سی ایس ایس ، تحصیلداری یا آزادی

تحریر رامین بلوچ (آخری حصہ)

بلوچ تحریک ایک ایسی کشتی بنتی جا رہی ہے جس میں سوراخ باہر سے کم، اندر سے زیادہ ہو چکے ہیں۔دشمن کو دشمن کہنے کی جرات تو بچے بھی رکھتے ہیں،لیکن "دوستوں” کے چہروں سے نقاب اتارنے کی ہمت صرف وہی رکھتا ہےجو سچ کو عبادت سمجھتا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان نقاب پوش "دانشوروں” اور "سیاسی رہنماؤں” کو پہچانیںجو تحریک کی زبان بولتے ہیں، مگر دشمن کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔

تحریکِ آزادی ایک طویل، کٹھن اور خون آلود راستہ ہے۔
اس راہ پر وہی چل سکتے ہیں جن کے ضمیر زندہ ہوں،
جن کے الفاظ ان کے عمل کی گواہی دیں،اور جن کی وفاداریاں دھرتی سے ہوں، کسی وردی یا کرسی سے نہیں۔
اب سوال کرنے کا وقت ہے: تمہارے بیٹے تحصیلدار سیکریٹری کیسے بنے؟

آئیے سوال کریںان سے جنہوں نے ہمارے شہداء کے لہو کو مراعات کے عوض بیچ دیا ہے۔آئیے ہم صبا دشتیاری آغا محمود جان،شہید غلام محمد ڈاکٹر منان جان بنیں۔مگر وہ نہیں جو رجسٹرار بننے کے لیے گورنر ہاؤس کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، بلکہ وہ جو ہاسٹلوں، سرکلوں،یونیورسٹیوں اور پہاڑوں میں آزادی کی صدا بن کر گونجتے ہیں۔

جب کوئی قوم غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا آدرش دیکھتی ہے، تو اس کی راہ میں دو بنیادی سوال ہمیشہ کھڑے ہوتے ہیں:پہلا،کیا میں اپنی ذات کو قربان کرکے اجتماعی قومی نجات کی راہ اپناؤں؟دوسرا،کیا میں خود کو بچا کر اس نظام کے اندر جگہ بنا کر "کامیابی” کی لغت بدل دوں؟بلوچ دھرتی پر، آج یہ سوال صرف سیاسی مشق نہیں بلکہ ایک وجودی کشمکش بن چکا ہے۔ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے گولڈ میڈل، ڈاکٹری، وکالت، عہدے، سرکاری منصب اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جلا کر پہاڑوں کا رخ کر چکے ہیں ۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو سپریم کورٹ آف پاکستان کا لائسنس، تحصیلداری کی کرسی، اور ریاستی اعزازات کو اپنی فکری معراج سمجھ کر سینے پر تمغے کی طرح سجاتے ہیں۔

یہ دو گروہ محض دو انتخاب نہیں، بلکہ دو الگ الگ فکری مکتبہ ہائے فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔پہلا طبقہ وہ ہے جو نجات کو صرف ذاتی ترقی یا آسائش میں نہیں دیکھتا، بلکہ اسے قوم کی اجتماعی آزادی سے مشروط سمجھتا ہے۔ان کے لیے ڈاکٹر ہونا، وکیل ہونا یا استاد ہونا تب تک بامعنی نہیں، جب تک یہ شناختیں مقبوضہ قوم کی فکری، جسمانی اور سیاسی آزادی کے لیے استعمال نہ ہوں۔ان کے لیے ڈگریاں وہ کاغذ ہیں جو اگر قومی نجات کے کام نہ آئیں، تو راکھ ہونا ہی ان کا مقدر ہے۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے استعمار کے نظام میں "جگہ بنانے” کو ہی کامیابی سمجھا۔یہ وہ طبقہ ہے جو "اسٹیٹ اپروول” کو آزادی کا نعم البدل سمجھ بیٹھا ہے۔
ان کے لیے کامیابی کا مطلب ہے تحصیلدار بننا، سپریم کورٹ میں وکالت کرنا یا سول سروس میں جاناخواہ اس کے لیے قومی شعور، مزاحمتی سیاست، یا اجتماعی نظریات کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

