگی کی خبر آئی۔ ان کی بہن فریدہ بلوچ کے مطابق، راشد کو متحدہ عرب امارات سے خفیہ طور پر پاکستان منتقل کر دیا گیا، جہاں سے وہ "لاپتہ” ہو گیا۔
جبری گمشدگی کوئی نئی بات نہیں، لیکن راشد کا معاملہ اس لیے سنگین ہے کہ اسے ایک غیر ملکی سرزمین سے اغوا کیا گیا۔ نہ صرف یہ عمل انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریح پامالی ہے۔ فریدہ بلوچ نے عدالتوں، کمیشنوں، پریس کلبوں اور بین الاقوامی اداروں تک راہ لی لیکن انصاف ایک خواب بن کر رہ گیا۔ وہ بارہا دہراتی ہیں کہ اگر راشد نے کوئی جرم کیا ہے، تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ لیکن یہ خاموشی اور انکار انصاف نہیں، جبر ہے۔
بلوچستان میں ہزاروں راشد بلوچ ہیں جن کے گھروں میں تصویریں تو ہیں، مگر وجود ندارد۔ ماں کی آنکھوں میں نمی ہے، بہن کی چیخیں سناٹے میں گم ہیں، اور باپ کی امید مر چکی ہے۔
ریاست، جس کا فرض تحفظ ہے، جب خود ظلم کا آلہ بن جائے تو انصاف کی سب راہیں بند ہو جاتی ہیں۔ آئینِ پاکستان شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، مگر بلوچستان میں یہ ضمانتیں محض کاغذی ہیں۔ راشد بلوچ جیسے نوجوانوں کی گمشدگی بلوچ نوجوانوں میں بے یقینی، غصہ اور علیحدگی پسندی کو مزید گہرا کرتی ہے۔ یہ گمشدگیاں محض جسمانی نہیں، یہ پوری نسل کو سیاسی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر تباہ کر رہی ہیں۔
سوال صرف راشد بلوچ کی بازیابی کا نہیں، بلکہ ان تمام لاپتہ افراد کے لیے آواز بلند کرنا ہے جو برسوں سے اپنی شناخت اور وجود کے حق سے محروم ہیں۔ سوال ریاست سے ہے کہ
کیا بلوچ نوجوانوں کو صرف اس لیے لاپتہ کیا جا رہا ہے کہ وہ سوال کرتے ہیں؟ اختلاف رکھتے ہیں؟ یا پھر بلوچ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے؟
راشد بلوچ اگر مجرم ہے تو عدالت میں پیش کریں۔ اگر بے گناہ ہے تو رہا کریں۔ لیکن اگر وہ صرف "بلوچ” ہونے کے جرم میں لاپتہ ہے، تو یہ جرم حکومت کے دامن پر ایک ایسا داغ ہے جو کبھی نہیں دھل سکے گا۔