"جب نسل کشی قانون بن جائے” ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے عدالتی بیان کے تناظر میں !

تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون

تاریخِ عالم گواہ ہے کہ آزادی کی جدوجہد ہمیشہ قابض ریاستی تشدد کے خلاف ایک ناگزیر ردِعمل کے طور پر ابھرتی ہے۔ یہ ردِعمل صرف وقتی یا جذباتی نہیں ہوتا بلکہ ایک منظم، شعوری اور انقلابی حکمتِ عملی پر مبنی "جوابی تشدد” (Counter-Violence) کی صورت اختیار کرتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کبھی بھی رضاکارانہ طور پر اپنے تسلط سے دستبردار نہیں ہوتا، نہ ہی وہ مقبوضہ اقوام کو آزادی کی راہ پر گامزن ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے نوآبادیات میں آزادی کی جنگ ایک فطری، تاریخی اور ارتقائی عمل ہے، جو صرف طاقت کے توازن کو بگاڑ کر ہی قابض کو پسپائی پر مجبور کر سکتی ہے۔قابض قوتیں اپنی گرفت کو کم کرنے کے بجائے مزید مضبوط کرتی ہیں، وسائل کی لوٹ مار کے جال کو سمیٹنے کے بجائے اسے وسعت دیتی ہیں، اور مقبوضہ اقوام کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے فوجی طاقت، قانون، میڈیا، اور مذہب جیسے ذرائع کو استعمال کرتی ہیں۔ ایسے میں مزاحمت محض ایک اخلاقی فریضہ نہیں رہتی، بلکہ وہ مقبوضہ قوموں کے لیے ایک سیاسی، تاریخی اور وجودی ضرورت بن جاتی ہے۔ جب ریاستی قانون جبر کا آلہ بن جائے، جب انصاف طاقت کے تابع ہو جائے، اور جب مذاکرات محض استحصالی چال بن جائیں، تو پھر فیصلہ نہ کسی عدالت میں ہوتا ہے، نہ کسی کانفرنس کی میز پر بلکہ فیصلہ ہوتا ہے میدانِ جنگ میں، جہاں مقبوضہ قوم اپنے خون سے آزادی کا مقدر لکھتی ہے۔

