براہوئی اور بلوچ: زبان کی بنیاد پر تقسیم کا نوآبادیاتی بیانیہ

Abstract Smooth Brown wall background layout design,studio,room,web template,Business report with smooth circle gradient color.

تحریر: رامین بلوچ

بلوچ قوم ہزاروں سالہ تاریخ، ثقافت، زبان اور جدوجہد کی علامت رہی ہے۔ ان کی نسلی شناخت اور تاریخی تسلسل ہمیشہ مستحکم اور مربوط رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچستان کی سرزمین پر آباد بلوچ قوم کو مختلف سامراجی، استعماری اور مذہبی بیانیوں کے ذریعے شناخت، تاریخ اور مقام سے محروم کرنے کی منظم کوششیں کی گئی ہیں۔ ہر حملہ آورچاہے وہ عرب ہو، ایرانی ہو، انگریز ہو یا پنجابی،نے بلوچ قوم کی تہذیبی تاریخ کو مسخ کرنے کا ایک نیا ہتکھنڈہ اختیار کیا، تاکہ نہ صرف اس قوم کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے بلکہ اس کی یکجہتی اور مزاحمتی روح کو بھی کچلا جا سکے۔یہ مضمون اسی تاریخی جبر اور علمی مغالطہ کے خلاف ایک علمی دستاویز ہے۔
نوآبادیاتی ادوارخصوصاً انگریز فوجی مورخین کے زمانے میں بلوچ یکجہتی اور تاریخی ورثے میں دانستہ ایسی دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی گئیں، جو آج بھی بلوچ شناخت میں مباحث اور باہمی تقسیم کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ان ہی سازشوں میں سے ایک بڑی تقسیم "براہوئی” اور "بلوچ” کے درمیان قائم کی گئی۔ اس نظریاتی خلیج کو بعد ازاں ریاستی بیانیے اور بعض غیر تحقیقی مورخین نے بغیر تنقیدی جائزے کے دہرایا، جس سے ایک مصنوعی لسانی و نسلی تفریق جنم لیتی رہی۔

اس مضمون میں ہم اس دعوے کا تحقیقی اور تاریخی تجزیہ پیش کریں گے کہ براہوئی زبان بولنے والے افراد دراصل بلوچ ہی ہیں، جن کا دراوڑی نسل یا زبان سے کوئی تاریخی، لسانی یا تہذیبی تعلق نہیں۔ ہم اس استعماری پروپیگنڈے کے پس پردہ مقاصد، علمی تحریفات اور زمینی حقائق کو بھی واضح کریں گے، جن کے ذریعے انگریز فوجی مؤرخین نے بلوچ وحدت کو تقسیم کرنے کی منظم کوشش کی۔براہوئی اور بلوچ کی لسانی تنوع کی تقسیم درحقیقت انگریز سامراج کی پیداوار ہے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک واحد قوم کے اندر مختلف زبانیں رائج ہو سکتی ہیں۔ بلوچ سماج صرف براہوئی زبان تک محدود نہیں، بلکہ دہواری، لاسی اور کئی دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔
براہوئی زبان کو بنیاد بنا کر ایک علیحدہ براہوئی قومیت کا دعویٰ یا پروپیگنڈہ سراسر بے بنیاد ہے اور بلوچ سماجی و زمینی حقائق سے ماورا ہے۔ براہوئی بولنے والے درحقیقت بلوچ ہی ہیں اور وہ بلوچ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا رنگ، تہذیب، ثقافت، طرزِ زندگی اور اساطیرکسی بھی پہلو سےبلوچی بولنے والے بلوچوں سے مختلف نہیں۔براہوئی زبان میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے الفاظ موجود ہیں جو براہِ راست بلوچی زبان سے ماخوذ ہیں، جو ان دونوں زبانوں کے درمیان گہرے تعلق اور اشتراک کی نشاندہی کرتے ہیں۔

