آنسو جو تاریخ بن گئے

تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون

اسلام آباد کے پریس کلب کے سامنے، دھوپ سے جھلستی زمین پر بیٹھے وہ چہرے محض احتجاج نہیں کر رہے۔ وہ تاریخ لکھ رہے ہیں، ایسی تاریخ جو خون، آنسو اور امید کے رنگوں سے رقم ہو رہی ہے۔ یہ وہ بلوچ خواتین ہیں جو اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے خلاف برسوں سے ڈٹی ہوئی ہیں۔ جنہوں نے ذاتی دکھ کو اجتماعی جدوجہد کا حصہ بنا دیا۔ یہ کہانیاں ایک ایسی مزاحمت کا بیان ہیں جو نہ تھکی ہے، نہ رکی ہے، نہ جھکی ہے۔

فاطی بلوچ کی زندگی کا ایک عام دن تھا جب 18 مئی 2020 کو ان کے شوہر، مٹا خان مری، کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ تین بچوں کے ساتھ اکیلی رہ جانے والی یہ عورت اگر چاہتیں تو اپنے زخموں کو چپ چاپ سہہ کر زندگی گزار دیتیں۔ مگر فاطی نے یہ راستہ اختیار نہ کیا۔ انہوں نے اپنے غم کو طاقت میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔

کوئٹہ میں ماما قدیر کے احتجاجی کیمپ میں شمولیت سے لے کر مختلف پریس کلبوں کے سامنے کھڑے ہونے تک، فاطی بلوچ ہر اس جگہ پہنچیں جہاں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کی جا رہی تھی۔ وہ احتجاج کے لیے اپنے روزگار کی قربانی دیتی رہیں۔ بچوں کی پرورش کے لیے ایک اسکول میں جھاڑو پونچھ کا کام کرتی رہیں، مگر جیسے ہی کوئی احتجاج یا مارچ ہوتا، وہ سب کچھ چھوڑ کر نکل پڑتیں۔

ان کا کوئی مستقل گھر نہیں۔ کبھی کسی رشتے دار کے گھر پناہ لیتی ہیں، کبھی خود کو احتجاجی کیمپوں کی زمین پر سوتا پاتی ہیں۔ 2023 میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اسلام آباد مارچ میں شریک ہوئیں، 2024 میں بلوچ راجی مچی گوادر کا حصہ بنیں، اور 2025 میں دالبندین جلسے میں بھی اپنی موجودگی درج کرائی۔

آج وہ ایک بار پھر اسلام آباد میں ہیں، روزی روٹی کے خطرے کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے شوہر کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ فاطی بلوچ اس حقیقت کی علامت ہیں کہ بلوچستان کی عورت صرف ظلم سہنے والی نہیں، بلکہ مزاحمت کی صفِ اول کی سپاہی ہے۔

مستونگ کی رہائشی لمہ زرگل کی زندگی صدمات کی ایک لمبی داستان ہے۔ 2009 میں ان کے بیٹے میر محمد کو قتل کر دیا گیا۔ 2012 میں ایک اور بیٹا، ریاض احمد، جبر کا نشانہ بنا۔ بیٹے وحید احمد کو دو بار جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ پھر 29 اگست 2013 کا سیاہ دن آیا، جب سعید احمد کو بھی غائب کر دیا گیا۔

یہ زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ 2016 میں کمسن بیٹی بی بی شبانہ، بھائی کی گمشدگی کے غم میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ ایک ماں کے لیے یہ دکھ کسی پہاڑ سے کم نہ تھے، مگر لمہ زرگل نے حوصلہ نہ ہارا۔

سات بچوں کی ماں لمہ زرگل نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک تشدد کا سامنا کیا۔ انہیں گھسیٹ کر جیلوں میں ڈالا گیا، جبراً بلوچستان واپس بھیجنے کی کوشش کی گئی۔ مگر یہ سب ان کے قدم نہ روک سکے۔

