حق دو یا حق چھینو؟: ملاہدایت الرحمٰن کے کردار کا فکری محاسبہ!

تحریر: رامین بلوچ (آخری حصہ)
زرمبش مضمون

سال 2024 کے بعد سے ملا ہدایت الرحمٰن کی اچانک سیاسی سرگرمی، "حق دو تحریک” کی آڑ میں لانگ مارچ جیسے اقدامات، اور ان سرگرمیوں کو ملنے والی غیرمعمولی میڈیا کوریج اس بات کا واضح عندیہ دیتی ہے کہ ریاستی قوتیں اُسے کسی نہ کسی سطح پر بلوچ قومی مزاحمت کا "قابلِ قبول متبادل” بنا کر پیش کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں۔مگر یہ کیسا متبادل ہے جو نہ ریاست کے جبر سے ٹکراتا ہے، نہ آزادی کی بات کرتا ہے، اور نہ ہی نوآبادیاتی قبضے کو چیلنج کرتا ہے؟ اُس کا بیانیہ درحقیقت قومی غلامی سے جنم لینے والے اضطراب اور بے چینی کو آزادی کے نعرے میں ڈھالنے کے بجائے، اُسے محض "حقوق مانگنے ” کی محدود دائرہ کاری میں قید رکھتا ہے۔یعنی وہ شعوری طور پر اس اضطراب کو اُس انقلابی سمت میں جانے ہی نہیں دیتا جہاں سے حقیقی آزادی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔یہی اس کی سیاست کا خلاصہ ہے ، بلوچ عوام
کے غصے کو ریاستی نظام کے اندر جذب کرنا، بے چینی کو مطالبے میں ڈھال کر مزاحمت کی روح کو تحلیل کرنا، اور غلامی کو ایک "قابلِ انتظام مسئلہ” بنا کر پیش کرنا تاکہ اصل قومی سوال، یعنی آزادی کا مطالبہ پسِ پردہ چلا جائے۔

ریاست نے ہر دور میں بلوچ قومی شعور، یکجہتی اور مزاحمت کو زائل کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی "نرم متبادل تحریکوں ؎ ”Soft Counter Movements“کو منظم اور منصوبہ بند انداز میں استعمال کیا ہے۔ کبھی اُس نے قبائلی سرداری نظام کو آلہئ کار بنایا، کبھی مذہبی طبقات کو قومی سوال سے کاٹ کر ریاستی بیانیے کے تحفظ پر مامور کیا؛ کبھی ترقی و خیرات کے نام پر این جی اوز (NGOs) کو میدان میں اتارا، اور آج یہی کردار "حق دو تحریک” جیسے ساختہ گروہوں کے ذریعے ادا کیا جا رہا ہے۔ان تمام کوششوں کا واحد مقصد یہ رہا ہے کہ بلوچ قوم کے اندر جنم لینے والا انقلابی شعور، جو آزادی، اور اجتماعی نجات کا متقاضی ہے، اسے تقسیم در تقسیم کر کے کمزور کیا جائے، اور مزاحمت کی اصل روح کو "مطالباتی سیاست” کے گرداب میں الجھا کر غیرسیاسی بنا دیا جائے۔ حق دو تحریک ایک ریاستی کاؤنٹر نیریٹیو کی تشکیل ہے جو آزادی کی تحریک کو divide اور dilute کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ہدایت الرحمٰن کا کردار ایک نوآبادیاتی پٹھو کا سا ہے جو مذہب، امن، اور سماجی حقوق کے نام پر مزاحمت کی روح کو زائل کرنے میں مصروف ہے۔بلوچستان کی قومی آزادی کی جدوجہد کو ہمیشہ سازشی عناصر، نوآبادیاتی قوتوں اور ریاستی اداروں نے مختلف طریقوں سے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملا ہدایت الرحمن کا لانگ مارچ اسی سلسلے کی تازہ ترین قسط ہے