جب قابض ریاست ایک مہلک جنگ کا سامنا کرتی ہے، تو وہ پہلے سے زیادہ وحشی اور غیر انسانی روپ اختیار کر لیتی ہے۔ وہ اپنےاقتدار اورقبضہ کو بچانے کے لیے اندھا دھند طاقت کا استعمال کرتی ہے، اور دو طرفہ خونریزی میں بے گناہ انسانوں کا لہو بہتا ہے۔ مگر اس خون کی تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف قابض پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ جنگ کا آغاز مقبوضہ نے نہیں کیا، بلکہ اس کی بنیاد ہی قابض کے غیر ملکی تسلط، جبری قبضے اور سیاسی غاصبانہ مداخلت پر رکھی گئی تھی۔ جب کوئی قوم اپنی زمین، اپنی شناخت، اور اپنے حقِ آزادی کے لیے آواز بلند کرتی ہے اور جواب میں اسے گولی، تشدد اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہاں مزاحمت ایک ناگزیر فطری ردعمل بن جاتی ہے۔ ایسے میں جو خون بہتا ہے، وہ آزادی کا قیمت ہوتا ہے اور اس قیمت کو لازم بنانے والا صرف اور صرف وہ نظام ہے جو غیر قانونی قبضے پر قائم ہے۔ایسی صورتحال میں آزادی کی جنگ کوئی اختیار نہیں بلکہ واحد راستہ بن جاتی ہے۔ مزاحمت ہی وہ ذریعہ ہے جو مقبوضہ اقوام کو قابض کی غلامی سے نجات دلاتی ہے۔ اور قابض سے مکمل چھٹکارا تبھی ممکن ہے جب زمین، اختیار اور حکومت براہِ راست مقبوضہ قوم کے ہاتھوں میں ہو۔ یہی تاریخی تقاضا ہے، یہی سیاسی انصاف ہے، اور یہی فطری حق آزادی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہر آزادی کی تحریک ایک ایسے لمحۂ صداقت پر ابھرتی ہے، جب جھوٹ کا جبر لرزنے لگتا ہے، جب ظلم کے پردے چاک ہونے لگتے ہیں، اور جب مزاحمت محض ایک نعرہ نہیں رہتی بلکہ گلیوں، چوراہوں، پہاڑوں اور زندانوں میں گونجنے والی ایک زندہ صدائے جدوجہد بن جاتی ہے۔ یہ لمحے صرف مقبوضہ کی صفوں میں نہیں جنم لیتے، بلکہ ظالم کے خودساختہ ایوانِ انصاف میں بھی گونجتے ہیں، جہاں سچ اپنے جبر شکن وجود کے ساتھ ابھرتا ہے۔ بلوچ مزاحمت کی تاریخ ایسے لمحوں سے لبریز، زندہ، اور تابندہ ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا گزشتہ دنوں ریاستی عدالت میں دیا گیا ریکارڈ بیان محض ایک قانونی دفاع نہیں، بلکہ ایک فکری اور انقلابی میراث ہے۔ یہ بیان اس کالونیل عدالتی نظام کے چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے، جو انصاف کے نام پر استبداد کو تحفظ دیتا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ نے عدالت کے کٹہرے کو ہی مزاحمت کا منبر بنا دیا، اور قابض ریاست کو آئینہ دکھایا ۔ وہ آئینہ جس میں قانون کی شکل کالونیل تشدد کی صورت میں نمایاں نظر آتی ہے۔پیشی کے دوران ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ریاستی عدالت کے کٹہرے میں جو الفاظ کہے، وہ نہ صرف ایک فرد کا احتجاجی اظہار ہے بلکہ کل بلوچ قوم کی سیاسی فکری نمائندگی ہے۔ ان کے الفاظ قابض عدالت کی چار دیواری میں گونجنے والے محض جملے نہیں تھے، بلکہ وہ گونجتی ہوئی صدائیں تھیں جو بلوچستان کے پہاڑوں، وادیوں اور اجتماعی قبرستانوں سے اٹھتی آئی ہیں۔
یہ بیان ایک لمحۂ صداقت ہے ایسا لمحہ جب سچ، جبر کے منہ پر طمانچہ بن کر گونجتا ہے۔ قابض ریاست کے عدالتی ڈھانچے کے سامنے، اس کے اپنے ہی فورم پر، ایک بلوچ بہادر خاتون کی آواز نے وہ سچ کہہ دیا جسے کہنے کی سزا صدیوں سے بلوچ وصول کر رہی ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ "ہم اپنی جدوجہد سے اس ملک کے قانون اور عدالتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ یہاں کوئی عدالت نہیں اور نہ ہی قانون، بلکہ یہاں قانون کا مطلب بلوچ نسل کشی ہے، بلوچ وسائل کو لوٹنا ہے۔ بھگت سنگھ نے اسی طرح انگریز کے قانون اور عدالتوں کو بے نقاب کردیا تھا۔ اس ملک کا پارلیمنٹ، جج، عدالت، پولیس سب ایک صفحہ پر ہیں۔ آج بلوچستان میں ایک لکیر کھنچ گئی ہے کہ کون ظالم کے ساتھ کھڑا ہے اور کون مظلوم کے ساتھ۔ ہمارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے جبری گمشدہ بھائیوں کو یہ عدالتیں اور قانون بازیاب کرائیں گے اس طرح نہیں ہوگا۔ ہمیں خود ان زندانوں کے دروازے کھولنا پڑے گا۔ یہ وہی بےحس لوگ ہیں جو اسلام آباد میں ہماری دس ماؤں کو برداشت نہیں کرسکتے۔ یہاں ان کی نسل در نسل آبادیاں ہیں اور پنجاب کی معیشت ہم چلا رہے ہیں۔”

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے بیان کی روح کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس ریاست کے عدالتی نظام کی تاریخی ساخت کو جانچنا ہوگا۔ برصغیر میں نوآبادیاتی قانون کا جنم ہی استعماری مفادات کے تحفظ کے لیے ہوا تھا۔ برطانوی راج کے تحت "قانون” کا مطلب تھا قابض کو قانونی جواز فراہم کرنا، مزاحمت کو جرم بنانا، اور انصاف کو صرف سامراجی مفاد کی خدمت میں محدود رکھنا۔ عدلیہ، جو بظاہر غیر جانبداری کا ادارہ دکھائی دیتی تھی، دراصل برٹش سامراج کے ظالمانہ نظام کا جزوِ لاینفک تھی۔

