بلوچ وومن فورم کی رہنماؤں کی گرفتاری گوادر میں داخلے پر پابندی اور کانفرنس کی منسوخی ریاستی جبر کی عکاسی ہے۔ بی ڈبلیو ایف

بلوچ وومن فورم کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بی ڈبلیو ایف کےجانب سے گوادر میں منعقد کیے جانے والے کانفرنس، جس کا موضوع تھا "بلوچ سیاسی اداروں پر کریک ڈاؤن اور بلوچستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ”، کو ریاستی کریک ڈاؤن، گرفتاریوں اور بے دخلی کے باعث منسوخ کرنا پڑا۔ کانفرنس سے قبل ہی تنظیم کی مرکزی رہنما اور دیگر کارکن خواتین کو گرفتار کر کے گوادر سے تربت بےدخل کر دیا گیا۔

‏‎انہوں نے کہا کہ بلوچ وومن فورم کی جانب سے گوادر میں منعقد کیے جانے والے کانفرنس کی تیاری کئی ہفتوں سے جاری تھی۔ اس کانفرنس کا مقصد بلوچستان میں جاری ریاستی جبر، سیاسی کارکنوں پر کریک ڈاؤن، اور خاص طور پر بلوچ خواتین کی آواز کو قومی و بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا تھا۔ تنظیم نے مقامی خواتین، طلبہ، سماجی کارکنوں، اور ماہرین کو مدعو کیا تھا تاکہ ایک کھلی بحث و مکالمے کے ذریعے سیاسی شعور کو فروغ دیا جا سکے۔

‏‎ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے لیے دعوت نامے تقسیم کیے جا چکے تھے ایجنڈا تیار تھا، مقامی سطح پر لوجسٹک انتظامات (جیسے ہال، ساؤنڈ سسٹم، سیکیورٹی اور رہائش) مکمل کیے جا چکے تھے، اور تنظیم کی رضاکار خواتین مسلسل رابطہ کاری میں مصروف تھیں۔

‏‎انہوں نے مزید کہا کہ تاہم جیسے ہی کانفرنس کی تاریخ قریب آئی، تنظیم کی سرگرمیوں پر ریاستی اداروں کی نگرانی بڑھا دی گئی۔ مرکزی رہنما کو بارہا طلب کر کے دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کانفرنس منسوخ کریں۔ آخری لمحات میں متعدد رضاکاروں کو ہراساں کیا گیا بالآخر، کانفرنس سے صرف چند روز قبل ہی تنظیم کی رہنماؤں کو گرفتار کر کے گوادر سے تربت بےدخل کر دیا گیا، اور یوں کئی ہفتوں کی محنت، مشاورت، اور تیاری پروگرام کی اسٹیج تک نہ پہنچ پائی۔

‏‎ترجمان نے کہا کہ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں بلوچ خواتین کو نہ صرف اپنے حقوق کی بات کرنے بلکہ سماجی شعور و آگہی کے کسی بھی عمل میں شرکت کی آزادی سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔

‏‎بلوچ وومن فورم نے کہا کہ کانفرنس کی منسوخی سے قبل، بلوچ وومن فورم کی مرکزی رہنما اور دیگر کارکن خواتین کو گوادر پولیس نے بغیر کسی قانونی نوٹس یا وارنٹ کے حراست میں لیا۔ گرفتاری کے بعد انہیں گوادر کے ایک مقامی تھانے منتقل کیا گیا، جہاں ان کے ساتھ نہایت غیرانسانی اور تضحیک آمیز سلوک روا رکھا گیا۔ تھانے میں دورانِ حراست خواتین سے سخت تفتیش کی گئی، بار بار ان کے ذاتی نظریات، تنظیمی وابستگی، اور کانفرنس کے مقاصد کے بارے میں سوالات کیے گئے، اور انہیں خاموش رہنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔

‏‎ان کا مزید کہا تھا کہ تفتیش کے دوران خواتین کو نہ صرف ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ اگر وہ ایسی سرگرمیوں میں دوبارہ شریک ہوئیں تو مزید سخت کارروائی ہوگی۔ بعض خواتین کو ان کے اہلِ خانہ کے بارے میں بھی دھمکیاں دی گئیں، اور ان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی بنیاد پر انہیں "ریاست دشمن” قرار دینے کی کوشش کی گئی۔