بلوچ قومی تحریک کوئی سوشل ویلفیئر ازم کے اصلاحات کے مطالبات پر مبنی تحریک نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل آزادی کی تحریک ہے۔ بلوچ قوم کا مطالبہ روٹی، پانی، بجلی سڑک ہسپتال اسکول یا روزگار جیسی سہولتوں کا نہیں، بلکہ اپنی بقا، تشخص، قومی شناخت اور وت واجہی کے بحالی کا ہے۔جو بھی فرد، جماعت یا تنظیم بلوچ قومی تحریک کو دانستہ یا نادانستہ طور پر "سوشل ویلفیئر ازم” یعنی فلاحی مطالبات کی ایک تحریک کے طور پر پیش کرتی ہے، وہ نہ صرف سنگین غلطی بلکہ بلوچ تحریک کی روح، اس کے تاریخی تسلسل اور قومی مزاحمتی سیاق و سباق سے صریح غداری غلط بیانی، دانستہ نظریاتی مسخ اور ایک سنگین اخلاقی بددیانتی کا مرتکب ہے

یہ مطالبات اُس نوآبادیاتی ریاستی فریم ورک میں ہرگز فٹ نہیں بیٹھتے، جسے بلوچ قوم سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتی۔ کیونکہ یہ فریم ورک محض ایک آئینی یا انتظامی بندوبست نہیں بلکہ قبضے، استحصال، اور انکارِ شناخت کا وہ استعماری ڈھانچہ ہے جس کے خلاف بلوچ مزاحمت جنم لیتی ہے۔قابض پاکستانی ریاست کے نزدیک بلوچستان معدنیات کا ذخیرہ، سونے اور تیل سے بھرپور خطہ، اور اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل جغرافیہ ہے ایک کالونی، جسے صرف وسائل کے نقطہئ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر بلوچ قوم کے لیے یہی خطہ اُن کی پہچان ہے، اُن کا تاریخی وطن، اُن کے آبا و اجداد کی سرزمین، اُن کی ثقافت، اُن کا تشخص، اور اُن کی اجتماعی آزادی کا مرکزہے اسی بنیادی تضاد سے وہ خلیج جنم لیتی ہے، جسے
کوئی آئینی کمیٹی، کوئی ترمیم، اور کوئی انتظامی پیکج پاٹ نہیں سکتا۔ بلوچ قوم اپنے وطن کو فوجی چھاؤنی نہیں، بلکہ اپنی روح کی توسیع سمجھتی ہے۔

۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران، جب نوآبادیاتی طاقتوں نے برصغیر پر قبضہ کیا، بلوچ مملکت بھی ان کے سامراجی عزائم کی زد میں آئی۔تاہم، 11 اگست 1947 کو بلوچ قوم نے ایک آزاد، خودمختار ریاست کے طور پر اپنا وجود دنیا کے سامنے منوایا۔ یہ ریاست ایک باقاعدہ حکومت، آئین اور بین الاقوامی شناخت کی حامل تھی۔ مگر افسوس کہ 1948 میں پاکستان نے اس آزاد ریاست کو بزورِ طاقت، فوجی مداخلت کے ذریعے، جبری طور پر الحاق پر کر دیا ؎جو بلوچ قومی آزادی اور خودمختاری کی کھلی بین الاقوامی اور علاقائی پامالی تھی۔

