
تحریر: رامین بلوچ (پہلا حصہ)
زرمبش مضمون
گزشتہ برس 28 جولائی کو بحرِ بلوچ کے سنگم پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک تاریخ ساز قومی اجتماع ”راجی مچی“ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ صرف ایک جلسہ نہیں تھا بلکہ پوری قوم کی مزاحمت، یکجہتی اور عزم کا مظہر تھا۔اس ”راجی مچی“ کو روکنے کے لیے قابض ریاست نے ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کی۔ شاہراہوں پر ٹینکر کھڑے کر دیے گئے، سڑکوں کو کھود کر ناقابلِ گزر بنایا گیا، اور اجتماع کی جانب بڑھنے والے قافلوں پر فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ درجنوں افراد زخمی ہوئے اور متعدد فرزندانِ وطن شہید کر دیے گئے۔مگر ان سنگین رکاوٹوں، خاردار تاروں اور دھمکیوں کے باوجود بلوچ عوام کا قافلہ نہ رکا، نہ جھکا۔ لاکھوں کے مجمع کو روکنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی، اور بالآخر ساحلِ بلوچ پر ایک انسانی سمندر امڈ آیا۔ بحرِ بلوچ نے شاید پہلی بار عوامی شعور اور مزاحمت کی ایسی بے مثال لہر دیکھی، جو ہر جبر کو روندتے ہوئے آگے بڑھی۔ریاست نے خوف پھیلایا، جھوٹ پر مبنی پریس کانفرنسیں کیں، اور دھمکیوں کا سہارا لیا۔ مگر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے انقلابی رفقاء نے کسی بھی سطح پر سمجھوتے سے انکار کیا۔ وہ نہ جھکے، نہ رُکے، بلکہ ہر قدم کے ساتھ اور مضبوط ہوتے گئے۔ اُن کا مشن اصولی، قومی اور اجتماعی جدوجہد کا عکاس تھا۔ وہ جیت گئے، اور ریاست تمام تر طاقت کے باوجود شکست کھا گئی۔
یہ بلوچ قومی تاریخ کا ایک انوکھا اور فیصلہ کن لمحہ تھا۔ ایک مقبوضہ قوم نے جس بصیرت، تنظیم اور قربانی کا مظاہرہ کیا، اُس کی مثال خطے کی حالیہ تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ گزشتہ چوبیس سالوں پر محیط بلوچ مزاحمتی تحریک کی زمینی سیاسی سرگرمیوں کے مقابلے میں ”راجی مچی“ کا یہ اجتماع کم از کم دس گنا بڑا، منظم اور مؤثر تھا۔یہ”مچی“ تاریخ کے کلینڈر میں محض ایک دن یا ایک اجتماع کا حوالہ نہیں بلکہ بلوچ قومی شعور، عوامی طاقت اور سیاسی مزاحمت کی وہ علامت ہے جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے درج ہو چکی ہے۔ گوادر کے ساحل پر منعقد ہونے والی یہ اجتماع عوامی بیداری اور انقلابی ہمت کی ایک ایسی مثال ہے جس نے بلوچ تحریکِ آزادی کو ایک نئے مقام پر لاکھڑا کیا۔
یہ اجتماع محض ہجوم کا اکٹھ نہیں تھا بلکہ بلوچ قومی یکجہتی، وحدت اور مزاحمت کی ایک بھرپور عکاسی تھی۔
”راجی مچی“ کے خلاف قابض ریاست کی جانب سے روا رکھا گیا جبر خود اس اجتماع کی معنویت اور ریاست کے خوف کو عیاں کرتا ہے۔ شاہراہوں پر ٹینکر کھڑے کرنا، سڑکوں پر گڑھے کھودنا، قافلوں پر فائرنگ اور شیلنگ، اور فرزندانِ وطن کی شہادت یہ سب صرف نوآبادیاتی بربریت کے مظاہر نہیں تھے، بلکہ دراصل اس حقیقت کا اعتراف تھے کہ بلوچ قوم کے ارادوں نے ریاست کی بنیادوں کو لرزا دیا ہے۔ ”راجی مچی“ کے شرکاء نے اپنے مصمم عزم اور غیر متزلزل ارادوں سے یہ ثابت کر دیا کہ گولیاں، آنسو گیس، گرفتاریوں اور دھمکیوں سے نہ قوموں کو روکا جا سکتا ہے، نہ اُن کے شعور کو دبایا جا سکتا ہے۔
یہ اجتماع اُس نظریے کی عملی تصویر تھا، جس میں فرد کا انکار، قوم کا اثبات بن جاتا ہے؛ اور ہر زخمی جسم، ایک نئی مزاحمتی پکار میں ڈھل جاتا ہے۔