‏‎اس تمام عمل کے دوران خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ نہ انہیں وکیل تک رسائی دی گئی، نہ اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت ملی۔ خواتین کو کئی گھنٹوں تک تھانے میں بٹھا کر مسلسل دباؤ کا نشانہ بنایا گیا، اور آخرکار زبردستی گوادر سے تربت بےدخل کر دیا گیا۔

‏‎ترجمان نے بیان میں کہا کہ یہ واقعہ نہ صرف خواتین کی آزادی، وقار اور تحفظ پر حملہ ہے بلکہ یہ اس ریاستی رویے کی عکاسی کرتا ہے جو بلوچستان میں پرامن سیاسی و سماجی سرگرمیوں کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ خاص طور پر بلوچ خواتین کو اس طرح ہراساں کرنا، ان کی آواز کو دبانا، اور انہیں خوفزدہ کرنا نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک مہذب معاشرے کے دعوے پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

‏‎انہوں نے مزید کہا کہ گوادر سے گرفتاری اور بےدخلی کے بعد بلوچ وومن فورم کی مرکزی رہنما اور دیگر خواتین کارکنوں کو تربت کے ایک تھانے میں منتقل کیا گیا، جہاں ریاستی دباؤ کا ایک اور مرحلہ شروع ہوا۔ وہاں خواتین کو زبردستی کانفرنس کی منسوخی کے لئے ذہنی دباؤ ڈالا گیا ۔ یہ عمل نہ صرف غیرقانونی تھا بلکہ اس میں اخلاقی جبر، ذہنی دباؤ، اور آئینی حقوق کی کھلی پامالی شامل تھی۔

‏‎ تھانے کے ماحول کو مکمل طور پر کنٹرول کیا گیا، اور ان کے پاس نہ قانونی مشورہ لینے کا موقع تھا، نہ کوئی آزاد گواہ موجود تھا۔

ترجمان نے کہا کہ ‎یہ اقدام صرف بلوچ وومن فورم کے خلاف نہیں بلکہ بلوچستان میں ہر اس آواز کے خلاف ہے جو حق، سچ، اور انصاف کی بات کرنا چاہتی ہے۔
‏‎یہ اقدامات بلوچستان میں جاری سیاسی جبر اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی سنگین مثال ہیں۔ ایک پرامن، علمی اور عوامی سطح پر بیداری کے لیے منعقدہ کانفرنس کو طاقت کے زور پر روکنے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بلوچستان میں نہ صرف سیاسی سرگرمیوں بلکہ اظہارِ رائے پر بھی عملی پابندی عائد ہے، خاص طور پر جب وہ آوازیں خواتین کی ہوں۔

‏‎بی ڈبلیو ایف نے مزید کہا کہ بلوچ وومن فورم ایک پرامن، سیاسی اور غیر مسلح پلیٹ فارم ہے جو خواتین کے بنیادی حقوق، لاپتہ افراد کے مسائل اور ریاستی جبر کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ہماری جدوجہد آئینی، جمہوری اور اخلاقی بنیادوں پر ہے، جسے دبانا ریاستی اداروں کی غیرجمہوری روش کا عکاس ہے۔

‏‎ہم انسانی حقوق کے تمام فورمز سے آواز بلند کرنے کی مطالبہ کرتے ہیں

‏‎گوادر سمیت بلوچستان بھر میں پرامن سیاسی سماجی سرگرمیوں پر پابندی ختم کی جائے

‏‎خواتین کو جبر و ہراسانی کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے

‏‎بلوچستان میں سیاسی آزادی، اظہار رائے، اور تنظیم سازی کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جائے۔

‏‎آخر میں انہوں نے کہا کہ بلوچ وومن فورم اپنے عزم پر قائم ہے اور بلوچ خواتین کی آواز کو ہر صورت میں بلند کرتی رہے گی۔ جبر، دھمکیاں، اور گرفتاریوں سے نہ پہلے رکے تھے، نہ اب رکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مستونگ: فائرنگ سے پنجگور کے رہائشی میاں بیوی جاں بحق، اوستہ محمد میں بیوی کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار

منگل جولائی 29 , 2025
بلوچستان کے ضلع مستونگ نیں لکپاس کے قریب نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے پنجگور چتکان کے رہائشی شعیب ولد استاد انور اور ان کی اہلیہ جاں بحق ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق، مقتول شعیب اپنی اہلیہ کے ہمراہ ڈیلیوری کے سلسلے میں کوئٹہ جا رہے تھے کہ راستے میں ایک […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