مولوی ہدایت الرحمٰن جیسے عناصر "حق” کو ریاستی اجازت سے مشروط کرتے ہیں، جب کہ انسانی فلسفہ یہ کہتاہے کہ حق مانگا نہیں جاتا، بلکہ چھینا جاتا ہے۔ ریاست کی متعین کردہ "حق” کی تعریف، درحقیقت غلامی کو ایک خوشنما مفہوم دینے کی کوشش ہے۔ اسی طرح وہ مذہبی بیانیہ جو عوام کو "صبر” اور "دعاؤں ” کے ذریعے جبر کو برداشت کرنے پر آمادہ کرتا ہے، دراصل ظالمانہ نظام کی مذہبی توثیق ہے۔مولوی ہدایت الرحمٰن نہ کوئی مستند بلوچ راہنما ہیں، نہ ہی عوامی مزاحمت کے نمائندہ۔ بلکہ وہ ریاستی لیبارٹری میں تیار کی گئی ایک مصنوعی لہر ہیں، جس کا بنیادی مقصد بلوچ قومی جدوجہد کو، محدود اور مفلوج کرنا ہے۔ایسے سامراجی ایجنڈے کے نمائندہ کرداروں کو بے نقاب کرنا بلوچ سیاسی کیڈروں، دانشوروں، جہد کاروں اور باشعور عوام کی انقلابی ذمہ داری ہے کیونکہ غلامی کے ہر چہرے سے نقاب نوچنا مزاحمت کی اولین شرط ہے
بلوچ قومی تحریک جو کہ خالصتاً بقاء، شناخت، تشخص اور آزادی کی تحریک ہے، اسے کمزور کرنے کے لیے ریاست نے ماضی میں کئی چہرے تخلیق کیے۔ انہی میں سے ایک چہرہ آج "ملا ہدایت الرحمن” کے نام سے بلوچ عوام کے سامنے لایا گیا ہے۔ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جس کا کردار بنگال کی تحریک آزادی کے دوران خون آلود اور شرمناک رہا۔ جو قوت 1971 میں پاکستان کی ریاستی فوج کے شانہ بشانہ بنگالیوں کی نسل کشی میں شریک رہی، وہ آج بلوچستان میں ایک بار پھر "اسلام”، "اخوت”، "بھائی چارے ” جیسے الفاظ کے پردے میں ایک نئے فریب کی تیاری کر رہی ہے۔یہ جماعت کبھی اسلام کے نعرے سے، کبھی حقوق کی مطالبہ سے اور کبھی فلاحی تنظیموں کی آڑ میں وہی نوآبادیاتی ایجنڈا آگے بڑھاتی آئی ہے، جس کا مقصد بلوچ قومی مزاحمت کی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔ آج ریاست نے ہدایت الرحمن جیسے کرداروں کو اسی مقصد کے لیے کھلی چھوٹ دی ہے نہ کوئی روک، نہ گرفت، نہ ہی پابندیاں بلکہ اسے ایک گراؤنڈ دیا گیا ہے تاکہ وہ بلوچ نوجوانوں کے درمیان اشتعال انگیز، غیر ذمہ دار اور سطحی جذباتی تقاریر سے قومی شعور کو الجھائے اور قومی و مزاحمتی بیانیے کو مسخ کرے۔

ریاستی ڈاکٹرائن عسکری جبر کے ساتھ "سائلنٹ فورسز” کے ذریعہ مزاحمتی تحریک کو ختم کرنے پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ یہ وہ قوتیں ہیں جو بلوچیت کا لباس پہن کر بلوچ مزاحمت کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ ہدایت الرحمن اسی خاموش ریاستی ہتھیار کا حصہ ہیں ایک
ایسی سیاسی چال جو الجزائر، ویت نام، کیوبا، اور بنگال میں بھی استعمال کی جا چکی ہے۔ ان تحریکوں میں بھی جب فوجی طاقت ناکام ہوئی، تو مذہب اور قومیت کے درمیان کنفیوژن پیدا کرنے والے ایجنٹس کو استعمال کیا گیا تاکہ اصل جدوجہد کو منحرف کیا جا سکے۔

