
تحریر: زاویان بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچستان کی سرزمین اپنی ثقافتی، ادبی اور تاریخی اہمیت کے لیے معروف ہے۔ اس دھرتی نے ہمیشہ ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جو اپنی قوم کے لیے مشعلِ راہ بنی ہیں۔ انہی درخشاں ناموں میں ایک نام غنی بلوچ کا بھی ہے، جو ایک اسکالر، ادیب، ناشر اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے بلوچ سماج میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔غنی بلوچ نہ صرف براہوئی زبان کے ماہر اور ایم فل کے طالب علم ہیں، بلکہ وہ ایک متحرک آواز بھی ہیں، جو بلوچ قوم کے حقوق، شناخت، اور مسائل کو اجاگر کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
غنی بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ہے، جہاں وہ اپنی علمی، ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کے باعث جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی علم و ادب کے فروغ اور فکری ترقی کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ وہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن ہیں، جو بلوچستان کی سیاسی جدوجہد میں ایک فعال قوت سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شخصیت علم، ادب اور سیاسی شعور کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔
غنی بلوچ کی نمایاں خصوصیات میں کتابوں سے ان کی محبت اور مطالعے کا شوق سرفہرست ہے۔ وہ نہ صرف خود علم حاصل کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی پڑھنے، سوچنے اور سوال اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کی پبلیکیشنز نے بلوچستان کے ادبی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے اور عام فہم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ان کی تحریریں بلوچ قوم کی شناخت، تاریخ، اور معاصر مسائل کو ایک فکری جہت میں بیان کرتی ہیں، جو نوجوان نسل کو اپنی جڑوں سے جوڑتی ہیں۔
غنی بلوچ کی ادبی خدمات بلوچستان کے علمی حلقوں میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے براہوئی ادب کو صرف تحریری شکل نہیں دی بلکہ اسے نئی نسل تک منتقل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ان کی تحریروں میں بلوچستان کی ثقافت، روایات اور سماجی سوالات کی گہری عکاسی موجود ہے۔ ان کی پبلیکیشنز نے نہ صرف مقامی ادیبوں اور شاعروں کو ایک پلیٹ فارم دیا بلکہ انہیں قومی اور عالمی سطح پر متعارف بھی کرایا۔وہ ایک ایسا فکری پل ہیں، جو بلوچستان کے علمی ورثے کو جدید دنیا سے جوڑتے ہیں۔
بطور سیاسی کارکن، غنی بلوچ نے بلوچ قوم کے حقوق کی خاطر سرگرم جدوجہد کی۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بلوچ قومی شناخت کے تحفظ، وسائل پر اختیار، اور خودمختاری کے لیے آواز بلند کی۔
وہ طلبہ سیاست سے لے کر عوامی سطح تک نوجوانوں کو سیاسی شعور دینے، حق کے لیے آواز اٹھانے، اور ظلم کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کرتے رہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بلوچ قوم کی بقا اُس کی آزادی اور شناخت کے تحفظ میں مضمر ہے، اور اسی نظریے کی پاداش میں وہ کئی بار ریاستی اداروں کے نشانے پر بھی آئے۔
غنی بلوچ کی زندگی کا ایک دردناک باب ان کی جبری گمشدگی ہے، جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی عکاس ہے۔25 مئی 2025 کو خضدار سے پاکستانی فورسز نے انہیں مبینہ طور پر حراست میں لیا، جس کے بعد وہ لاپتا ہیں۔ ان کی گمشدگی نے ان کے اہلِ خانہ، دوستوں اور بلوچ عوام کو شدید صدمے سے دوچار کیا۔دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کی بازیابی کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں، جو ریاستی جبر کی ایک سنگین علامت ہے۔
