
تحریر: رامین بلوچ (آخری حصہ)
زرمبش مضمون
تاریخ ہمیں سکھاتاہے کہ بعض اوقات خالی ہاتھ،لیکن سچائی سے لبریز عوامی وجودٹینکوں اور تربیت یافتہ فوجی مشینوں سے بھی زیادہ طاقتور ثابت ہو سکتا ہے۔یہ محض کوئی رومانوی تصور نہیں،بلکہ قومی مزاحمت کی وہ حقیقت ہے جس کی مثالیں ہمیں دنیا کی کئی آزادی کی تحریکوں میں فیصلہ کن انداز میں نظر آتی ہیں۔”راجی مچی“ بلوچ قومی شعور کا وہ سنگِ میل بن چکا ہے جہاں سیاسی بصیرت، تاریخی یادداشت، اور اجتماعی مزاحمتایک نکتہئ وحدت پر آ کر جُڑ گئی ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں بلوچ قوم نے اپنے اندر چھپے خوف کو شکست دی،اور اپنی زبان، تاریخ، شناخت، اور زمین کے لیے کھڑے ہونے کا اجتماعی حوصلہ حاصل کیا۔اس پورے عمل کی قیادت جس بصیرت، دانش، اور بہادری سے
ڈاکٹر ماہ رنگ اور ان کے انقلابی رفقاء نے کی،وہ ایک ایسے باوقار مستقبل کی نوید ہے جو صرف قومی طاقت اور یکجہتی سے جنم لیتا ہے۔یہ قیادت آج نوآبادیاتی ریاست کی فائلوں اور عدالتوں میں "ملزم” اور "ملزمہ” کے طور پر دیکھی جاتی ہے،لیکن بلوچ قوم کی تاریخ میں وہ "پیش رو” ہے،رہبر ہے، راہشون ہیں۔ایسی قیادت کو نہ خاردار تاریں چھو سکتی ہیں،نہ جیلیں اور زنجیریں انہیں خاموش کر سکتی ہے۔ان کی پیش قدمی کو سنگینیں نہیں روک سکتیں،کیونکہ یہ قافلے اقتداری روٹ سے نہیں، عوامی دلوں سے گزرتے ہیں۔ان کا اسلحہ عوام کا اعتماد ہے،اور ان کی ڈھال اُن ماؤں کی دعائیں ہیں جو اپنے بیٹوں کی تصویریں سینے سے لگا کر ان کی بازیابی کے جدوجہد میں ہم گام ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُن کی ہمراہیوں نے یہ حقیقت ناقابلِ تردید بنا دی کہ جب قومیں جاگتی ہیں،تو نہ ریاستی ایجنسیاں اُن کا راستہ روک سکتی ہیں،نہ بلیک آؤٹس اُن کی آواز دبا سکتے ہیں۔ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ عوام صرف زندہ رہنے کے لیے نہیں،
بلکہ ایک آزاد، باوقار، خودمختار، اور بامعنی زندگی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی رفقاء نے وہ کردار ادا کیاجو تاریخ میں صرف اُن تحریکوں کے مرکزی انقلابی ادا کرتے ہیں جنہوں نے قوموں کی تقدیر بدلی۔ایسا کردار جو صرف نعروں میں نہیں،بلکہ قافلے بناتا ہے،راستے تراشتا ہے،اور منزل کو ممکن کرتا ہے۔ایسی انقلابی قیادت کے آدرش، عزم، اور حوصلے کونہ خاردار تاریں چھو سکتی ہیں،نہ جبر کے شکنجے توڑ سکتے ہیں۔وہ آئے،لہو لہو راستوں سے گزر کر، ”راجی مچی“ ایک تاریخی مزاحمتی مقام بنا دیا۔انہوں نے ثابت کیا کہ