اس تاریخی تحریک میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی ساتھیوں کا کردار نہایت کلیدی رہا۔ اُن کی قیادت نے بلوچ خواتین کی سیاسی شرکت کو نئی جہت دی، اور یہ واضح کر دیا کہ بلوچ قومی تحریک اب کسی مخصوص طبقے، قبیلے یا جنس تک محدود نہیں رہی۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے مذاکرات، دھمکیوں اور ریاستی دباؤ کو یکسر مسترد کر کے ایک بے مثال استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اُن کا یہ موقف "نہ ہم جھکیں گے، نہ رکیں گے ” بلوچ تاریخ میں مزاحمتی قیادت کی اعلیٰ ترین مثال بن چکا ہے۔
بلوچ تاریخ کے تناظر میں ”راجی مچی“ محض ایک اجتماع نہیں، بلکہ قابض مخالف قومی و عوامی بیانیے کی بلوغت تھی۔یہ اجتماع بلوچ قوم کے اجتماعی شعور کی بیداری کا وہ ثبوت تھا جس نے واضح پیغام دیا کہ اب قوم نہ کسی گمراہ کن مفاہمت کو قبول کرے گی، نہ قومی شناخت کی سوداگری کو۔یہ اجتماع ہمیں ہیگل کے جدلیاتی تضاد (Dialectics) کی یاد دلاتا ہے:جہاں جبر (Thesis) کے خلاف مزاحمت (Antithesis) جنم لیتی ہے، اور پھر دونوں کے تصادم سے ایک نئی حقیقت (Synthesis) وجود میں آتی ہے۔یہ اجتماع اسی جدلیاتی عمل کی پیداوار تھی — ایک ایسی قومی "Synthesis” جس نے کالونائزر کے ہتھکنڈوں کو جھٹلایا اور قومی یکجہتی کو ایک ناقابلِ انکار حقیقت میں بدل دیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ 24 سالہ بلوچ سیاسی مزاحمتی تحریک کے مقابلے میں ”راجی مچی“ کا یہ اجتماع نہ صرف عددی طور پر عظیم تر تھا، بلکہ نظریاتی افق کے اعتبار سے بھی کہیں زیادہ وسیع تھا۔یہ صرف ایک احتجاجی مظاہرہ نہیں تھا، بلکہ ایک عوامی ریفرنڈم تھا،ایک اجتماعی عہد کہ بلوچ قوم اپنی شناخت، زمین اور مستقبل پر خود فیصلہ کرے گی۔یہ اعلان تھا کہ سیاست صرف چند پارلیمانی کاسہ لیسوں یا سیاسی پارٹیوں کی میراث نہیں، بلکہ بلوچ انٹیلیجنشیا، نوجوانوں، خواتین، ماہی گیروں، کسانوں، اور مزدوروں کی ملکیت بن چکی ہے۔ ”راجی مچی“ ایک مہم نہیں، بلکہ تحریک کی معراج ہے۔اس کا پیغام صرف علاقائی یا داخلی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔یہ دنیا کی تمام مقبوضہ اقوام کے لیے امید، حوصلے اور جدوجہد کا استعارہ بن چکا ہے۔یہ اجتماع دنیا کو یہ باور کراتا ہے کہ استعمار خواہ کتنا ہی طاقتور ہو، جب قومیں بیدار ہو جائیں، تو سنگینیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں، اور خاردار تاریں تاریخ کے طوفانوں میں بہہ جاتی ہیں۔ ”راجی مچی“ کو ایک وقتی لمحہ کہنا اُس کی اہمیت گھٹانے کے مترادف ہوگا۔یہ درحقیقت بلوچ تحریک کی وہ انقلابی معراج ہے، جہاں قوم نے خود کو پہچانا، یکجا کیا، اور دنیا کو دکھا دیا کہ قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت نہ صرف ایک فطری حق ہے، بلکہ اس حق کو دبانے والا کوئی بھی نظام کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو بالآخر شکست ان کی مقدر ہے۔
تاریخ میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو محض واقعات نہیں ہوتے، بلکہ کسی قوم کے شعور، شناخت اور سمت کا تعین کرتے ہیں۔ "بلوچ راجی