ان کی جبری گمشدگی کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ نوشکی میں احتجاجی ریلی، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دھرنے اور پریس کانفرنسز کے ذریعے ان کے اہلِ خانہ نے غنی بلوچ سمیت تمام لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ان مظاہروں میں مختلف مکتبۂ فکر کے لوگوں کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ غنی بلوچ کی جدوجہد بلوچ معاشرے میں کتنی گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کے اہلِ خانہ نے واضح کیا کہ وہ تمام آئینی اور قانونی راستے اختیار کر چکے ہیں، مگر انصاف اب تک ناپید ہے۔
غنی بلوچ صرف ایک فرد نہیں، بلکہ فکر، شعور اور مکالمے کا استعارہ ہیں۔ اس استعارے کو غائب تو کیا جا سکتا ہے، مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔ہمیں بولنا ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، اور سب سے بڑھ کر، ہمیں یاد رکھنا ہے کیونکہ خاموشی صرف قبرستانوں کو زیب دیتی ہے، زندہ قومیں خاموش نہیں رہتیں۔اگر علم، آگہی اور شعور جرم ہیں، تو ہم یہ جرم قبول کرتے ہیں۔ اگر کتاب سے عشق گناہ ہے، تو ہم اس گناہ کو سرِ عام جاری رکھیں گے۔
بلوچستان کے مسائل—جن میں جبری گمشدگیاں، انسانی حقوق کی پامالی اور وسائل کی لوٹ مار شامل ہیں—کو غنی بلوچ نے اپنی تحریروں، تقریروں اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے مسلسل اجاگر کیا۔ ان کی جدوجہد بلوچستان کی اُس وسیع تر تحریک کا حصہ ہے، جہاں بلوچ قوم اپنی شناخت، زمین، اور مستقبل پر اختیار کے لیے دہائیوں سے لڑ رہی ہے۔
غنی بلوچ جیسے افراد اس تحریک کے علمبردار ہیں، جن کی فکر ایک روشن صبح کی نوید ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ غنی بلوچ شاعر "غنی پہوال” نہیں ہیں۔ اگرچہ دونوں شخصیات کے نام اور ادبی پس منظر کے باعث الجھن پیدا ہو سکتی ہے، تاہم فی الحال ان دونوں کو الگ شناختوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ حقائق واضح ہو سکیں۔
غنی بلوچ کی زندگی اور جدوجہد ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ علم، ادب اور سیاسی شعور کے ذریعے ایک قوم اپنی آزادی اور شناخت کی لڑائی لڑ سکتی ہے۔انہوں نے اپنی زندگی کو بلوچ قوم کی فلاح اور حقوق کی بازیابی کے لیے وقف کیا، اور ان کی جبری گمشدگی نے ایک بار پھر بلوچستان کے انسانی حقوق کے بحران کو عالمی سطح پر نمایاں کر دیا ہے۔
وہ ایک ایسا نوجوان تھا جس کا عشق کتاب تھی، اور رشتہ شعور سے تھا۔ ہم نے اسے اکثر شال کی گلیوں میں، کسی چائے خانے کے گوشے میں، ہاتھ میں کتاب لیے، تاریخ، سیاست اور نظریات پر غور و فکر کرتے ہوئے پایا۔
وہ محض ایک دکاندار نہیں، بلکہ "زوار کتابجاء” جیسے علمی مرکز میں بیٹھا ایک شعور بانٹنے والا انسان تھا۔
ہاں، وہ ایک "علمی مجرم” تھا—اور شاید یہی اُس کا اصل جرم تھا۔
غنی بلوچ ایک ایسی شخصیت ہیں جو بلوچ قوم کے لیے امید کی کرن کی مانند ہیں۔ ان کی ادبی، علمی اور سیاسی خدمات نے بلوچستان کے عوام کے دلوں میں ایک منفرد مقام پیدا کیا ہے۔ ان کی جبری گمشدگی نہ صرف ایک ذاتی المیہ ہے بلکہ بلوچستان میں جاری ظلم و جبر کی نمائندہ تصویر بھی ہے۔ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں، اور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔ غنی بلوچ جیسے افراد ہمارے قومی شعور کا سرمایہ ہیں، اور ان کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہم سب کا فرض ہے۔