کہ ایک غیر مسلح، غیر ریاستی،لیکن عوامی طاقت رکھنے والی تحریک ایک تربیت یافتہ ریاستی مشینری کو ہرا سکتی ہے اگر اس کے پاس سچائی، عوام کی حمایت، اور قربانی کا جذبہ ہو۔جہاں قابض ریاست نے فزیکل اسپیس پر قبضہ جما رکھا ہو،جہاں بولنا جرم ہو، لکھنا بغاوت، اور مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہو؛جہاں سیاسی کارکنوں اور قومی جہدِ کاروں کو برسوں جبری گمشدگی کی اذیت سے گزارا جائے؛انہیں ذہنی و جسمانی تشدد، تفتیش کے اذلی کرب اور اجتماعی قبروں میں لاوارث دفن کر دیا جائے جہاں اُن کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جائیں،اور اُن کی شناخت چھپانے کے لیے چہروں پر تیزاب ڈال دیا جائے؛جہاں عوامی اجتماعات پر فردِ جرم عائد ہو،ایسے حالات میں ”راجی مچی“ کا انعقاد، پلِ صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔
”راجی مچی“ فقط ایک تقریب یا جلسہ نہیں،بلکہ فسطائیت کے سینے پر ایک کاری تیرِ کمان تھا۔یہ بلوچ قومی شعور کی حرارت کا مظہر ہے،یہ اُن زخموں کا گواہ ہے جو پہاڑوں، ریت اور سمندر پر نقش ہو چکے ہیں،یہ اُن سسکیوں کا سیاسی اظہار ہے جو برسوں سے گھروں، جیلوں، اور قبرستانوں میں دبائی گئی تھیں۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ریاستی جبر کی انتہا ہی مزاحمت کی معراج کو جنم دیتی ہے۔ یہ اجتماع اسی مزاحمتی معراج کا سفر ہے،ایک ایسا سفر جس کی ہر قدم پر خون ہے، درد ہے،لیکن ساتھ ہی وہ حرارت بھی ہے جو قوموں کو آزادی کے الاؤ تک لے جاتی ہے۔
تاریخ میں ایسے لمحے کم آتے ہیں جب ایک مقبوضہ قوم، نوآبادیاتی نظام کے تمام تر جبر کے باوجوداپنا اجتماعی وجود شدت سے منوا لیتی ہے۔
جہاں شہداء کے جنازے ماتم نہیں،بلکہ عزم کی مشعلیں بن جاتے ہیں۔اگر راجی مُچی کے اس تاریخی لمحے کو عالمی تناظر میں دیکھا جائے،تو یہ اجتماع وسطی ایشیاء کے سنگم میں نوآبادیاتی طاقت کے خلاف عوامی شعور اور جدید آزادی کی تحریکوں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔یہ اجتماع ویتنام کے ہو چی منہ،جنوبی افریقہ کی اینٹی اپارتھائیڈ تحریک،اور لاطینی امریکہ کے زاپاتستا مزاحمت کی ہم پلہ علامت بن چکا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ آج بلوچ مزاحمت کی ایک زندہ علامت ہیں۔ان کی قیادت، جبر کے مقابلے میں استقامت،اور تنظیمی دانشمندی نے راجی مُچی کو ایک تاریخی موڑ میں تبدیل کر دیا۔انہوں نے نہ صرف رکاوٹوں کو چیر کر اجتماع مکمل کرایا،بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ بلوچ عورت صرف احتجاج کی صف میں نہیں، قیادت کے مقام پر بھی موجود ہے۔”راجی مچی“ کوئی ایک دن نہیں،بلکہ یہ ایک مسلسل سفر کی علامت ہے شعور سے عمل، اور قربانی سے آزادی کی طرف۔یہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ حقیقی طاقت ریاست کے ہتھیاروں میں نہیں، عوام کے ارادوں میں ہیں ۔یہ محض ایک اجتماع نہیں،بلکہ بلوچ قوم کی فتح، امید، روشنی اور دلیل ہے کہ آزادی ممکن ہے۔اگر ارادہ ہو، قیادت ہو، اور تنظیم ہو۔