بلوچ سماج میں آزادی کی تحریک کے حالیہ ابھار اور ماضی قریب میں "براہوستان” کے دعوے یا زبان کی بنیاد پر الگ قومیت کے بیانیے کا مقصد محض بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ یہ سازش پنجابی کالونائزر کی جانب سے کی جا رہی ہے، جس کے لیے باقاعدہ ادبی ادارے، گروہ، حلقے اور ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے فنڈڈ نیٹ ورکس سرگرم ہیں۔ یہ عناصر "براہوئی ادب” کے نام پر چھپے ہوئے سامراجی و مصنوعی بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔یہ پروپیگنڈا نیا نہیں، بلکہ اُس وقت سے جاری ہے جب انگریزوں نے بلوچستان پر قبضہ کیا۔ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر بلوچ قوم متحد ہو گئی، تو ان کے سامراجی مفادات کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے براہوئی اور بلوچ کی لسانی تنوع کو بنیاد بنا کر تقسیم کی سازش کی، جسے نام نہاد تحقیق اور جعلی تاریخ کے پردے میں پیش کیا گیا۔اگرچہ انگریز اس مکروہ منصوبے میں مکمل کامیاب نہ ہو سکے، تاہم ان کی بنیادی حکمت عملی "Divide and Rule” یعنی "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی ہی تھی، جس کے اثرات آج بھی مختلف شکلوں میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

انگریز مورخین، خصوصاً فوجی افسران پوٹینگر اور ڈینس برے، جب بلوچستان آئے تو انہوں نے بلوچ قوم کو "دو حصوں” میں تقسیم کر دیا۔ انہوں نے براہوئی زبان بولنے والے بلوچوں کو دراوڑی نسل سے جوڑنے کی کوشش کی اور براہوئی زبان کو دراوڑی زبان قرار دے کر ایک ایسا مغالطہ پیدا کیا، جس کے لگائے ہوئے زخم آج بھی بلوچ شعور میں گہرے نشتر کی طرح موجود ہیں۔حالانکہ اگر بلوچ قبائل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے، تو یہی قبائل مشرقی و مغربی بلوچستان میں بلوچی اور وسطی بلوچستان میں براہوئی زبان بولتے ہیں۔ جن قبائل کو انگریزوں نے "براہوئی” یا "دراوڑی” کہہ کر الگ کرنے کی کوشش کی، انہوں نے ہمیشہ خود کو بلوچ ہی کہا، لکھا اور تسلیم کیا۔

اگر قلات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو چاہے وہ خانیٹ کا دور ہو، میروانیوں کی حکمرانی ہو یا رند و لاشار کی حکومت کہیں بھی ہمیں کوئی "براہوئی حکومت” نظر نہیں آتی۔ تعزیراتِ قلات یا دیگر قدیم دستاویزات میں بھی "براہوئی قوم” کے طور پر کوئی علیحدہ شناخت موجود نہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا محض زبان کی بنیاد پر قومیں تقسیم کی جا سکتی ہیں؟کیا زبان، نسل یا قومی شناخت کا واحد پیمانہ ہے؟اگر ایسا ہوتا، تو وہ بلوچ جو سرائیکی، پشتو، فارسی، عربی یا سندھی بولتے ہیں کیا وہ پھر بلوچ نہیں رہتے؟

قوم کی تشکیل میں زبان یقیناً ایک اہم عنصر ہے، کیونکہ یہ شعور کی ترسیل، ثقافت کے اظہار، اور تاریخی ورثے کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ مگر زبان قوم کی بنیاد کا واحد ستون نہیں۔ اگر محض زبان کو ہی قومیت کی شرط مانا جائے، تو دنیا کی بےشمار تاریخی قومیں غیرقوموں میں شمار ہو جائیں گی۔حقیقت یہ ہے کہ قوم کی شناخت تاریخی تجربات، ثقافتی اقدار، جغرافیائی وحدت، اجتماعی سیاسی شعور، اور خود کو ایک "قوم” سمجھنے کے شعوری احساس پر استوار ہوتی ہے۔زبان اس مجموعے کا ایک اہم حصہ ضرور ہے، مگر یہ مکمل حقیقت نہیں، بلکہ ایک تہذیبی جزو ہے۔
اسی لیے بلوچ قوم میں مختلف زبانیں — بلوچی، براہوئی، سرائیکی وغیرہ — بولی جاتی ہیں، مگر ان تمام زبانوں کے بولنے والے خود کو بلوچ سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کی تاریخ، زمین، ثقافت اور مزاحمت مشترک ہے۔جو بیانیے بلوچ کو صرف لسانی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ نہ صرف علمی اعتبار سے ناقص ہیں بلکہ سیاسی طور پر خطرناک بھی، کیونکہ ان کا مقصد بلوچ وحدت کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔

