
بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے اپنے میڈیا سیل "آشوب” کے ذریعے "آپریشن بام” کے تحت کی گئی مختلف مزاحمتی کارروائیوں کی ویڈیو فوٹیجز جاری کی ہیں۔ ان ویڈیوز میں بی ایل ایف کے مزاحمت کاروں کو بلوچستان کے دشوار گزار اور پہاڑی علاقوں میں جدید اور بھاری ہتھیاروں سے لیس، عسکری تربیت حاصل کرتے، حکمتِ عملی وضع کرتے، اور عملی کارروائیاں انجام دیتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ فوٹیجز نہ صرف تنظیم کی عسکری صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ بلوچستان میں جاری مسلح مزاحمتی تحریک کے منظم، مربوط اور نظریاتی پہلو کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ ویڈیوز میں جنگجوؤں کی باقاعدہ تربیت، جدید جنگی تکنیکوں سے واقفیت، اور مخصوص اہداف کے حصول کے لیے کی جانے والی منظم منصوبہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ بی ایل ایف ایک مربوط عسکری مزاحمت کی نمائندگی کرتی ہے۔
ویڈیو فوٹیجز میں بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سرمچاروں کو بلوچستان کے مختلف اہم اور اسٹریٹیجک علاقوں میں بیک وقت ناکہ بندی، اسنیپ چیکنگ، اور پاکستانی فورسز کی چوکیوں، کیمپوں اور فوجی قافلوں پر حملے کرتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان مناظر میں سرمچاروں کی پیشہ ورانہ عسکری مہارت، منظم حکمتِ عملی، اور زمینی برتری نمایاں طور پر جھلکتی ہے۔
تنظیم کے مطابق، ان مزاحمتی کارروائیوں کے دوران لیویز اور پولیس کی متعدد چوکیوں پر مکمل قبضہ کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں سرکاری ہتھیار، گولہ بارود، اور سیکیورٹی فورسز کی گاڑیاں بھی ضبط کی گئیں، جبکہ کئی اہم فوجی اور مواصلاتی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ یہ کارروائیاں ایک مربوط مزاحمتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جو بلوچ قومی مزاحمت کو ایک منظم جنگی صف میں تبدیل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
بی ایل ایف کے ترجمان، میجر گہرام بلوچ کے مطابق، "آپریشن بام” کے تحت بلوچستان کے 25 مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 84 منظم حملے کیے گئے، جن کا ہدف پاکستانی فورسز، انٹیلیجنس ادارے، اور ریاستی انفراسٹرکچر تھا۔ ان حملوں کے نتیجے میں ترجمان کے دعوے کے مطابق 59 اہلکار ہلاک اور 51 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ کارروائیاں بی ایل ایف کے طویل المدت مزاحمتی منصوبے کا حصہ ہیں، جن کا مقصد نہ صرف قابض ریاستی اداروں کو نقصان پہنچانا ہے بلکہ بلوچ سرزمین پر اُن کی گرفت کو کمزور کرنا اور عوام میں مزاحمت کی امید و شعور کو تقویت دینا ہے۔
ترجمان کے مطابق، "آپریشن بام”، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کی ایک منظم اور مربوط عسکری حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد مبینہ ریاستی قبضے، فوجی موجودگی اور قدرتی وسائل کے استحصال کو چیلنج کرنا ہے۔ یہ کارروائیاں مکران، رخشان، کولواہ، سراوان، جھالاوان، کوہِ سلیمان، بیلہ اور کچھی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں انجام دی گئیں۔
جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ آپریشن نہ صرف بی ایل ایف کی جنگی حکمتِ عملی میں تبدیلی اور عسکری صلاحیتوں میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ یہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی سے تنظیم کی گہری نظریاتی وابستگی اور پختہ عزم کا مظہر بھی ہے۔
بلوچ قوم پرست حلقوں کی جانب سے "آپریشن بام” کو ایک مربوط، منظم اور تدبر پر مبنی مزاحمتی پیش رفت کے طور پر سراہا گیا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق، یہ کارروائیاں محض روایتی گوریلا حملے نہیں بلکہ ایک ہم آہنگ اور متحرک جنگی حکمتِ عملی کی نمائندگی کرتی ہیں، جو بلوچ مزاحمت کو ایک نئی جہت اور نظریاتی وضاحت فراہم کرتی ہیں۔
یہ آپریشن اس امر کی علامت بنتا جا رہا ہے کہ بلوچ مسلح جدوجہد اب صرف بقا کی جنگ نہیں رہی، بلکہ یہ سیاسی و عسکری حکمتِ عملی کے تحت باقاعدہ منصوبہ بندی سے چلنے والی تحریک بن چکی ہے۔ مقامی حمایت، تکنیکی وسائل، اور بین الاقوامی توجہ جیسے عوامل اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ اب محض ایک داخلی معاملہ نہیں رہا۔
خطے میں چین کے معاشی مفادات، خصوصاً چائنا-پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک)، اور مغربی طاقتوں کی بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے تناظر میں، "آپریشن بام” کو عالمی سطح پر محض ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک بڑی سفارتی چال اور اسٹریٹیجک پیغام کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ بلوچ مزاحمتی تحریک نہ صرف عسکری میدان میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہی ہے، بلکہ نظریاتی پختگی، منظم حکمتِ عملی، اور میڈیا پر اپنے مؤثر اثرات کے ذریعے ایک ہمہ جہت بیانیہ بھی تخلیق کر رہی ہے۔ اس مزاحمت کو صرف طاقت کے ذریعے دبانے کی کوئی بھی کوشش ریاست کو وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے، مگر دیرپا امن اور استحکام کے لیے ایک بامعنی سیاسی مکالمہ اور قومی مسئلے کا سیاسی حل ناگزیر ہے۔