
تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون
اسلام آباد کے گرم موسم میں وہ دو نحیف مگر پُرعزم چہرے بار بار نظروں کے سامنے آتے ہیں۔ وہ خاموش نہیں، فریاد بھی نہیں، بلکہ سوال بن کر حکومت کے ماتھے پر کھڑے ہیں۔ وہ سعدیہ بلوچ اور سائرہ بلوچ ہیں۔ دونوں آپس میں کزن ہیں۔
یہ دونوں آج کل اسلام آباد میں جاری لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کا حصہ ہیں، لیکن ان کی کہانی کئی سالوں، کئی شہروں اور کئی زخموں پر محیط ہے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے شورش زدہ ضلع خضدار سے ہے، مگر ان کے زخم پورے بلوچستان کے اجتماعی دکھ کا عکس ہیں۔
سعدیہ بلوچ کے بھائی سلمان بلوچ کو 13 نومبر 2022 کو کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ اس دن سے سعدیہ کے لیے ہر دن، ہر لمحہ ایک سوال بن گیا: "سلمان کہاں ہے؟”
سائرہ بلوچ کا دکھ اس سے کہیں پرانا ہے۔ 31 ستمبر 2018 کو اس کے بھائی آصف بلوچ اور کزن رشید بلوچ کو بلوچستان کے ضلع نوشکی کے علاقے "زنگی ناوڑ” سے گرفتار کیا گیا۔ اس کارروائی میں گیارہ افراد لاپتہ ہوئے، جن میں سے اکثر واپس آئے مگر آصف اور رشید آج بھی گم ہیں۔
ان دونوں لڑکیوں نے صرف احتجاج نہیں کیا، بلکہ وہ اس جدوجہد کی متحرک علامت بن گئیں۔ کوئٹہ، کراچی، اسلام آباد کے پریس کلب ہوں یا بلوچستان کی ویران سڑکیں، ان کی آواز ہمیشہ بلند رہی۔ وہ بھوک ہڑتالوں میں شریک ہوئیں، مارچز کا حصہ بنیں، اور کئی بار قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔
اٹھائیس جولائی 2024 کو جب گوادر میں "راجی مچی” کی تیاری ہو رہی تھی، تو حکومتی طاقت نے ایک بار پھر سائرہ اور سعدیہ کو نشانہ بنایا۔ انہیں دیگر لڑکیوں کے ہمراہ گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ لیکن بلوچستان وہ پرانا بلوچستان نہیں رہا، جہاں آواز کو دبایا جا سکتا تھا۔ خضدار شہر میں آگ کی طرح خبر پھیلی، لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اور عوامی مزاحمت کے باعث چار گھنٹوں کے اندر یہ تمام خواتین رہا کر دی گئیں۔
سائرہ بلوچ نے فروری 2025 میں ایک اور مثال قائم کی، جب خضدار سے اغوا ہونے والی آسمہ بی بی کی بازیابی کے لیے انہوں نے قیادت سنبھالی۔ وہ متاثرہ خاندان کی آواز بنیں، اور تین روز تک مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیا۔ بلوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں جہاں عورت کی آواز گھر کی چار دیواری سے آگے نہیں جاتی، وہاں عورت کا دھرنے کی قیادت کرنا ایک چھوٹا انقلاب تھا۔ اور نتیجہ؟ آسمہ بازیاب ہوگئیں۔
بلوچستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار عورتیں صرف مظلوم کی ماں، بیٹی یا بہن نہیں، بلکہ تحریک کی رہنما بن کر ابھری ہیں۔ سائرہ اور سعدیہ جیسی بیٹیاں اب صرف اپنے لاپتہ بھائیوں کی بازیابی کی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی بیداری کی علامت بن چکی ہیں۔ وہ درد کو صرف ذاتی نہیں سمجھتیں، وہ دوسرے کے زخموں پر بھی مرہم رکھتی ہیں۔
یہی وہ لمحہ ہے، جب ایک قومی تحریک میں جان آتی ہے۔ جب عورت صرف ماتم نہیں کرتی، بلکہ جدوجہد کا پرچم تھام لیتی ہے۔ سائرہ اور سعدیہ کی شکل میں ہمیں آج وہ بلوچ بیٹیاں نظر آتی ہیں، جنہوں نے خاموشی کو چیخ میں، خوف کو ہمت میں، اور درد کو طاقت میں بدل دیا ہے۔
ریاست چاہے کتنی ہی طاقتور ہو، لیکن جب بیٹیاں سوال بن جائیں، تو تاریخ بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