براہوئی بولنے والے بلوچوں کی ثقافت، لباس، شادی بیاہ کے رسم و رواج، ، مہمان نوازی، عزت، غیرت، شناخت، جدوجہد اور اجتماعی دیوانی طرز حیات مکمل طور پر اس بلوچ قومی شناخت کا حصہ ہیں جو بلوچی بولنے والوں کی ہے۔
براہوئی اور بلوچی بولنے والے بلوچوں کی جینیاتی، جسمانی ساخت، رنگت، اور سماجی رویے میں کوئی فرق نہیں دونوں زبان بولنے والوں کے لوک داستانیں، رزمیہ شاعری، لوک موسیقی، اور سماجی اخلاقیات ایک جیسی ہیں۔
براہوئی زبان ایک زندہ حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ بلوچی زبان کے بعد بلوچ سماج میں اس زبان کا مقام دوسرا ہے۔براہوئی بولنے والا ہر فرد بلوچ ہے۔ اگر براہوئی زبان میں دراوڑی یا کسی اور زبان سے کچھ الفاظ یا ساخت مشابہت رکھتی بھی ہے، تو اس بنیاد پر یہ کہنا کہ براہوئی زبان دراوڑی ہے، قطعی طور پر غلط اور گمراہ کن مفروضہ ہے۔ زبان دراصل رابطے کا ایک ذریعہ ہے، اور اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ کا شامل ہونا فطری امر ہے۔ اس کے باوجود اگر تحقیق کی جائے، تو براہوئی زبان میں دراوڑی زبان سے لیے گئے الفاظ کی تعداد دو درجن سے زیادہ نہیں۔اس پورے معاملے کے پیچھے اصل سازش یہی تھی کہ بلوچ قوم کو اندرونی طور پر تقسیم کیا جائےزبان، علاقے، رنگ اور طبقے کے نام پر۔ مقصد تھا "براہوئی بمقابلہ بلوچ”، "مشرقی بمقابلہ مغربی”، "سردار بمقابلہ مڈل کلاس”، اور مذہب و فرقہ کے نام پر "زگری بمقابلہ نمازی” جیسے تضادات پیدا کرنا۔یہ تمام نوآبادیاتی چالیں تھیں جن کا مقصد بلوچ یکجہتی، وحدت اور اجتماعی شعور کو کمزور کرنا تھا، تاکہ بلوچ سرزمین کو نوچا جا سکے، بلوچ وسائل کو لوٹا جا سکے، اور بلوچ توار و آزادی کو دبایا جا سکے۔

نوآبادیاتی مورخین جیسے ہنری پوٹینگر، ڈینس برے، اور رابرٹ سینڈیمن نے براہوئی زبان کو دراوڑی خاندان سے جوڑ کر یہ مفروضہ قائم کیا کہ براہوئی بولنے والے بلوچ کسی الگ نسل یا قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بیانیے کے مطابق:
لسانی اختلاف = نسلی اختلاف ،ثقافتی فرق = قومیتی فرق
یہ مفروضے جدلیاتی مادیت اور معاصر بشریات (Modern Anthropology) کے اصولوں سے قطعی طور پر متصادم ہیں، کیونکہ:دنیا کی تمام بڑی اقوام میں لسانی تنوع پایا جاتا ہے (مثلاً سوئٹزرلینڈ، افغانستان، بھارت)، مگر وہ اپنی قومی وحدت پر قائم رہتی ہیں۔زبان کا تعلق قومیت سے ضرور ہے، مگر زبان کبھی بھی واحد یا مطلق تعین کنندہ نہیں ہوتی۔براہوئی اور بلوچی بولنے والے قبائل کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی، سماجی ڈھانچہ، روایتی بلوچی لباس، چادر اور زیورات یہ تمام عناصر دونوں لسانی گروہوں میں مشترک ہیں۔براہوئی بولنے والے بلوچ اور بلوچی بولنے والے بلوچ، دونوں ہی قومی تحریک کے یکساں اور ہر اول دستے رہے ہیں۔ چاہے وہ زمینی سیاست کی قیادت ہو یا مسلح مزاحمت کا میدانہر محاذ پر ان کا کردار یکساں، مربوط اور باہمی ہم آہنگی کا عکاس رہا ہے۔

زبان کو لسانیات (Linguistics) میں ایک ارتقائی مظہر (evolving phenomenon) کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو سماجی تعامل، تاریخی روابط، سیاسی عملداری، ثقافتی اثرات، اور تجارتی و عسکری تبادلوں سے جنم لیتی اور وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ زبانیں جامد نہیں ہوتیں، بلکہ یہ حرکیاتی نظام (dynamic systems) ہوتی ہیں، جو اپنے ماحول کے مطابق ارتقا پذیر رہتی ہیں۔نوآبادیاتی ماہرینِ بشریات اور لسانیات نے اکثر زبان کو نسلی تشخص (racial identity) سے نتھی کرنے کی کوشش کی، تاکہ مختلف قوموں کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کیا جا سکے۔ تاہم، جدید لسانی و بشریاتی تحقیقات اس تصور کو یکسر مسترد کرتی ہیں۔

