
تحریر:عزیز سنگھور
زرمبش مضمون
اسلام آباد کی تپتی سڑک پر ایک کمسن بچی ہاتھوں میں اپنے ماموں شبیر بلوچ کی تصویر اٹھائے خاموش کھڑی ہے۔ اس بچی کا نام شاری بلوچ ہے، اور وہ اپنے لاپتہ ماموں کی بازیابی کے لیے پاکستان کے دارالحکومت میں احتجاج کر رہی ہے۔ شاری کی آنکھوں میں سوال ہیں، مگر انہیں سننے والا کوئی نہیں۔
شاری کے ماموں شبیر بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی رہنما اور انفارمیشن سیکریٹری تھے۔ ان کی جبری گمشدگی کو اب آٹھ برس بیت چکے ہیں۔ وہ 4 اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے گورکوپ سے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ کیے گئے۔ اس کے بعد آج تک شبیر بلوچ کا کوئی پتہ نہیں۔
شبیر بلوچ کی گمشدگی صرف ایک فرد کی گمشدگی نہیں، بلکہ ایک خاندان کی اجتماعی اذیت کی کہانی ہے۔ اس کی بہن سیما بلوچ نے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں کئی برسوں تک احتجاج کیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جیسے اداروں نے شبیر بلوچ کی گمشدگی پر بارہا تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 2016 میں ایمنسٹی نے شبیر کی بازیابی کے لیے عالمی سطح پر مہم چلائی، جس میں کہا گیا کہ شبیر بلوچ کو غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے، اور یہ ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
آٹھ سال بعد بھی شبیر بلوچ کی والدہ کو ہر آہٹ پر امید ہوتی ہے کہ شاید دروازہ کھلے اور ان کا بیٹا لوٹ آئے۔ وہ ماں، وہ بہن، وہ بیوی، وہ بچے ہر دن، ہر لمحہ شبیر کا انتظار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں جبری گمشدگیاں ایک ادارہ جاتی ظلم کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے انتظار میں نفسیاتی، سماجی اور معاشی اذیت کے جہنم میں جھلس رہے ہیں۔ لیکن شاری بلوچ جیسے بچے اس جہنم کا سب سے ننگا چہرہ ہیں۔ شاری نہ صرف اپنے ماموں کی عدم موجودگی کو روز جھیلتی ہے بلکہ وہ اپنی عمر سے بڑی باتیں سیکھ گئی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ ریاست اگر ناراض ہو جائے تو مائیں بیوہ ہو جاتی ہیں، بہنیں سڑکوں پر آتی ہیں، اور بچے اسکول کے بجائے دھرنوں میں بیٹھتے ہیں۔
اسلام آباد میں بیٹھے حکمران شاید شاری کی آنکھوں سے نظر چرا سکتے ہیں، مگر تاریخ نہیں چرائے گی۔
آج آٹھ سال بیت چکے ہیں، لیکن شبیر کا نام بلوچ تحریک میں ایک نشانِ مزاحمت کے طور پر زندہ ہے۔ اس کا جرم فقط یہ تھا کہ وہ سوال کرتا تھا۔ اس کا ہتھیار فقط قلم تھا۔ اور اس کا خواب فقط یہ تھا کہ بلوچ اپنی دھرتی پر باعزت زندگی گزاریں۔
ریاست شبیر بلوچ کو لاپتہ کر کے اس کی شناخت مٹا نہ سکی، بلکہ ایک ایسی پہچان دے گئی جو بلوچ سماج کے ہر درد میں، ہر جدوجہد میں، اور ہر نعروں میں گونجتی ہے۔