بلوچ تاریخ کا ہر ورق ان دونوں رویّوں سے لبریز ہے۔
جب الجزائر فرانسیسی قبضے میں تھا، کچھ نوجوان پیرس کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر کے لوٹے، کچھ نے فرانسیسی سسٹم میں نوکریاں کیں، اور کچھ پہاڑوں میں FLN کے ساتھ مل کر مسلح جدوجہد میں شریک ہو گئے۔
آج تاریخ کن کو سلام کرتی ہے؟ان کو جنہوں نے فرانسیسی عدلیہ میں پوزیشن حاصل کی؟ یا ان کو جنہوں نے قابض کے خلاف بندوق اٹھائی؟اسی طرح، ویتنام کی جنگ، کیوبا کی انقلابی تحریک، یا افریقی آزادی کی جدوجہدہر جگہ یہی دو طبقے سامنے آئے:ایک وہ جو استعمار کے اندر "کامیابی” ڈھونڈتے رہے، اور ایک وہ جو آزادی کو ہی اصل کامیابی مانتے رہے۔

تو آئیے، ہم خود سے پوچھیں:کیا ہمیں وہ تعلیم چاہیے جو ہمیں قابض کے نظام میں نوکر بنائے؟کیا ہمیں وہ کامیابی مبارک ہو سکتی ہے جو اپنی قوم کی لاشوں پر تعمیر ہوئی ہو؟کیا سپریم کورٹ کا لائسنس اس وقت بھی معتبر ہے، جب یہی عدالت حقِ آزادی کو "غداری” قرار دے؟کیا تحصیلداری کا عہدہ اس وقت بھی باعثِ فخر ہے، جب وہ ایک مقبوضہ قوم پر ریاستی کنٹرول کا آلہ بن جائے؟

آج جب بلوچ نوجوان اپنے مستقبل کا تعین کر رہے ہیں، وہ ان دو راستوں کے سنگم پر کھڑے ہیں:ایک طرف مزاحمت، قربانی اور قومی آزادی کی دشوار گزار پگڈنڈی ہے،اور دوسری طرف فردی ترقی، سرکاری ملازمت اور نوآبادیاتی نظام سے وفاداری کا ہموار راستہ۔تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ واضح اور بے رحم رہا ہے:جنہوں نے قربانی دی، انہی کے نام صدیوں تک زندہ رہے۔انہی کے نام پر یادگاریں بنی، ان کی قبریں زیارت گاہیں بنیں،اور انہی کے افکار درسگاہوں کے نصاب میں شامل ہوئے۔

تاریخ کے تلخ نوحے میں ایسے افراد کی ایک طویل فہرست ملتی ہے، جنہوں نے نوآبادیاتی طاقتوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو کر وزارتوں، منصبوں اور عہدوں کو اختیار کیا۔
انہوں نے آزادی کے بجائے اطاعت، عزت کے بجائے مراعات، اور قومی غیرت کے بجائے ذاتی آسودگی کو مقصدِ حیات بنایا۔
وہ جو استعمار کے دربار میں اپنی وفاداری کی قیمت پر "اعلیٰ افسر” کہلائے، درحقیقت غلامی کے کاغذی سرٹیفکیٹ لے کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے گئے۔
ان کی زندگی بظاہر پرتعیش تھی، مگر ان کا انجام عبرتناک۔
وہ مرے، تو نہ کوئی اعزاز نصیب ہوا، نہ کوئی سلامی دی گئی۔ان کی موت بے نام رہی، اور ان کی قبریں بے نشاں ہو کر وقت کی دھول میں ہمیشہ کے لیے گم ہو گئیں۔نہ تاریخ نے ان کا ذکر کیا، نہ سماج کے اجتماعی شعور میں وہ کوئی مقام حاصل کر سکے۔