سچ یہ ہے کہ:ایک ہی نسل کے افراد مختلف زبانیں بول سکتے ہیں۔مختلف نسلی گروہ ایک ہی زبان کو اپنا سکتے ہیں۔زبان محض ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ کوئی جینیاتی کوڈ یا نسلی تعین کا پیمانہ۔ نوآبادیاتی عہد میں زبان کو نسلی تقسیمات کے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، خصوصاً مقبوضہ اقوام کے اندر تفریق پیدا کرنے کے لیے۔ لسانی اختلافات کو نسلی بنیادوں پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، تاکہ ان اقوام کی وحدت کو کمزور کیا جا سکے۔
یہ ایک گمراہ کن مفروضہ ہے کہ زبان کسی قوم کی خالص نسلی شناخت کی علامت ہوتی ہے۔ درحقیقت، زبان نہ کوئی جامد مظہر ہے، نہ کسی یکساں یا خالص نسلی خمیر کی پیداوار۔ زبانوں کا ارتقاء کسی ساکت نسلی اکائی کا عکس نہیں بلکہ جغرافیائی میل جول، تاریخی تجربات، سیاسی اثرات اور معاشرتی تغیرات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ایک ہی قوم کے اندر متعدد زبانوں کا موجود ہونا، یا مختلف قوموں میں ایک زبان کا رائج ہونا، اس حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ زبان کبھی بھی کسی ایک "خالص نسل” کی ملکیت نہیں ہوتی۔زبانیں آزاد اور متحرک تمدنی کیمیا کا حصہ ہوتی ہیں، جو صدیوں میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، الفاظ لیتی ہیں، دیتی ہیں، اور معاشرتی ضرورت کے تحت نئی شکلیں اختیار کرتی ہیں۔لہٰذا ان بنیادوں پر قوموں کو بانٹنا، علمی، سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے ناقابلِ قبول ہے۔

اگر زبان کے ارتقائی عوامل اور مراحل کا جائزہ لیا جائے، تو واضح ہوتا ہے کہ جغرافیہ ہمیشہ زبان کی تشکیل اور ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں زبانوں میں صوتیاتی سختی پیدا ہوتی ہے، جب کہ میدانوں، تجارتی راستوں اور ساحلی پٹیوں میں زبان زیادہ اختلاطی (mixed) ہو جاتی ہے۔ بازار، قافلے، بندرگاہیں اور تجارتی مراکز زبانوں کو بدلتے اور متاثر کرتے ہیں۔تاریخ میں جب دو یا زیادہ تہذیبیں آپس میں ٹکراتی ہیں، تو ان کے درمیان صرف سیاسی یا ثقافتی اثرات ہی نہیں، بلکہ لسانی تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ زبانیں ایک دوسرے سے الفاظ، محاورے اور صرف و نحو (grammar) اخذ کرتی ہیں۔

زبان ایک زندہ مظہر ہے، جو انسانی تعامل، ماحول، تاریخ اور سیاست سے نمو پاتا ہے۔ یہ کبھی بھی "خالص نسلی شناخت” کی علامت نہیں بن سکتی۔ نہ زبان کسی خالص نسل کا حوالہ ہے، نہ ہی اس کی کوئی نسلی سرحد ہوتی ہے۔ زبان زمین سے جڑی ہوتی ہے، زمین کے باسیوں سے، ان کے روابط، تبادلات اور تاریخ سے۔لہٰذا، ہمیں سامراجی مفروضات سے نکل کر اپنی لسانی حقیقتوں کو قومی وحدت کی طاقت میں بدلنا ہوگا۔ یہ مشاہدات ثابت کرتے ہیں کہ لسانی تنوع قومی وحدت کی نفی نہیں، بلکہ اس کا اثبات ہے۔