آج کا موجودہ پنجابی ریاستی عدالتی نظام اسی استعماری ماڈل کا تسلسل ہے، جہاں قانون کی روح انصاف نہیں بلکہ ریاستی قبضہ کی بقا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا عدالت میں دیا گیا بیان اسی سامراجی ساخت کے خلاف ایک فکری مزاحمت ہے۔ ان کے الفاظ نے قانون کی اس نام نہاد عمارت کی بنیادیں ہلا دیں، جو بلوچ قوم پر ظلم و جبر کو ‘قانونی جواز’ عطا کرتی ہے۔ ان کا بیان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب قانون ظلم کا ہتھیار بن جائے، تو عدالتیں انصاف کے مندر نہیں بلکہ جبر کے کٹہرے بن جاتی ہیں۔

برطانوی سامراج نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس نے صرف عسکری یا معاشی نظام مسلط نہیں کیا بلکہ قانونی ڈھانچے کو بھی اپنی حکمرانی کا ستون بنایا۔ 1860ء میں انڈین پینل کوڈ، 1872ء کا ایویڈنس ایکٹ، اور دیگر نوآبادیاتی قوانین دراصل برطانیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے۔ یہ قوانین "انصاف” کے نام پر متعارف کروائے گئے لیکن ان کا مقصد ہندوستانی قوم پر کنٹرول کرنا، ان کی مزاحمت کو جرم قرار دینا، اور برطانوی تسلط کو قانونی تحفظ دینا تھا۔

بھگت سنگھ نے ایک موقع پر جب عدالت کے روبرو اپنی تقریر میں کہا کہ "یہ عدالتیں انصاف کے لیے نہیں، برطانوی قبضہ کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہیں”۔ انگریزوں نے عدالت کو ایسا ادارہ بنایا جہاں سے آزادی کی جدوجہد کو دبایا جائے، انقلابیوں کو "غدار” کہا جائے، اور مزاحمت کو "دہشتگردی” بنا کر پیش کیا جائے۔بھگت سنگھ، راج گرو، اور سکھ دیو جیسے انقلابیوں کو دی گئی سزائیں اسی عدالتی ڈھانچے کی پیداوار تھیں جس کا مقصد "قانون” کا وقار نہیں، بلکہ انگریزی قبضہ کو قائم رکھنا تھا۔

آج جب ہم ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ گلزاری جیسے مزاحمتی کرداروں کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں بھگت سنگھ، راج گروہ اور سکھ دیو کی وہی انقلابی للکار سنائی دیتی ہیں جنہوں نے نوآبادیاتی سامراج کے خلاف اپنے خون سے مزاحمت کی تاریخ لکھی تھی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اور ان جیسے دیگر مزاحم رہنما محض افراد نہیں، بلکہ وہ ایک زندہ شعور، فکر، اور نظریہ کا نام ہیں ۔ ایک ایسا نظریہ جو آزادی، خودمختاری اور انسانی وقار پر مبنی ہے۔ان مزاحمت کاروں نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران جس صبر، استقامت اور قربانی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی سامراجی ریاستیں صرف جسمانی تشدد ہی نہیں بلکہ نام نہاد قانونی، عدالتی اور آئینی تشریحات کو بھی بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اور ساتھی اسیران کو کو طویل عرصے تک تھری ایم پی او جیسے نوآبادیاتی دور کے کالے قانون کے تحت حراست میں رکھا گیا، جو برطانوی راج کے زمانے سے ہی سیاسی کارکنوں کی آواز دبانے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔آج انہی نوآبادیاتی باقیات پر کھڑی عدالتیں ایک بار پھر تاریخ کو دہرا رہی ہیں۔ ریمانڈ پر ریمانڈ، پیشی پر پیشی، اور حراست پر حراست دراصل مزاحمتی آواز کو خاموش کرنے کی وہی پرانی نوآبادیاتی روش ہے جسے پہلے انگریز آزما چکے ہیں، ان عدالتوں کا انصاف سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ صرف اس "فرمان” کو نافذ کرتی ہیں جو انہیں ریاستی عسکری قوتوں سے موصول ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے قابض عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اس پورے قانونی ڈھانچے کی اصل ماہیت کو جس جرات، دانش اور شعوری طاقت سے بے نقاب کیا ، وہ صرف ایک بیان نہیں، بلکہ نوآبادیاتی اذہان پر ایک کاری ضرب ہے۔
بیبو بلوچ گلزاری اور ڈاکٹر ماہ رنگ شاہ جی بلوچ بیبرگ بلوچ اور کامریڈ غفار بلوچ جیسے انقلابی اور مزاحم کردار وہ مشعلیں ہیں جو بھگت سنگھ کی نظریاتی روشنی کو بلوچ مزاحمت کی سرزمین پر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنی سیاسی بصیرت اور مزاحمتی جرات سے نہ صرف نوآبادیاتی سامراجی نظام کو چیلنج کیا، بلکہ عدالت کو بھی ایک "مزاحمتی فورم” میں بدل کر رکھ دیا بالکل اُسی طرح جیسے بھگت سنگھ نے برطانوی عدالتوں کو صرف قانونی ادارے نہیں بلکہ سامراج کے محافظ قرار دے کر ان کے نقاب اتار دیے تھے۔ بھگت سنگھ نے صاف الفاظ میں کہا تھا:
"ہمیں اس عدالت سے انصاف کی کوئی امید نہیں، کیونکہ یہ عدالت اس سامراج کی خدمت کر رہی ہے جو ہندوستانی عوام کا دشمن ہے۔”