مُچی” بھی ایسا ہی ایک لمحہ تھا۔آج جب اس قومی اجتماع کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے، تو یہ لمحہ بلوچ اجتماعی یادداشت، قومی شعور، اور عوامی قوت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔یہ اجتماع بلوچ قوم کے اُس دیرینہ سوال کا اجتماعی جواب تھا، جو دہائیوں سے جبر، استحصال اور ریاستی بربریت کے سائے میں پروان چڑھتا رہا ہے۔”راجی مچی“ نے اس سوال کا جواب اجتماعی شرکت، قومی یکجہتی، اور نظریاتی پختگی کے ساتھ دیا۔یہ وہ لمحہ تھا جب تمام مکاتب فکر صنف و جنس، رنگ و زبان، مذہب و فرقہ سے بالاتر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے۔ہر طرف ایک یک جان قومی روح کی جلوہ گری تھی، جو ”راجی مچی“ کی فضا میں سانس لے رہی تھی۔
اس اجتماع کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے خود کو ایک تحریک سے بڑھ کر ایک ورثے میں ڈھال دیا۔ ”راجی مچی“ صرف ایک تاریخ نہیں، بلکہ ایک حوالہ بن گئی،یہ وہ لمحہ تھا جب جبر کی گونگی دیواروں پر صدائیں گونجیں،جب خاموشی کے صحرا میں نعرہئ حیات بلند ہوا،
اور جب خوف زدہ نگاہوں نے ہمت کے چراغ جلائے۔ اس اکٹھ نے بلوچ قومی شعور کو ایک تازہ دم توانائی دی، ایسی توانائی جس میں جذباتی نعرے نہیں بلکہ فکری جہتیں اور واضح سمتیں متعین کی گئیں۔ کہا ہمیشہ یہ جاتا ہے کہ طاقت عوام کے پاس ہے، مگر اس کا عملی مظاہرہ تاریخ میں کم ہی نظر آتا ہے۔ ”راجی مچی“ اس قول کی تاریخی تصدیق ہے۔جب بلوچ عوام نے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ وہ مزید خاموش نہیں رہیں گے،تو ریاستی محاصرہ، بندوقیں، اور آنسو گیس سب ماند پڑ گئے۔اس اجتماع نے ثابت کر دیا کہ عوامی یکجہتی کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔جب قوم ایک نکتے پر متحد ہو جائے، تو بڑے سے بڑا کالونائزر بھی لرزنے لگتا ہے۔ ”راجی مچی“ کا ایک سال مکمل ہونا کسی جشن کا موقع نہیں، بلکہ ایک عہد کی تجدید ہے۔یہ یاددہانی ہے کہ جو بنیاد رکھ دی گئی ہے، اُسے پائیدار اداروں، نظریاتی تسلسل اور سیاسی نظم میں ڈھالنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ورثہ صرف یاد رکھنے سے نہیں، بلکہ زندہ رکھنے سے تاریخ بنتا ہے۔
یہ صرف ایک چیخ نہیں، بلکہ ایک صدا ہے؛ایک لمحہ نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے؛ایک اجتماع نہیں، بلکہ ایک فکری روایت ہے۔
اس کا ایک سال مکمل ہونا ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ بلوچ قوم اب اُس موڑ پر کھڑی ہے جہاں وہ اپنی شناخت، آزادی، اور مستقبل کی سمت خود متعین کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔جب تاریخ اپنے فیصلہ کن موڑ پر آتی ہے،تو وہ محض واقعات کا تسلسل نہیں رہتی،بلکہ ایک اجتماعی شعور کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔بلوچ قومی اجتماع اسی شعور کی ایک زندہ، جیتی جاگتی علامت ہے،جس کے اثرات وقت کی دھند میں مدھم ہونے کے بجائے روز بروز گہرے ہو رہے ہیں۔اس اجتماع نے بلوچ قوم کی تاریخ کو ایک نئی معنویت، نئی جہت، اور ایک نیا بیانیہ عطا کیا۔
جس کے پسِ پشت ایک اجتماعی عزم، کرب، مزاحمت،امید قربانی اور فکری وحدت کی طاقت کارفرما ہے۔
گویا یہ اجتماع صرف مقبوضہ بلوچ قوم کا دردناک نوحہ نہ تھا، بلکہ ایک ایسی عوامی جنگ تھی جو غلامی کے خلاف اعلانِ مزاحمت بن گئی۔”راجی مچی“ نے یہ ثابت کیا کہ عوامی طاقت وہ محرک ہے جو کسی بھی استعماری نظام کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔بلوچ عوام، جنہیں برسوں سے خاموشی،