آج جب ”راجی مچی“کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے، سوال یہ نہیں کہ ہم نے کیا کیا، بلکہ یہ ہے کہ ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم اس بیداری کو محض جذباتی یادگار بنا کر چھوڑ دیں گے؟ یا ہم اس لمحے کو ایک فکری اور سیاسی تحریک میں بدلیں گے؟ مزاحمت کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ قومیں جنہوں نے اپنے المیوں کو بیانیے میں ڈھالا، وہی اپنے آزادی کی طرف کامیاب پیش قدمی کر سکیں۔ ”راجی مچی“ کو ایک بیانیہ بنانا ہوگا۔ ایسا بیانیہ جو عالمی فورمز پر سنا جائے، جو سامراجی اور نوآبادیاتی ذہنیت کو چیلنج کرے، جو مظلوموں کی زبان ہو اور قابضین کے ضمیر پر بوجھ۔ ہمیں بلوچستان کے ہر کونے میں ”راجی مچی“ کا فکری تسلسل پیدا کرنا ہوگا: سرکلوں میں، سیاسی علمی اکیڈمک حلقوں میں، سوشل میڈیا پر، عالمی سفارتی محاذوں پر، بزرگوں کے محفلوں میں ، خواتین کی دیوانوں میں اور نسل نو کے اذہان میں ۔ سوشل میڈیا کو مزاحمتی ہتھیار بنائیں، فلم، شاعری، نثر، تھیٹر اور موسیقی کو اظہار کا ذریعہ بنائیں۔ عالمی ضمیر تک رسائی، میڈیا نیٹ ورکس، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور آزادی پسند اقوام کے ساتھ اتحاد مزاحمت کو نئی جہت دے سکتا ہے
تاریخ میں مزاحمت کبھی بھی فقط ایک فوری ردعمل نہیں رہی، بلکہ یہ ایک مسلسل شعوری عمل ہے، جو وقت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور نسلوں تک رسوخ پاتا ہے۔ وہ قومیں جو اپنے بیانیے کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ رکھتی ہیں، اور اس میں شدت، وحدت اور تسلسل برقرار رکھتی ہیں، وہی قومیں تاریخ میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔ بلوچ مزاحمت بھی ایک فکری، تہذیبی، اور وجودی جنگ ہے، جس کی ہر لہر نئی قربانیوں اور نئے سوالات کے ساتھ اٹھتی ہے۔جب ہم پوچھتے ہیں کہ "کیا ہم اپنے بیانیے میں وہی شدت، وحدت اور تسلسل برقرار رکھیں گے؟” تو یہ فقط ایک جذباتی سوال نہیں بلکہ ایک فکری چیلنج ہے۔ کیا ہمارا بیانیہ روزمرہ کی خبروں کے گرد گھومتا ہے یا ہم نے اسے ایک نظریاتی ڈھانچے میں ڈھالا ہے؟ کیا ہماری مزاحمت محض ایک ردعمل ہے یا ہم اسے بطور تحریکِ آزادی ایک واضح نصب العین کے ساتھ لے کر چل رہے ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن سے گریز ہمارے بیانیے کو کمزور کر دیتا ہے، اور ہماری تاریخ کو منتشر صفحات میں بانٹ دیتا ہے۔تحریکِ آزادی کا مفہوم محض ریاستی جبر کے خلاف نعرے نہیں، بلکہ اس کی جڑیں اُس فکری مزاحمت میں پیوست ہوتی ہیں جو نسلوں کو ایک مشترکہ مقصد، ایک واضح سمت، اور ایک متحد لائحہ عمل فراہم کرتی ہے۔ بلوچ تحریک میں خواتین کی شرکت علامتی نہیں، بلکہ فکری اور عملی قیادت کا درجہ رکھتی ہے۔ چاہے وہ شہید کریمہ بلوچ ہوں، یا ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی قطار جو جیلوں میں اپنی زندگی گزار رہی ہیں ان سب کی قربانیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہم ان کی جدوجہد کو محض جذباتی نعروں میں دفن نہ کریں، بلکہ اسے اپنے بیانیے کا مرکزی ستون بنائیں۔
