
جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں جاری دھرنے کو آج بیس دن مکمل ہو گئے ہیں، تاہم مظاہرین کو حکام کی جانب سے مسلسل ہراسانی، تضحیک اور بے حسی کا سامنا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ نے ان کے ساتھ کسی قسم کی سنجیدہ بات چیت کے بجائے صرف روایتی بیوروکریٹک رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔
پیر کے روز اسسٹنٹ کمشنر ماہین حسن کی سربراہی میں انتظامیہ کا ایک وفد دھرنے کے شرکاء سے ملاقات کے لیے آیا۔ مظاہرین کے مطابق انہوں نے دھرنا پریس کلب کے سامنے منتقل کرنے کی بات کی، جس پر اے سی نے کہا کہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے پر پابندی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ “یہ بات حیران کن ہے کہ وہ جگہ جو اظہارِ رائے کی آزادی اور پُرامن احتجاج کے لیے مختص ہے، وہاں جانے سے بھی ہمیں روکا جا رہا ہے۔”
انتظامیہ نے مظاہرین کو ہدایت دی کہ اگر وہ دھرنا جاری رکھنا چاہتے ہیں تو شہر سے باہر سنگجانی منتقل ہو جائیں، جو اسلام آباد کی مویشی منڈی کے طور پر جانی جاتی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اس فیصلے کو ظلم پر پردہ ڈالنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ “جب اسلام آباد کے دل میں ہماری بات سننے کو کوئی تیار نہیں، تو سنگجانی جیسے دور دراز مقام پر کون ہماری آواز سنے گا؟”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد میں اب بلوچ ماؤں اور بہنوں کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی، اور یہ حکومتی طرزِ عمل بلوچ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
واضح رہے کہ دھرنے میں شریک افراد کا بنیادی مطالبہ ہے کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے یا اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