قابض کے نظام میں منصب لینا ایک نوکری یا مزدوری نہیں ہوتا، بلکہ ایک انتخاب ہوتا ہے، جو کسی فرد کو اپنی قوم کے خلاف صفِ دشمن میں کھڑا کرتا ہے۔ جب کوئی فرد استعمار کے لیے "تحصیلدار”، "کمشنر”، یا "وزیر” بنتا ہے، تو وہ صرف ایک عہدہ نہیں لیتا، بلکہ وہ قوم کی جدوجہدِ آزادی کو پیٹھ دکھاتا ہے۔ تاریخ ایسے لوگوں کو صرف ایک عنوان دیتی ہے” گماشتہ”اور گماشتے کبھی ہیرو نہیں بنتے۔ ان کے چہرے سکوں پر نہیں چھپتے، ان کے نام اسکولوں یا چوراہوں پر نہیں لگتے۔ وہ تاریخ میں ایک حاشیہ بھی حاصل نہیں کرپاتے۔ ان کی زندگی، اگرچہ وقتی آسائشوں سے مزین ہو، مگر ان کی موت میں کوئی عظمت نہیں ہوتی۔
دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے نوآبادیاتی ریاست کی نوکری کو جوتے کی نوک پر رکھا، جنہوں نے پہاڑوں کو اپنا گھر بنایا، جنہوں نے جیلوں، اذیت گاہوں اور شہادت کو اپنے نصب العین پر ترجیح دی۔ وہ جنہیں "باغی” کہا گیا، آج انہی کے نام پر نسلیں فخر کرتی ہیں۔ ان کی قبریں زیارت گاہ بن گئیں، ان کے اقوال رہنما بن گئے۔

تاریخ خاموش ضرور ہوتی ہے، مگر اندھی نہیں۔ وقت کا پہیہ جب آگے چلتا ہے تو سچائی کے خدوخال نمایاں ہو جاتے ہیں۔ وہ جو ایک دور میں تمغوں، وزارتوں اور پروٹوکول کے مالک تھے، آج گمنامی کی دھول میں دفن ہیں۔ ان کی نسلیں ان کے نام سے شرمندہ ہیں، جبکہ وہ جو قید ہوئے، شہید کیے گئے، یا جلاوطن کیے گئے، آج ان کی فکری اولاد نظریاتی پرچم لیے کھڑی ہے۔ ان کی مزاحمت، ان کی قربانی، اور ان کی سچائی، آج کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔یہی تاریخ کا عدل ہ، اور یہی مزاحمت کی فتح ہے۔

دنیا کی تاریخ میں ہر وہ لمحہ، جس نے قوموں کی تقدیر بدل دی، دراصل اس نسل کے باشعور نوجوانوں کے فیصلوں کا نتیجہ تھا۔ قوموں کے عروج و زوال میں سب سے اہم کردار اُس نوجوان طبقے کا ہوتا ہے جو علم سے آشنا، شعور سے بہرہ مند، اور تاریخ سے باخبر ہو۔ آج بھی ہمیں ایک ایسے ہی دوراہے کا سامنا ہے جہاں سوال یہ نہیں کہ تمہارے پاس کتنی ڈگریاں ہیں، کتنا نام ہے، یا تم نے کون سا اعزاز حاصل کیا،سوال یہ ہے: کیا یہ سب کچھ تم نے اپنی قوم کو آزاد کرنے کے لیے حاصل کیا ہے؟ یا صرف اپنی جان کی امان اور خود کو محفوظ رکھنے کے لے کیا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہر مزاحمتی تحریک کی کامیابی اس وقت ممکن ہوئی جب تعلیم یافتہ طبقہ، نوجوان نسل، اور باشعور افراد نے اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر قومج آزادی کو ترجیح دی۔ الجزائر، ویتنام، ، ایریٹیریا، اور جنوبی افریقہ کی تحریکیں ہمیں یہی درس دیتی ہیں۔