بلوچ قوم نے ماضی میں بھی قرآن، اسلام، اور مذہب کے نام پر دھوکہ کا زخم خوردہ ہیں۔ مولویوں کے ہاتھوں، قبیلوی تقسیم اور فکری انتشار بلوچ مزاحمت کے راستے میں بارہا حائل کیا گیا۔ لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بلوچ شعور اب پہلے سے زیادہ پختہ، منظم اور باشعور ہو چکا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو ڈاکٹر ماہ رنگ جیسے راجی راہشون کو ریاستی جبر کا شکار بنتے دیکھتی ہے، لیکن ہدایت الرحمن کے لیے ریاستی دروازے کھلے دیکھ کر اس کی حقیقت سے پردہ اٹھا لیتی ہے۔
بلوچ قومی جدوجہد نہ تو کوئی وقتی ابال ہے، نہ ہی کوئی جزوی، اصلاحاتی یا فلاحی نوعیت کی تحریک۔ یہ ایک گہری تاریخی، نظریاتی اور انقلابی قومی تحریک ہے، جس کی بنیاد قومی آزادی، خودمختاری اور سماجی انصاف جیسے اٹل اصولوں پر استوار ہے۔ یہ محض ردِ مظالم نہیں، بلکہ اپنے وجود، اپنی سرزمین، اپنی شناخت اور اپنے مستقبل پر کامل اختیار کا اعلان ہے۔
یہ تحریک وقت کے ساتھ ایک ہمہ گیر قومی بیداری میں ڈھل چکی ہے، جو صرف سیاسی نعروں یا جلسوں تک محدود نہیں، بلکہ مسلح تنظیم، فکری و دانشورانہ مزاحمت، خواتین کی فعّال شمولیت، نوجوانوں کی نظریاتی صف بندی اور بین الاقوامی سطح پر ابھرتی ہوئی حمایت جیسے مختلف دائروں میں اپنی موجودگی کو منوا چکی ہے۔ایسے میں جماعتِ اسلامی جیسے مذہبی و ریاستی مفادات سے وابستہ ادارے اور افراد، سفید پوش مجرم،نقاب پوش کردار، جن کا مقصد بلوچ قومی یکجہتی منتشر کرنا، تحریکِ آزادی کو معتدل مطالبات میں گم کرنا، اور جدوجہد کی نظریاتی اساس کو مسخ کرنا ہے۔
تاہم بلوچ قوم اب اُس تاریخی مرحلے پر آ پہنچی ہے، جہاں وہ ان مصنوعی متبادلوں، کاسہ لیس بیانیوں، اور پراکسی قیادتوں کو بہت پہلے بے نقاب کر چکی ہے۔ قومی شعور اب اُس سطح پر فائز ہے جہاں وہ جہد آزادی اور سازشی سرگوشیوں میں واضح فرق پہچانتا ہے۔ اب کوئی دھوکہ، کوئی جذباتی نعرہ، اور کوئی جعلی ہمدردی بلوچ عوام کو شاہراہ آجوئی سے ہٹا نہیں سکتا۔

اب وقت آ چکا ہے کہ بلوچ عوام کسی تذبذب، مخمصے یا وقتی جذباتی تاثر میں آئے بغیر، ہدایت الرحمٰن جیسے منصوبہ بند کرداروں کا ہمہ گیر سیاسی بائیکاٹ کرے۔ اُن کے جلسوں، نعروں اور تقاریر کو عوامی سطح پر یکسر مسترد کر دے، تاکہ یہ پیغام پوری قوت سے ابھرے کہ بلوچ قوم اپنی تحریکِ آزادی، اپنی نظریاتی خودمختاری، اور اپنے شہداء کے لہو سے کبھی غداری نہیں کرے گی۔یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ یا تو ہم تاریخ کا فخر بنیں گے یا خاموشی کی قیمت غلامی کی صورت میں چکائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تربت میں قابض فوج کے قافلے پر آئی ای ڈی حملے میں دو ہلاک – بی ایل اے

بدھ اگست 6 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سرمچاروں نے تربت میں قابض پاکستانی فوج کے ایک قافلے کو آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنایا۔ ترجمان نے کہا کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے گزشتہ شب تقریباً دس بجے قابض […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