خوف اور جبر کی زنجیروں میں جکڑا گیا تھا، اس اجتماع میں جس طرح امڈ آئے، اس نے ریاستی بیانیے کی جڑیں ہلا دیں۔وہاں کوئی فرد اکیلا نہ تھا، وہاں ایک قوم تھی اپنی شناخت کے ساتھ، اپنے زخموں کے ساتھ، اور اپنی آرزوؤں کے ساتھ۔یہ اجتماع ایک اجتماعی تجدیدِ عہد تھا۔
ایسا عہد، جس میں ریاستی قبضے، جبری گمشدگیوں، فرضی مقابلوں میں بلوچ فرزندوں کے قتل، اور پنجابی استعماری پالیسیوں کے خلاف نہ صرف منظم آواز بلند کی گئی، بلکہ بلوچ قوم نے اپنی وحدت، ثقافت، زبان اور تاریخ کے تناظر میں ایک واضح پیغام دیا”ہم موجود ہیں، ہم زندہ ہیں، اور ہم مزاحمت کر رہے ہیں۔”
”راجی مچی“ نے بلوچ نیشنلزم کو نظریاتی، فکری، علمی اور شعوری بنیاد فراہم کی۔اس اجتماع نے یہ بات ثابت کی کہ اجتماعیت ایک بہت بڑی طاقت ہے۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں مزاحمت، ایک نظریاتی تحریک میں ڈھلتی ہے،اور یہی کسی بھی مقبوضہ قوم کی حیاتِ نو کی علامت بنتی ہے۔تاریخ کبھی محض مورخین کے قلم سے نہیں لکھی جاتی،بلکہ وہ اُن قدموں، اُن صداؤں اور اُن اعمال سے جنم لیتی ہے جو اپنی سمت خود متعین کرتے ہیں،جن کے پیچھے کوئی ادارہ، کوئی اسٹیبلشمنٹ، اور کوئی سازگار ریاستی ڈھانچہ نہیں ہوتا۔تاریخ اُن ہاتھوں سے رقم ہوتی ہے جو جلتے دیے تھامے تاریکیوں کو چیرتے ہیں،جن کی انگلیوں پر انقلاب کی نبض ہوتی ہے،اور جن کی آواز میں صداقت کی بازگشت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُن کی رفقاء نے بالکل ایسا ہی کردار ادا کیا،وہ کردار جو صرف کتابوں میں "عظیم انقلابی رہنما” کہلا کر نہیں،بلکہ میدانِ عمل میں تاریخ ساز بن کر ابھرتے ہیں۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، ڈاکٹر شلی بلوچ، اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ یہ سب محض افراد نہیں بلکہ ایک فکری مدرسہ، ایک انقلابی وژن،اور ایک اانقلابی و سیاسی تحریک کی علامت بن چکے ہیں۔ایک ایسی قیادت جو بلوچ قوم کی اجتماعی اذیت، مزاحمت، اور نجات کوایک منظم سیاسی و فکری لائحہ عمل میں ڈھالتی ہے۔ان کی قیادت اُن روایتی سیاستدانوں سے مکمل مختلف ہے،جو ریاستی جبر پر محض بیانات دیتے ہیں،یا اُن سے بھی جو عوامی جذبات کو وقتی نعروں میں سمو کر صرف اپنا سیاسی سرمایہ بناتے ہیں۔ماہ رنگ بلوچ اور ان کے قافلہ نے مزاحمتی سیاست کومحض شور شرابہ، جلوس، یا علامتی احتجاج تک محدود نہیں رکھا،بلکہ اسے عوامی شعور، اجتماعی تربیت، اور منظم پیش قدمی کا نام دیا۔
ایسے وقت میں، جب خوف کو زبانوں پر تالے ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو،جب نوآبادیاتی ریاست اپنے جبر کو "قانون” کا نام دے،اور جب کالونائزر وردی پہن کر معصوموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو تب”راجی مچی“ جیسا اجتماع اعلانِ جہاد بھی ہوتا ہے اور جشن مزاحمت بھی۔جب مجاہدوں کو مجرم بنا کر پیش کیا جائے،جب حق کی آواز کو بغاوت کہا جائے،اور جب عوامی قیادت کو عدالتوں میں گھسیٹا جائے
تب کسی کا کھلے عام، غیر مسلح ہو کر، عوامی تحریک کی قیادت سنبھالناصرف اظہار جرائت نہیں بلکہ نظریاتی پختگی کا اعلان ہوتا ہے۔