
اسلام آباد: بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا آج مسلسل 22ویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔ بلوچستان سے آئے مظاہرین، جن میں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں شامل ہیں، شدید گرمی، بارش اور ریاستی دباؤ کے باوجود پُرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان 22 دنوں کے دوران مظاہرین کو نہ صرف احتجاجی کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ نیشنل پریس کلب جانے والی سڑک بھی بند رکھی گئی ہے، جہاں مظلوموں کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مظاہرین کو سڑک کنارے بیٹھنے پر مجبور کیا گیا ہے، اور اُن پر مسلسل نگرانی، دباؤ اور ہراسانی کا سلسلہ جاری ہے۔
ریاستی ادارے مظاہرین کو پرامن احتجاج کا حق دینے سے انکاری ہیں۔ ان کے جائز مطالبات سننے کے بجائے، ان کی نگرانی، پروفائلنگ اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔
آج کے دن گزشتہ کئی سالوں سے جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما سمی دین بلوچ نے بھی کیمپ میں شرکت کی ہے۔ ان کی شرکت نے احتجاجی کیمپ میں موجود مظاہرین کے حوصلے مزید بلند کیے ہیں۔
مظاہرین دو بنیادی مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں:
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام لاپتہ رہنماؤں کی فوری رہائی
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مکمل خاتمہ
مظاہرین نے انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ اُن کی آواز بنیں اور اس ریاستی جبر کے خلاف ان کا ساتھ دیں۔