انڈر گراؤنڈ

تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون

بلوچستان کی تاریخ اگر کبھی مزاحمت کی کسی کتاب میں لکھی جائے تو وہاں کچھ ایسے نام سنہرے الفاظ میں کندہ ہوں گے جو جبر کے سامنے جھکے نہیں، بکے نہیں، اور نہ ہی کبھی ڈرے۔ انہی ناموں میں ایک ابھرتی ہوئی، باہمت اور باشعور قیادت، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا نام ہے۔

آج وہ جبر کے ایسے دور سے گزر رہی ہیں جسے صرف ظلم کہنا کافی نہیں۔ یہ ایک ایسی منظم سزا ہے جس کا مقصد نہ صرف ان کی زبان کو خاموش کرانا ہے بلکہ ان کی سوچ، ان کے وجود، اور ان کے نظریے کو ختم کرنا ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ نظریہ قید نہیں کیا جا سکتا۔ بانک صبیحہ بلوچ اس وقت روپوش ہیں، مگر ان کی آواز اب پہلے سے زیادہ بلند ہو چکی ہے۔

سنگت صبیحہ بلوچ کے والد میر بشیر احمد کو کسی قانونی الزام کے بغیر محض اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا کہ وہ ایک "مزاحمتی بیٹی” کے والد ہیں۔ یہ گرفتاری صرف ایک انسان کی نہیں بلکہ ضمیر کی گرفتاری ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں حکومت ایک باپ کو بیٹی کے نظریات کی قیمت پر بلیک میل کر رہی ہے۔

خود کامریڈ صبیحہ نے سوشل میڈیا پر واضح کیا کہ: "میرے والد کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ میرے والد ہیں، اور میرا جرم یہ ہے کہ میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بولتی ہوں۔”

روپوش ہونا بہت آسان لگتا ہے، لیکن جب حکومت، ادارے اور پولیس ایک سیاسی کارکن کے خلاف مورچہ زن ہوں، تو روپوشی ایک جنگ بن جاتی ہے۔ جنگ اپنے وجود، شناخت اور نظریے کی۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اس روپوشی کے دوران بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی سے لاتعلقی کے اعلان پر تیار نہیں۔ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد ترک کریں، تنظیم سے الگ ہوں، اور "سرنڈر” کریں مگر وہ انکار کر چکی ہیں۔

ساتھی صبیحہ بلوچ کے خلاف انتقامی کارروائی پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ میری لاولر نے سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا بیان واضح ہے: "ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کو ان کے انسانی حقوق کے کام کی پاداش میں نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور ان کے والد کی گرفتاری ایک انتقامی حربہ ہے۔”

خضدار کے ایک گاؤں پر بغیر کسی قانونی جواز کے چھاپہ مارا جاتا ہے۔ نہ کوئی وارنٹ، نہ کوئی الزام ہوتا ہے۔ بس صرف اس لیے کہ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اس گھر سے تعلق رکھتی ہیں۔
ان کے خاندان کو ہراساں کیا جاتا ہے، بچوں کو ڈرایا جاتا ہے، بزرگوں کو دھمکایا جاتا ہے۔
یہ کیسا انصاف ہے جہاں قانون نہیں، انتقام چلتا ہے؟

کوئٹہ کی بولان میڈیکل کالج سے ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل کرنے والی یہ نوجوان خاتون محض ایک ڈاکٹر نہیں، بلکہ ایک سیاسی شعور یافتہ، مزاحمتی سوچ کی علامت بن چکی ہے۔ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی سابق چیئرپرسن اور آج بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ایک نمایاں رہنما ہیں۔ ان کی آواز نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں جبر کے خلاف اُبھرنے والی ایک مؤثر اور توانا آواز بن چکی ہے۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ سیاست گندی چیز ہے، لیکن جب سیاست شعور، قربانی اور سچائی کے سانچے میں ڈھل جائے تو وہ انقلاب بن جاتی ہے۔ سنگت صبیحہ بلوچ نے نوجوانی کے دنوں میں ہی سمجھ لیا کہ بلوچستان میں صرف ڈگری حاصل کر لینا کافی نہیں، یہاں تو وجود بھی ثبوت مانگا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تنظیمی سیاست کو اپنایا اور طلبہ کو صرف تعلیمی حقوق نہیں، بلکہ قومی حقوق، سیاسی شعور اور طبقاتی نجات کا پیغام بھی دیا۔

بساک کی قیادت سے لے کر بی وائی سی کی صف اول تک، کامریڈ صبیحہ کا سفر علم سے عمل، اور عمل سے قربانی کی داستان ہے۔

بلوچستان کی سیاست خصوصاً مزاحمتی سیاست ہمیشہ سے "مردوں” کی اجارہ داری رہی ہے۔ مگر سنگت صبیحہ نے اس روایت کو توڑ دیا۔ وہ نہ صرف جلسوں میں سب سے آگے نظر آتی ہیں، بلکہ پالیسی بیانات، مظاہروں کی حکمت عملی اور میڈیا کے سامنے بیانیہ طے کرنے میں بھی ان کا کردار کلیدی ہے۔

جب لڑکیاں "گھروں تک محدود رہنے” کے مشورے سنتی ہیں، کامریڈ صبیحہ بلوچ کہتی ہیں کہ بلوچ لڑکیوں کو کتاب، سیاست اور مزاحمت تینوں کی زبان آنی چاہیے۔

حال ہی میں بانک صبیحہ بلوچ نے پاکستانی عدالتی نظام پر شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عدالتیں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ یہاں مظلوم کی کوئی جگہ نہیں۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ آج بلوچ نوجوانوں خصوصاً بلوچ لڑکیوں کے لیے ایک رہنمائی کا مینار بن چکی ہیں۔ وہ صرف ایک نام نہیں، ایک سوچ، ایک علامت اور ایک تحریک ہیں۔ ان کی جدوجہد بتاتی ہے کہ اگر ارادہ سچا ہو، تو ایک شخص بھی تاریخ بدل سکتا ہے۔

بلوچستان کی دھرتی نے بے شمار رہنما دیے ہیں، مگر سنگت صبیحہ بلوچ ان چند لوگوں میں شامل ہیں جو زمانے کی زنجیروں کو توڑ کر نئی تاریخ لکھ رہی ہیں۔

اور یاد رکھیے، جبر کی دیوار جتنی بھی اونچی ہو، سچائی کا قد اس سے بلند ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

وی بی ایم پی کا احتجاجی کیمپ 5892ویں روز بھی جاری، جبری لاپتہ صدام حسین کے کوائف لواحقین نے جمع کرادیے

پیر جولائی 28 , 2025
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائم احتجاجی کیمپ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 5892 دن مکمل ہوگئے۔ آج رحیمہ بی بی احتجاجی کیمپ آکر اپنے شوہر صدام حسین کی جبری گمشدگی کی تفصیلات وی بی ایم پی کو فراہم کردیں۔ رحیمہ بی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