آج تقریباً ایک صدی بعد، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اسی تاریخی تسلسل کو زندہ رکھتے ہوئے عدالت کے روبرو اعلان کرتی ہیں:
"یہ عدالتیں بے حس ہیں، یہ انصاف کی نہیں، بلکہ جبر کا آلہ ہیں "

تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم کے ایوانوں کو مقدس بنا دیا جائے، جب قانون انصاف کا نہیں بلکہ جبر کا ہتھیار بن جائے، اور جب عدالتیں کسی مظلومکی آواز سننے کے بجائے سامراج کی گونج کو دہرانے لگیں تو مزاحمت صرف پہاڑوں، میدانوں یا گلیوں میں نہیں جنم لیتی، وہ عدالت کے کٹہرے میں بھی سر اٹھاتی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسے مزاحم رہنما جب ریاستی عدالتوں کے روبرو سامراجی نظام پر سوال اٹھاتے ہیں، تو وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ عدالت بھی مزاحمت کا ایک فورم بن سکتی ہےاگر اس میں کھڑا ہونے والا فرد باشعور، انقلابی اور بے باک ہو۔

"تاریخ نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ نوآبادیاتی عدالتیں محض انصاف اور میزان کے مقدس ادارے نہیں ہوتیں، بلکہ وہ نوآبادیاتی ریاست کے جبر، قبضے اور استحصال کو قانونی جواز فراہم کرنے والا ایک اہم ہتھیار ہوتی ہیں۔ عدالتیں وہاں انصاف کے بجائے اقتدار کی توسیع اور مقبوضہ اقوام کی مزاحمت کو دبانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوآبادیاتی دور میں ان عدالتوں کے سامنے کھڑے ہو کر حق گوئی کرنے والے انقلابی دراصل عدالتی جبر کو بے نقاب کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ہیں۔”

تاریخ انسانی میں قانون ایک ایسا آلہ ہے جسے دو متضاد سمتوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک جانب قانون مظلوموں، اور کمزور انسانوں کے حقوق کی حفاظت کا ضامن بنتا ہے، جہاں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مگر دوسری جانب، قانون قبضہ گیر اور طاقتور قوتوں اور نوآبادیاتی قبضے کو برقرار رکھنے کا ایک آلہ بھی بن جاتا ہے، خاص طور پر نوآبادیاتی دور میں جہاں قانون کے ذریعے مقبوضہ عوام پر مظالم، ناانصافی اور ظلم کو جواز فراہم کیا جاتا رہا۔ آج بھی غیر فطری پاکستانی ریاست ن میں قانون کو ریاستی جبر کی توسیع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے انسانی حقوق کا اصل مقصد مٹ جاتا ہے اور قانون قابض قوت کے ہتھیار کے طور پر سامنے آتا ہے۔