نیلسن منڈیلا ایک وکیل تھا، مگر اُس کی ڈگری آزادی کی خدمت میں لگی۔ ہو چی منہ شاعر تھا، مگر اُس کی شاعری میں استعمار کے خلاف گرج تھی۔ فرانتز فینن ایک ماہرِ نفسیات تھا، مگر اُس کی تحریریں استعماری نظامِ فکر کو جڑ سے ہلا دیتی تھیں۔ان سب نے اپنے تعلیمی مقام کو نوکریوں کے لیے نہیں بلکہ مزاحمت کے اوزار کے طور پر استعمال کیا۔

آج بحیثت بلوچ ہمیں ایک خاموش مگر نہایت خطرناک دھوکے کا سامنا ہے: ترقی کے نام پر غلامی کا تسلسل۔ نوجوان کو بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ ڈگری حاصل کر لے، اچھی نوکری کر لے، "مین سٹریم” میں آ جائے، تو وہ کامیاب ہے۔ مگر یہ کامیابی کس کی قیمت پر؟ کیا آپ کی تعلیم کا مقصد ایک مقبوضہ سماج میں "ذاتی” مقام حاصل کرنا ہے یا اس قوم کو اس کی قومی آزادی دلوانا؟اگر آپ کی ڈگری، آپ کی نوکری، آپ کی شہرت صرف اتنی ہے کہ آپ اپنا خاندان بچا سکیں، تو یہ سب کچھ صرف راکھ ہے۔ مگر اگر یہی سب کچھ آپ نے اس لیے حاصل کیا ہے کہ آپ اپنی قوم کی آواز بنیں، اس کے مستقبل کی ضمانت بنیں، اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے والے ہاتھوں میں علم کی مشعل تھمائیں تو پھر یہ سب مزاحمت کا ہتھیار ہے۔
ہر عہد اور سماج میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ وہ جو نوآبادیاتی نظام کے اندر رہ کر فائدہ اٹھاتے ہیںاور دوسرے وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف کھڑے ہو کر تاریخ کا رخ بدلتے ہیں

آج کا نوجوان فیصلہ کرے کہ وہ کسے چنے گا؟ وہ جو "خاموشی” کی قیمت پر ترقی حاصل کرتا ہے؟ یا وہ جو "آزادی” کی راہ میں قربانیاں دیتا ہے؟ تاریخ کے اوراق میں زندہ وہی رہتے ہیں جنہوں نے مزاحمت ، چاہے قیمت جان کی ہو۔

یہ تحریر کسی فرد یا گروہ کے خلاف نہیں، بلکہ ایک فکری دعوت ہے۔ یہ اُن ضمیر رکھنے والے نوجوانوں سے مکالمہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ غلامی صرف جسم کی قید نہیں بلکہ سوچ کی جکڑ ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی فکری خودمختاری کا دفاع نہ کیا تو ہماری نسلیں صرف "سی وی” کی بنیاد پر غلامی کی نئی شکلوں کو قبول کرتی رہیں گی۔
لہٰذا، فیصلہ آج کرنا ہے۔ یا تو ہم اپنے علم، اپنی مہارت، اور اپنی حیثیت کو صرف "زندہ رہنے” کا ذریعہ بنائیں، یا اُسے "آزادی کے خواب” کی تعبیر کے لیے وقف کر دیں۔ مزاحمت صرف بندوق کے ساتھ ، قلم، علم، اور ضمیر کی جنگ کا نام ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

زامران میں پاکستانی فورسز پر شدید حملے، متعدد ہلاکتیں: ہیلی کاپٹروں کی پروازیں

پیر جولائی 28 , 2025
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے زامران میں پاکستانی فورسز کو مسلح افراد نے شدید حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، جن کے نتیجے میں متعدد اہلکاروں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ حملوں کے بعد علاقے میں ہیلی کاپٹروں کی مسلسل پروازیں جاری ہیں، جبکہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