انگریزوں کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی کا واضح ہدف بلوچ قوم کو زبان، مذہب اور طبقے کی بنیاد پر تقسیم کر کے اس کی مزاحمتی قوت کو کمزور کرنا تھا۔ "براہوئی” کو ایک علیحدہ قوم قرار دے کر اُسے "دراوڑی” نسل سے جوڑنے کی کوشش محض ایک سیاسی چال تھی، جس کا مقصد بلوچ قومی وحدت کو توڑنا تھا۔
تاہم بلوچ عوام کے اجتماعی شعور، خود فہمی اور سیاسی بصیرت نے ہمیشہ اس تقسیم کو یکسر مسترد کیا ہے۔ براہوئی زبان بلوچ قومی شناخت کے رنگا رنگ پیراہن کا حصہ ہے، نہ کہ اس کے مخالف۔ براہوئی بولنے والے بلوچ، درحقیقت بلوچ راجی جسم کی روح ہیں۔براہوئی قومیت یا علیحدہ ثقافت کا دعویٰ نہ صرف ایک تاریخی زیادتی ہے بلکہ قومی وحدت کے خلاف ایک سیاسی علمی تاریخی غداری بھی ہے۔ ہمیں اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری وحدت ہی ہماری اصل طاقت ہے۔ قبائلی، لسانی، یا جغرافیائی تفریق کے نام پر جو بیانیے ہمیں بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ سامراجی منصوبوں کا حصہ ہیں اور ان بیانیوں کو ہمیں تاریخ کے کوڑے دان میں دفن کرنا ہوگا۔
بلوچ کوئی نظری مفروضہ نہیں، نہ کوئی عارضی شناخت؛ بلوچ ایک مزاحم، باشعور، اور ناقابلِ تقسیم قوم ہے جو صدیوں سے اپنی مٹی، اپنی آزادی، اور اپنے تشخص کے لیے سینہ تان کر کھڑی ہے۔یہ وہ قوم ہے جس نے اپنی تاریخ قلم سے بھی لکھی ہے اور خون سے بھی۔

بلوچ قوم ہزاروں سالہ تہذیب و تمدن کی وارث ہے۔ اس کی تاریخ کو صدیوں پر محیط جبر، سامراجی بیانیوں اور نوآبادیاتی سازشوں کے ذریعے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن جدید تحقیق، آثارِ قدیمہ، لسانی شواہد اور قومی روایتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچ قوم اس خطے کی قدیم، مقامی اور جڑوں سے پیوستہ قوم ہے۔ بلوچ کوئی باہر سے آئی ہوئی مہاجر قوم نہیں، بلکہ ہزاروں سال سے بلوچستان کی سنگلاخ زمینوں، دریاؤں، وادیوں، پہاڑوں اور صحراؤں سے بندھی ہوئی ایک خودرو تمدنی قوم ہے بلوچستان میں دریافت ہونے والی مہرگڑھ کی تہذیب (تقریباً 11000 قبل مسیح) دنیا کی قدیم ترین زرعی تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔ مہرگڑھ کے آثار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں کے باسی زراعت، مویشی پالنے، مٹی کے برتن بنانے اور مستقل بستیوں کے قیام جیسے تمدنی عوامل سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان میں مہارت بھی رکھتے تھے۔
یہ تہذیب وادیٔ سندھ کی تہذیب سے بھی قدیم ہے، اور کئی ماہرینِ بشریات، آثارِ قدیمہ اور تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ مہرگڑھ ہی وادی سندھ کی تمدنی بنیادوں کا پہلا زینہ ہے۔ بلوچ محققین کے مطابق مہرگڑھ کی تہذیب اور موجودہ بلوچ قوم کے درمیان نسلی، جغرافیائی، ثقافتی اور لسانی تسلسل پایا جاتا ہے۔اس خطے میں مسلسل انسانی رہائش کے آثار اس بات کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ بلوچ قوم اسی زمین کی پرانی اور مقامی نسل ہے۔ مہرگڑھ کے مقام سے کھدائی کے دوران ملنے والی اشیاء، قدیم قبریں اور مٹی کے برتن اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں زندگیاں تسلسل سے پنپتی رہیں۔ ان برتنوں پر بنے نمونے آج بھی بلوچ ثقافت و آرٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں، جب کہ قدیم قبروں کا طرزِ تعمیر آج کے بلوچ رسومِ تدفین سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔

بلوچی زبان میں ایسے الفاظ، محاورے اور بول چال کے انداز موجود ہیں جو مہرگڑھ کی تہذیب سے نکلنے والے تمدنی شعور کے استعارے ہیں۔ یہ زبان محض ایک ذریعۂ ابلاغ نہیں، بلکہ تاریخ، تہذیب اور اجتماعی شعور کا آئینہ ہے۔
بلوچ قوم کی ایک نمایاں خصوصیت اس کا "اجتماعی حافظہ” ہے۔ بلوچ لوک داستانیں، رزمیہ شاعری، اساطیری کہانیاں اور روایتی علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بلوچ نہ صرف اس سرزمین کے وارث ہیں، بلکہ انہوں نے صدیوں سے اس کے ہر موڑ پر اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔
تاریخی، لسانی، تہذیبی اور عمرانیاتی (sociological) شواہد اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ بلوچ قوم اس خطے کی قدیم، جڑدار اور مقامی آبادی ہے۔ مہرگڑھ سے لے کر موجودہ بلوچستان تک ایک ایسا تہذیبی اور نسلی تسلسل دکھائی دیتا ہے جو بلوچ قوم کو نہ کوئی مہاجر ثابت کرتا ہے، نہ نووارد؛ بلکہ اسے ایک مقامی، تمدنی اور تہذیبی اکائی کے طور پر سامنے لاتا ہے۔

بلوچ تاریخ ہمیشہ فاتحین کے ہاتھوں لکھی گئی ہے، اور نوآبادیاتی بیانیے میں بلوچ قوم کو ایک مہاجر، غیر مقامی اور حالیہ آمد کی حامل قوم کے طور پر پیش کیا گیا۔ کبھی انہیں ایرانی، کبھی سامی، کبھی دراوڑی، اور کبھی عرب النسل کہا گیا۔ یہ تمام نظریے استعماری عزائم کا حصہ تھے، جن کا مقصد مقبوضہ اقوام کی وحدت کو کمزور کرنا تھا۔
براہوئی زبان کو اکثر دراوڑی کہا گیا ہے، حالانکہ درحقیقت یہ زبان بلوچستان میں ہزاروں سال سے موجود ایک غیر دراوڑی، غیر آریائی اور غیر سامی تہذیبی تسلسل کی علامت ہے۔ بلوچ قوم کی تمام زبانیںچاہے وہ بلوچی ہو یا براہوئی اسی خطے میں ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔ہنری پوٹینگر، رابرٹ سینڈیمن، آرنلڈ ٹیلر اور ڈینس برے جیسے نوآبادیاتی مورخین نے بلوچوں کو کبھی ایرانی، کبھی عرب اور کبھی دراوڑ قرار دے کر ان کی جغرافیائی وابستگی کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ اس علمی سازش کا مقصد بلوچ قوم کو اس کی قومی وحدت اور زمین پر حقِ ملکیت سے محروم کرنا تھا۔

حالیہ جینیاتی مطالعات نے یہ واضح کیا ہے کہ بلوچوں میں نہ جنوبی ایشیائی، نہ ایرانی اور نہ ہی مقامی دراوڑی عناصر غالب ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ قوم ایک مقامی، ارتقائی اور خودمختار انسانی گروہ ہے، جو ایک جداگانہ جغرافیہ، تہذیب، زبانیں اور تاریخ رکھتے ہوئے اپنے وجود میں مستقل رہی ہے۔اگر بلوچ قوم کوئی مہاجر قوم ہوتی، تو ان کی وابستگی زمین سے نہ ہوتی بلکہ کسی اجنبی "تصورِ وطن” سے جڑی ہوتی۔ مگر بلوچوں نے ہمیشہ "بلوچ وطن” کے لیے جان دی ہے، قربانیاں دی ہیں، اور مزاحمت کی ہے۔