بھگت سنگھ نے عدالت کو صرف اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا فورم نہیں بنایا، بلکہ اسے ایک سیاسی تھیٹر میں بدل دیا، جہاں وہ سامراج کے خلاف نظریاتی جدوجہد کو عوامی شعور کا حصہ بناتے رہے۔ ان کی تحریریں، ان کی تقریریں اور ان کا رویہ ریاست کے عدالتی ڈھانچے کو چیلنج کرتا رہا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی عدالت کو اسی طرح کے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان کا بیان محض ایک قانونی دفاع نہیں بلکہ ایک سیاسی حملہ ہے۔ وہ عدالت کے اندر کھڑے ہو کر اس سماجی ڈھانچے کو بے نقاب کرتی ہیں، جو بلوچ قوم کی غلامی ، استحصال ، جبر اور نسل کشی کا ذمہ دار ہے۔جب قابض مظلوم کو کچلنے کے لیے عدالتوں کو استعمال کرے، تو کٹہرہ ہی انقلاب کا منبر بن جاتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خاموشی جبر کا سب سے بڑا مددگار ہوتا ہے ۔ جب جبر کے خلاف نہیں بولا جاتا تو وہ نظام مزید بے خوف اور بے لگام ہو جاتا ہے۔ نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے کے خلاف آواز بلند کرنے والے دراصل انسانیت، انصاف اور آزادی کے پرچم بردار ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے، تو ہم خود نادانستہ طور پر اس جبر کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے خلاف وہ لڑ رہے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ محض ایک فرد نہیں، بلکہ ایک فکری مورچہ ہیں ایسا مورچہ جو نوآبادیاتی ریاستی بیانیے، قانونی جبر، اور قومی استحصال کے خلاف نظریاتی صف بندی کی علامت بن چکا ہے۔ ہر وہ بلوچ جو آزادی، انصاف اور انسانی وقار پر یقین رکھتا ہے، اُس پر لازم ہے کہ وہ اس فکری جنگ میں شریک ہو یہ بلوچ قوم کی بقاء ، تشخص، شناخت اور آزادی کی جنگ ہے۔
"اور یاد رکھو: جب عدالتیں جبر کی نمائندہ بن جائیں، تو مزاحمت قانون شکنی نہیں بلکہ قانون کی تطہیر اور نجات ہوتی ہے۔”ایسے حالات میں قانون محض الفاظ کا مجموعہ نہیں رہتا بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بن جاتا ہے جو ظلم کو قانونی جامہ پہناتا ہے۔ اس صورت میں، مزاحمت کرنے والے نہ صرف جابر نظام کے خلاف اٹھتے ہیں بلکہ قانون کو اس کے اصل مقصد یعنی انصاف، برابری، اور انسانی وقار کی طرف واپس لاتے ہیں۔جب جج منصف کے بجائے قاتل بن جائے، ریاست محافظ کے بجائے قابض ہو، اور قانون ضمیر سے خالی ہو جائے، تو عدالت کے کٹہرے میں کھڑے مزاحم انسان ملزم نہیں ہوتے بلکہ وہی اصل قانون، اصل انصاف، اور اصل انسانی وقار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ایسے لمحے تاریخ میں وہ موڑ ہوتے ہیں جب قانون کی اخلاقی روح عدالتوں سے نکل کر مزاحم آوازوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ تب کٹہرہ محض ایک عدالتی مقام نہیں رہتا بلکہ ایک فکری مورچہ بن جاتا ہے،

بلوچ وطن میں ریاستی عدالتیں، آئین اور دیگر ریاستی ادارے محض انصاف کے نمائندے نہیں بلکہ جبر کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلے، اجتماعی سزائیں، اور قدرتی وسائل کی منظم لوٹ مار اس حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ یہاں "قانون” دراصل مقبوضہ قوم کے وجود کو مجرم قرار دینے کا ایک ڈھانچہ ہے۔

بلوچ کے لیے صرف زندہ رہنا ہی نہیں، بلکہ اپنی زبان بولنا، اپنی سرزمین سے محبت کرنا، سیاسی شعور رکھنا، یا پرامن احتجاج کرنا بھی جرم بن چکا ہے۔ اس قابض نظام میں جرم وہ نہیں جو قانون توڑتا ہے، بلکہ وہ ہوتا ہے جو جبر کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ یہاں عدالتیں انصاف کی جگہ خوف کا نمائندہ، اور آئین انصاف کا ضامن نہیں بلکہ ریاستی قبضے کا منشور بن چکا ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں مزاحمت صرف حق نہیں، بلکہ فرض بن جاتی ہے کیونکہ جب قانون ظلم کا محافظ بن جائے تو مزاحمت انصاف کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔

قابض عدالتوں سے انصاف کی بھیک مانگنا دراصل اس نظام کے چہرے پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے جو بذاتِ خود ظلم کا ستون ہے۔ نوآبادیاتی عدالتیں انصاف کی علامت نہیں ہوتیں، بلکہ جبر کو قانونی شکل دینے کا ادارہ ہوتی ہیں—ایسی ریاست کا قانونی ڈھانچہ، جو شہداء کی لاشوں کی واپسی پر احتجاج کرنے والوں پر بھی پابندیاں عائد کرے، اور وہ عدالتیں جو ان ظالمانہ پالیسیوں کو آئینی تحفظ دیں، وہ عدالتیں نہیں، جبر کا رسمی چہرہ ہیں۔