کیا ہم اپنی بہنوں کی جدوجہد کو تسلسل دیں گے؟ یہ ایک فکری ذمہ داری ہے، جو ہم پر بطور قوم عائد ہوتی ہے۔آج جب بلوچ خواتین جیلوں میں قید ہیں، اُن کے نظریات، اُن کی تحریریں، اُن کی قربانیاں، اُن کا عزم سب ہمارے قومی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ اگر ہم واقعی انہیں "قومی ورثہ” سمجھتے ہیں، تو ہمیں اُن کے افکار کو تحریک کے اساسی بیانیے میں شامل کرنا ہوگا۔کیا ہم اُن کی فکر، اُن کے نظریات اور میراث کو وسعت دیں گے؟یہ سوال اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک ہم اُن کے نظریات کو تعبیر نہ دیں، جو اُنہوں نے اپنی آنکھوں میں سجائے، اور اپنی زندگی سے ادا کیے۔ہمارے سامنے انتخاب واضح ہے کہ ہم ”راجی مچی“ کے یادگار تصویروں کو سوشل میڈیا کی وال تک محدود ر نہ کھیں، اس بیانیے کو فکری بلوغت، نظریاتی وسعت، اور تنظیمی تسلسل کے ساتھ ایک ایسی تحریک میں بدلیں، جو آنے والی نسلوں کو ایک واضح سمت دے۔
تارریخ محض گزری ہوئی ساعتوں کی ترتیب نہیں، یہ ان قوموں کا آئینہ ہے جو یا تو سر بلند ہوئیں یا گردابِ غلامی میں ڈوب گئیں۔ ہر قوم کی تاریخ میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب اسے طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ جبر کی زنجیروں کو پہنے گی یا مزاحمت کے علم کو تھامے گی۔ آج بلوچ قوم ایسے ہی ایک تاریخی موڑ پر کھڑی ہے۔تاریخ کسی پر رحم نہیں کرتی، نہ وہ مظلوم کو سنبھالتی ہے، نہ مردہ قوموں کو اٹھاتی ہے۔ وہ صرف ان قوموں کو
یاد رکھتی ہے جو اپنے مقدر کو خود لکھنے نکلیں — خواہ قلم سے، یا بندوق سے۔ تاریخ کا کتبہ خود نہیں لکھا جاتا، وہ خون، قربانی اور شعور سے کندہ کیا جاتا ہے۔آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے:کیا ہم وہ قوم بننا چاہتے ہیں جو ہر عشرے کے بعد کسی "یادگاری دن” پر صرف مرثیہ پڑھے؟یا وہ قوم جو اپنی تاریخ، زبان، شہداء، دانشوروں، اور سپاہیوں کو ایک تسلسل میں جوڑ کر مزاحمتی قوم میں ڈھل جائے؟
یاد رکھیے، آزادی شعور، عمل اور قربانی کی متوازی جدوجہد کا حاصل ہے۔ یہ دشمن کے خلاف صرف جنگ نہیں، بلکہ اپنے اندر کی بے حسی، نسیان اور مفاہمت کے خلاف بغاوت ہے۔اور جب ہم یہ سب کر چکیں گے جب ہم اپنی شناخت، اپنی ثقافت، اپنی قربانی اور اپنی تحریک کوسیاسی ،مسلح اورشعوری بنیاد پر دنیا کے سامنے رکھ سکیں گے تب ہی ہم ” تاریخ کے کتبہ پر ہم ”آزاد راج“ کی حیثیت سے ابھر سکیں گے۔