قلات کے علاقے منگوچر سے تعلق رکھنے والی لمہ شاہ بی بی کی کہانی 2004 میں شروع ہوتی ہے، جب ان کے بھائی غفار لانگو کو گرفتار کر کے بار بار جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ وہ عدالتوں، جیلوں اور احتجاجی کیمپوں کے چکر کاٹتی رہیں۔ اسلام آباد میں ایک مہینے تک دھرنے میں شریک رہیں، مگر 2011 میں بھائی کی لاش ملی۔

لمہ شاہ بی بی ایک اسکول ٹیچر ہیں اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ لیکن ان کے دکھ یہیں ختم نہیں ہوئے۔ ان کے بھانجے، داماد اور پوتے کو بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور بعد میں رہا کیا گیا۔ 2009 میں ان کے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا گیا، اور سالوں تک وہ اس خوف میں رہیں کہ کہیں وہ بھی ہمیشہ کے لیے غائب نہ ہو جائے۔

یہ خوف 18 جون 2024 کو حقیقت میں بدل گیا، جب ان کا اکلوتا بیٹا محمود بلوچ جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ اس صدمے نے ان کی جدوجہد کو مزید سخت کر دیا۔ آج وہ احتجاجی کیمپوں میں کھڑی صرف ایک ماں نہیں بلکہ ایک تحریک کی صورت میں موجود ہیں، تاکہ آنے والی نسلیں اس عذاب سے بچ سکیں۔

دشت، مستونگ کی اماں ماہ پری کی کہانی بلوچستان کے کرب کی ایک اور تصویر ہے۔ 2015 میں ان کے بیٹے نہال خان مری کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ایک ماں کے لیے یہ سب سے بڑا دکھ تھا، مگر اس وقت ان کے دل پر ایک اور زخم لگا جب انہوں نے اپنے ننھے پوتے کو باپ کی تصویر اٹھائے احتجاج میں کھڑا دیکھا۔

اماں ماہ پری دس بچوں کی ماں ہیں۔ 2025 میں شوہر، بیٹے کی تلاش کے صدمے میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ شوہر کی موت کے بعد انہوں نے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ میں شمولیت اختیار کی۔

یہ چاروں کہانیاں بلوچستان کی ہزاروں خواتین کی نمائندہ ہیں جو جبر کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں۔ ہر ایک نے ذاتی المیے کو اجتماعی مزاحمت میں بدل دیا۔ ان کا احتجاج صرف اپنے پیاروں کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے ہے۔

بلوچ خواتین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مزاحمت صرف مردوں کا میدان نہیں۔ انہوں نے سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات کے باوجود اپنی آواز کو دبنے نہیں دیا۔ ان کی موجودگی ہر احتجاج میں اس بات کا اعلان ہے کہ بلوچستان کی عورتیں تاریخ کے حاشیے پر نہیں بلکہ اس کے مرکزی باب میں ہیں۔

اسلام آباد کے پریس کلب سے لے کر دالبندین کے جلسوں تک، اور کوئٹہ کے احتجاجی کیمپوں سے لانگ مارچ کی طویل مسافتوں تک، بلوچ خواتین نے اپنے آنسوؤں کو مزاحمت کی قوت میں بدلا ہے۔

آنے والے وقت میں جب بلوچستان کی تاریخ لکھی جائے گی، تو فاطی بلوچ، لمہ زرگل، لمہ شاہ بی بی اور اماں ماہ پری جیسے نام سنہری حروف سے درج ہوں گے، کیونکہ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ عورت جب مزاحمت پر اتر آئے تو سب سے بڑی طاقت بن جاتی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تنظیم کے مرکز کے استحکام سے پارٹی مضبوط ہوگی، ڈاکٹر نسیم بلوچ کا بی این ایم جرمنی کے سالانہ اجلاس سے خطاب

منگل اگست 12 , 2025
بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے جرمنی چیپٹر کا سالانہ اجلاس پارٹی چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کی گئی۔ ہنوفر میں ہونے والی اس سالانہ نشست میں تنظیم کی کارکردگی اور تنظیمی امور پر تفصیلی بحث کی گئی۔ اجلاس […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