
تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون
اسلام آباد ان دنوں ایک بار پھر بلوچوں کی صدائے احتجاج سے گونج رہا ہے۔ یہ احتجاج اب تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکا ہے۔ گرمی، دھوپ اور ریاستی سرد مہری کے باوجود بلوچ خواتین، بچے اور نوجوان اس امید پر بیٹھے ہیں کہ شاید ان کی پکار کسی ایوانِ اقتدار کے ضمیر کو جگا دے۔
اس احتجاج کی فضا میں ایک تصویر دل کو چھو جاتی ہے۔ یہ تصویر ننھی شاری بلوچ کی ہے، جو اپنی کمسن بانہوں میں ایک تصویر تھامے بیٹھی ہے۔ یہ تصویر کسی اور کی نہیں بلکہ میر بالاچ ولد عبدالطیف کی ہے ایک 26 سالہ طالبعلم، ایک باشعور نوجوان، اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے سرگرم رکن بھی ہے۔
میر بالاچ کو 20 مئی 2025 کی شام، کراچی کے علاقے ملاعیسیٰ گوٹھ، ملیر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ شام چھ سے آٹھ بجے کے درمیان وہ ایسے غائب کیے گئے جیسے زمین کھا گئی ہو یا آسمان نگل گیا ہو۔ آج دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کے گھر والوں کو نہ ان کی خیریت کا علم ہے اور نہ ہی کسی ریاستی ادارے نے ان کی گرفتاری کو تسلیم کیا ہے۔
یہ وہی بالاچ بلوچ ہے جو خود جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرتا رہا۔ کراچی سے حب اور حب سے اوتھل تک ہونے والے لانگ مارچ میں ان کی موجودگی ہمیشہ نمایاں رہی۔ وہ صرف احتجاج میں شریک نہیں ہوتے تھے بلکہ مزاحمت کی صفِ اول میں دکھائی دیتے تھے۔ وہ لاپتہ افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے والا ایک جرأت مند آواز تھے اور آج وہی آواز خاموش کرا دی گئی ہے۔
لیکن قومیں افراد سے نہیں مرتیں، قومیں اجتماعی شعور سے زندہ رہتی ہیں۔ آج جب میر بالاچ بلوچ گمشدہ ہے تو ننھی شاری بلوچ اس کی جگہ احتجاجی کیمپ میں بیٹھی ہے۔ اس کی خاموشی، اس کے چہرے کی معصومیت، اور اس کی گود میں تھامی ہوئی تصویر خود ایک بیان ہے۔ یہ بیان صرف میر بالاچ کے لیے نہیں، بلکہ ہر اس نوجوان کے لیے ہے جو صرف اپنے حقوق مانگنے کے "جرم” میں غائب کر دیا جاتا ہے۔
شاری بلوچ شاید الفاظ میں اپنی بات نہ کہہ سکے، لیکن اس کی موجودگی ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا ایک بے گناہ نوجوان کو اس لیے لاپتہ کر دینا کافی ہے کہ وہ سوال کرتا تھا؟
کیا ایک جمہوری ریاست میں احتجاج اور سوال اٹھانا جرم ہے؟
میر بالاچ بلوچ کی بازیابی آج صرف ایک خاندان کا مطالبہ نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی قومی فریاد ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو خاموش کرانے کی یہ روش، ایک دن خود حکومتی اداروں کے لیے ندامت بن جائے گی۔ لیکن تب شاید بہت دیر ہو چکی ہو۔
آج ننھی شاری کی آنکھوں میں امید کی جو لو ہے، اسے بجھنے نہ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے اس امید کو بھی گمشدہ ہونے دیا تو کل کو کوئی شاری، کوئی بالاچ، کوئی اور صدا باقی نہ رہے گی۔