انیسویں صدی میں برطانوی سامراج نے بلوچ سرزمین پر سیاسی، عسکری اور علمی یلغار کی۔ انہوں نے نہ صرف بلوچ خطے کو مصنوعی سرحدوں میں تقسیم کیا، بلکہ بلوچ شناخت کو بھی لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی منظم کوشش کی۔انگریز فوجی مورخین نے بلوچوں کو مختلف نسلی گروہوں میں بانٹنے کی شعوری کوشش کی مثلاً براہوئیوں کو دراوڑی قرار دینا، اور دیگر بلوچوں کو سامی، ایرانی یا ترک نسل سے جوڑنا تاکہ علمی سطح پر ہی ان کی وحدت کو منقسم کر دیا جائے۔اسلامی فتوحات کے بعد مختلف عرب مؤرخین نے بلوچوں کو "بنو امیہ کے باغی” یا "حجاج بن یوسف کے مخالفین” قرار دے کر انہیں عرب نسل سے منسوب کرنے کی کوشش کی۔ اس بیانیے کے پیچھے بھی سیاسی مفادات کارفرما تھے: بلوچوں کی مقامی خودمختاری کو عرب خلافت کے تحت دکھا کر ان کی مزاحمتی شناخت کو دبانا مقصود تھا۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو براہوئی زبان، بلوچی زبان کی مانند، ایک مکمل، ارتقائی اور خودمختار زبان ہے۔ اس کے اندر سامی یا دراوڑی عناصر کی آمیزش کا دعویٰ سراسر غیر سائنسی اور بے بنیاد ہے۔ براہوئی زبان کی گرامر، ساخت اور الفاظ کا خزانہ خود اس کی لسانی انفرادیت اور تاریخی تسلسل کی دلیل ہے۔براہوئی زبان کو بلاشبہ دنیا کی زبانوں کی فہرست میں شامل کیا جانا درست ہو سکتا ہے، لیکن اس بنیاد پر براہوئی بولنے والوں کو غیر بلوچ کہنا یا بلوچ قوم کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا سراسر سامراجی ذہنیت کی پیداوار ہے۔آج جب ہم زمینی حقائق، ڈی این اے اسٹڈیز، لسانی تحقیق اور تاریخی جغرافیہ کو سامنے رکھتے ہیں، تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بلوچ ایک مقامی قوم ہیں۔ ان کے کسی بھی خارجی یا مہاجرتی پس منظر کا کوئی سائنسی یا تاریخی ثبوت موجود نہیں۔

انگریزوں، پنجابیوں اور دیگر سابقہ حملہ آوروں نے بلوچ تاریخ کو جس انداز میں پیش کیا، وہ کوئی فطری ارتقائی یا تحقیقی عمل نہیں تھا، بلکہ طاقت، تسلط اور علمی بددیانتی پر مبنی ایک منصوبہ بند پروپیگنڈا تھا۔یہ تاریخ کی "تشکیل” نہیں بلکہ "تحلیل” تھی— ایک ایسی تحلیل جس کا مقصد بلوچوں کو ان کی زمینی، ثقافتی اور سیاسی شناخت سے کاٹ کر انہیں بے جڑ، منقسم اور بے سمت بنانا تھا۔

آج بلوچ قوم ایک تاریخی موڑ پر کھڑی ہے، جہاں شناخت، تاریخ اور زمین کے بیچ تعلق کو از سر نو دریافت کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ دریافت صرف تاریخی سچائی کی بازیافت نہیں، بلکہ سیاسی بقا، فکری استقلال اور قومی خودی کی ایک مزاحمتی جہت بھی رکھتی ہے۔ صدیوں کی جبر، قبضے، مسخ شدہ بیانیے، اور سامراجی تعبیرات کے بعد ضروری ہے کہ بلوچ اپنی تاریخ کو کسی بیرونی عینک سے نہیں بلکہ اپنی زمین، زبان، لوک شعور، اور اجتماعی حافظے سے دیکھے۔تاریخ ہمیشہ طاقتور کے ہاتھ میں ایک ہتھیار رہی ہے۔ نوآبادیاتی ریاستوں نے نہ صرف زمین پر قبضہ کیا بلکہ تاریخ، ثقافت، نسل، اور زبان پر بھی قابض ہو گئیں۔ بلوچ قوم بھی اس کالونیل جارحیت سے محفوظ نہ رہ سکی۔ انگریزوں کی فوجی و سیاسی حکمت عملیوں کے تحت بلوچ تاریخ کو یا تو عرب النسل ظاہر کیا گیا، یا ایرانی و دراوڑی نظریات میں گم کر دیا گیا۔ براہوئی کو بلوچ سے الگ کیا گیا، جبکہ لسانی تنوع کو نسلی اختلاف کی صورت میں پیش کیا گیا۔ یہ تمام بیانیے دراصل بلوچ قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کے سامراجی ہتھکنڈے تھے۔