جبری گمشدگی اس ریاست کا ہتھیار ہے، اور عدالت اس پر خاموش تماشائی۔ نہ ایف آئی آر درج ہوتی ہے، نہ بازیابی کے لیے کوئی سنوائی ہوتی ہے، اور نہ کوئی ادارہ جواب دہ ہوتا ہے۔ ایسے میں عدالتوں سے انصاف کی امید رکھنا خودفریبی ہے، اور اس خودفریبی میں وقت، توانائی اور حوصلہ ضائع کرنا اپنی تحریک سے رو گردانی کے مترادف ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس ریاست سے انصاف کی توقع رکھنے کے بجائے اپنی مزاحمتی صفوں کو مضبوط کریں۔ اپنی سٹیمنا، اپنے آدرش، اور اپنی توانائیاں اس راہ میں صرف کریں جہاں آزادی کا امکان جنم لیتا ہے—جہاں مزاحمت صرف ردعمل نہیں، بلکہ ایک تخلیقی عمل بن جائے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا عدالت میں دیا گیا بیان محض ایک فرد کی آواز نہیں، بلکہ بلوچ قوم کے اجتماعی شعور، تاریخ، اور نظریاتی مزاحمت کا انعکاس ہے۔ یہ بیان عدالت کے کٹہرے میں دیا گیا ایک فکری دھماکہ ہے—ایسا دھماکہ جو ان اداروں کی اصل کو بے نقاب کرتا ہے جو بظاہر قانون و انصاف کے نمائندے ہیں، لیکن درحقیقت نوآبادیاتی ریاست کی جبرآلود مشینری کے کل پرزے بن چکے ہیں۔

یہ ایک علامتی لمحہ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عدالت، پارلیمان، پولیس یا بیوروکریسی—کوئی بھی ادارہ—قابض ریاست کی ڈھال کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بلوچ مزاحمت ان تمام اداروں کے اس فریب کو چاک کر رہی ہے، اور یہ واضح کر رہی ہے کہ جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور نام نہاد عدالتی کارروائیاں کسی فرد یا واقعے کا ردعمل نہیں، بلکہ ایک مرکزی نوآبادیاتی منصوبے کا حصہ ہیں۔

ایسے میں عدالتیں انصاف کا مرکز نہیں بلکہ نوآبادیاتی اقتدار کا ہتھیار بن جاتی ہیں۔ ان کی حیثیت ایک شکست خوردہ نظام کے خالی خول جیسی رہ جاتی ہے—اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے نظام، چاہے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، جلد یا بدیر زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچستان کی زمینی حقیقت کو محض الفاظ میں نہیں، بلکہ ایک فکری لکیر میں پیش کر دیا ہے:”آج بلوچستان میں ایک لکیر کھنچ چکی ہے کہ کون ظالم کے ساتھ ہے اور کون مظلوم کے ساتھ۔”
یہ ایک بیان نہیں، بلکہ ایک تہذیبی، اخلاقی اور قومی سوال ہے ایسا سوال جس سے فرار ممکن نہیں۔ اس لکیر کا مطلب ہے کہ خاموش رہنا، لاتعلق ہونا، یا "نیوٹرل” کہلانا دراصل جبر کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ ایسے ادوار میں غیر جانب داری کوئی اخلاقی پوزیشن نہیں، بلکہ ظلم کی توسیع ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسے انقلابی رہنما ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ صرف ظلم کے خلاف بولنا کافی نہیں، بلکہ ہمیں خود ان زندانوں کے دروازے کھولنے ہیں—یعنی اس جبر کے نظام کو توڑنے، اس کے بیانیے کو چاک کرنے، اور اس کے ڈھانچے کو رد کرنے کے لیے عملی مزاحمت کرنا ہو گی۔ یہ جملہ، "ہمیں خود ان زندانوں کے دروازے کھولنا ہے”، دراصل مزاحمتی تاریخ کا اگلا باب ہے۔ ایک ایسا باب جو غلامی سے انکار، اور آزادی کی تخلیق کا اعلان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

اسلام آباد میں بلوچ افراد کے دھرنے کو 20 دن مکمل، مظاہرین کو سنگجانی منتقل ہونے کا حکم

پیر اگست 4 , 2025
جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں جاری دھرنے کو آج بیس دن مکمل ہو گئے ہیں، تاہم مظاہرین کو حکام کی جانب سے مسلسل ہراسانی، تضحیک اور بے حسی کا سامنا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