
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ این ڈی پی بارکھان زون کا زونل اجلاس زونل آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن عباس بلوچ کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مرکزی کمیٹی کے رکن سنگت ثناء بلوچ نے مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کی۔مختلف اہم ایجنڈوں پر تفصیل سے گفت و شنید ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں تنظیمی امور پر تفصیل سے گفتگو کی گئی، جہاں خاص طور پر تنظیمی نظم و ضبط اور مرکزی جمہوریت کے اصولوں پر زور دیا گیا۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ این ڈی پی محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے، جسے مکمل ادارہ جاتی طرز پر استوار کیا جانا چاہیے۔ تنظیم کے ڈھانچے، فیصلوں اور سرگرمیوں میں آئین کی بالادستی اور اجتماعی رائے کا احترام بنیادی اصول ہونا چاہیے۔اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ این ڈی پی کا حصہ بننے کے لیے لازم ہے کہ ہر کارکن پارٹی آئین کا پابند ہو، بلوچ قومی تحریک کے نظریے کا شعوری پیروکار ہو، غیر سیاسی اور سماجی طور پر ممنوع سرگرمیوں میں شامل نہ ہو اور اپنے کردار و عمل سے معاشرے میں ایک مثبت اور ذمہ دار فرد کے طور پر پہچانا جائے۔ یہ اصول نہ صرف تنظیمی وقار کے تحفظ کے ضامن ہیں بلکہ ایک باوقار، بااصول اور نظریاتی کارکن کی شناخت کو بھی اجاگر کرتے ہیں، جو این ڈی پی کے ادارہ جاتی وژن کی بنیاد ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پارٹی کی فعالیت پر تفصیلی بات چیت کے دوران اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام عہدیدار اور ممبران اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نبھائیں اور تنظیمی سرگرمیوں میں بھرپور، منظم اور مثبت کردار ادا کریں۔ اس موقع پر آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی فیصلہ کیا گیا کہ وہ افراد جو پارٹی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا تنظیمی اجلاسوں سے غیر حاضر رہتے ہیں، ان کے خلاف آئینی طور پرکاروائی کی جائی گی۔ جبکہ ایسے ممبران جو پارٹی آئین و منشور کے خلاف گئے ہیں، اکثریتی رائے کی بنیاد پر اُنہیں پارٹی سے بے دخلی کا نوٹس جاری کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال پر بھی سنجیدہ اور فکر انگیز بحث کی گئی۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ دنیا میں ریاستوں اور طاقتور بلاکس کے درمیان مفادات کی نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے، جہاں انسان، انسانی حقوق، اور مظلوم اقوام صرف ایندھن کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی تناظر میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ شرکاء نے کہا کہ بلوچستان میں جمہوری آوازوں کے لیے دروازے بند کیے جا رہے ہیں، اور ریاستی جبر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی)،بلوچ یکجہتی کمیٹی، بلوچ وومن فورم (بی ڈبلیو ایف) سمیت دیگر نظریاتی و سیاسی تنظیموں پر راستے تنگ کیے جا رہے ہیں۔ ان کے کارکنان کو محض اپنی رائے کے اظہار پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبری گمشدگیوں، گرفتاریوں، اور دھمکیوں کے ذریعے ان کے آئینی و جمہوری حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ اجلاس میں اس صورتحال کو شدید تشویش کا باعث قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ جبر و استحصال سے نہ صرف بلوچ قوم کی اجتماعی نفسیات کو کچلا جا رہا ہے بلکہ پورے خطے میں سیاسی بیداری اور جمہوری جدوجہد کے امکانات کو بھی محدود کیا جا رہا ہے۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ اس گھٹن زدہ ماحول میں تمام سیاسی و قومی قوتوں کو باہمی اتحاد، شعور، اور مزاحمتی حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ مظلوم اقوام کی آواز دبائی نہ جا سکے اور ان کے جمہوری و انسانی حقوق کو یقینی بنایا جا سکے۔
آئندہ لائحہ عمل میں نئی کابینہ کی تشکیل کی گئی جس کے مطابق داؤد بلوچ کو آرگنائزر ، سنگت میر بلوچ کو ڈپٹی آرگنائزر جبکہ رمضان بلوچ، ہاشم بلوچ اور عباس بلوچ آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے۔