بلوچ قوم کی تاریخ کسی خارجی، وارد شدہ نسل کی تاریخ نہیں، بلکہ سرزمینِ بلوچستان کے جینیاتی، ثقافتی اور تمدنی تسلسل کی مظہر ہے۔ بلوچی اور براہوئی زبانوں کا ارتقاء، لوک ادب، رزمیہ شاعری اور نظامِ حیات اس تہذیبی شناخت کی وہ ناقابلِ تردید شہادتیں ہیں، جنہیں نہ جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ مٹایا جا سکتا ہے۔بلوچ قوم کے اندر موجود لسانی تنوع—جس میں بلوچی، براہوئی، سرائیکی، لاسی، دہواری اور دیگر بولیاں شامل ہیں—درحقیقت ایک لسانی ثروت (linguistic richness) ہے، نہ کہ تقسیم کی بنیاد۔ دنیا کی ہر زندہ قوم میں علاقائی بولیوں، لہجوں اور زبانوں کی موجودگی فطری امر ہے۔ بلوچ شناخت کی بنیاد کسی ایک زبان پر نہیں، بلکہ تاریخی سرزمین، مزاحمت، شعور اور مشترکہ تہذیبی ورثے پر استوار ہے۔لہٰذا وہ تمام دعوے جو براہوئی کو غیر بلوچ، یا بلوچ کو سامی یا دراوڑی کہہ کر ایک الگ نسلی شناخت میں بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں، درحقیقت غیر سائنسی، بدنیت اور نوآبادیاتی بیانیوں کا تسلسل ہیں۔

آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ بلوچ نوجوان، دانشور، شاعر، فنکار اور سیاسی کارکن ہر وہ مغالطہ، ہر وہ مسخ شدہ بیانیہ، اور ہر وہ مفروضہ کو رد کرےجو بلوچ قوم کو کسی باہر سے آنے والی نسل، کسی سامی یا دراوڑی شجرے، یا کسی لسانی بنیاد پر الگ شناخت میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے ایسے تمام مفروضات کا سائنسی، زمینی اور سیاسی بنیادوں پر رد کیا جانا نہ صرف ممکن بلکہ لازم ہے۔ کیوں کہ یہ صرف علمی یا تاریخی غلطیاں نہیں بلکہ وہ نوآبادیاتی سیاسی ہتھکنڈے ہیں جو کسی قوم کی وحدت کو توڑنے کے لیے بنائے گئے۔ بلوچ قوم کی بقا کا راز اپنی تاریخ آزادی کی بازیافت، اور اپنی ماتے وطن سے گہرا رشتہ استوار کرنے، اپنی زبانوں کو اہمیت دینے ، اور سامراجی مغالطوں کو مسترد کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جب ایک قوم اپنی تاریخ کو سامراجی بیانیے سے چھین کر خود لکھتی ہے، اور اپنی زبانوں کو نہ صرف بولتی ہے بلکہ انہیں شعوری طور پر تحفظ دیتی ہے، تو وہ قوم مقبوضہ نہیں رہتی۔
سامراجی مغالطوں، نسلی تفریق، اور لسانی تقسیم پر مبنی مفروضات کو مسترد کرنا علمی و سیاسی آزادی کی بنیاد ہے۔ بلوچ قوم جب تک اپنی شناخت پر فخر کرتی رہے گی اور اپنی لوک دانش کو مرکزِ شعور بنائے گی، اس کی بقا نہ صرف ممکن بلکہ تابندہ ہے۔
بلوچ ہونا کوئی نسبتی یا اتفاقی حالت نہیں، بلکہ یہ ایک فکری، تاریخی، اور تہذیبی شعور کا نام ہے۔یہ شعور مٹی سے جُڑا ہے، یادداشت سے جنما ہے، اور مزاحمت کی مسلسل روایت سے جڑا ہوا ہے۔ بلوچ ہونے کا مطلب ہے ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونا، اپنی سرزمین، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنی آزادی سے غیر مشروط وابستگی۔یہ وہ شناخت ہے جو نہ جھکی ہے، نہ بکی ہے، اور نہ مٹائی جا سکتی ہے۔ کیونکہ یہ شناخت وقت کے ساتھ سفر کرتی ہوئی ایک زندہ تاریخ ہے، جو آج بھی ہر اس فرد میں زندہ ہے جو بلوچ ہونے کا مطلب جانتا ہے اور اپنی تاریخ پر فخر کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

گوران میں قابض پاکستانی فوج کے کیمپ پر کنٹرول، 22 اہلکار ہلاک، اسلحہ ضبط، ایک سرمچار شہید – براس

اتوار اگست 3 , 2025
بلوچ راجی آجوئی سنگر براس کے کے ترجمان بلوچ خان نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ براس کے سرمچاروں نے پنجگور کے علاقے ماتین گوران میں قابض پاکستانی فوج کے مرکزی کیمپ پر ایک منظم اور ہمہ جہت حملہ کرتے ہوئے کیمپ کے ایک اہم حصے پر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