سی ایس ایس، تحصیلداری یا آزادی ؟

تحریر: رامین بلوچ( پہلا حصہ ) 

سوشل میڈیا آج کے دور کا سب سے بڑا "ڈیجیٹل آئینہ” بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف افراد کی روزمرہ زندگی، احساسات اور رویوں کا مظہر ہے بلکہ اس کے ذریعے ایک مکمل سماجی بیانیہ بھی ابھرتا ہے۔ اسی آئینے میں ہم بلوچ سماج کی پوری شبیہ دیکھ سکتے ہیں، جہاں آج کا بلوچ بھی اس نیٹ ورکنگ دنیا کا ایک سرگرم حصہ بن چکا ہے۔اس تصویر کے ایک رخ پر ہمیں وہ بہادر بلوچ سپوت، فدائی، جہد کار، مزاحمت کار اور شہداء نظر آتے ہیں جنہوں نے وطن کی آزادی اور اپنے نظریات پر استقامت کے ساتھ سر ہتھیلی پر رکھ کر قربانی کی وہ تاریخ رقم کی ہے، جو بلوچ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔لیکن اسی تصویر کا دوسرا رخ کچھ اور چہروں کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ ایسے چہرے جو نظریاتی پسپائی، موقع پرستی اور ضمیر فروشی کے دلدل سے گزر کر تحصیلدار، کلرک یا نوآبادیاتی ریاست کی انتظامی مشینری کے کل پرزے بننے کو "کامیابی” سمجھتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو سپریم کورٹ یا ریاستی عدالتوں کے لائسنس کو اعزاز سمجھ کر اپنی تصاویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر خودنمائی کرتے ہیں، گویا چاپلوسی، کاسہ لیسی اور غلامی ان کے لیے باعثِ فخر ہو چکی ہے۔ ایسے افراد نہ صرف بلوچ مزاحمتی بیانیے سے منحرف ہوتے ہیں، بلکہ نرگسیت اور نفسیاتی غلامی کے ایسے گڑھے میں گرتے ہیں جہاں ریاست کی تابعداری کو مقصدِ حیات بنا لیا جاتا ہے۔

روایتی میڈیا، چاہے وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، ایک بند دروازے کے پیچھے بیٹھے ایڈیٹروں، اینکرز اور ریاستی پالیسی سازوں کے ہاتھوں تشکیل پاتا ہے۔ اس میڈیا میں خبریں "چُنی جاتی” ہیں، بیانیے "ترتیب دیے جاتے” ہیں، اور رائے عامہ کو "ہموار” کیا جاتا ہے۔ وہاں صحافی صرف وہی کہتا ہے جو قابلِ اشاعت یا قابلِ نشر ہو، اور ناظر صرف وہی سنتا ہے جو استعمار کی ڈیسک سے گزر کر آتا ہے۔لیکن سوشل میڈیا، آج کا بے قابو، بے ترتیب، غیرمرکزی اور بے رحم آئینہ ہے ، جو ہر چہرے کا الگ الگ عکس کھینچتا ہے۔یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں ہر فرد خود صحافی ہے، نظریہ ساز ہے، رائے دہندہ ہے، اور سب سے بڑھ کر، اپنی ذات کا آئینہ دار ہے۔
یہاں نہ کوئی ایڈیٹر ہے، نہ سنسر بورڈ، نہ لائسنس کی شرط، نہ اسکرپٹ کی پابندی۔ ہر زبان اپنی مرضی کی بولی بولتی ہے، ہر کلک ایک بیانیہ تشکیل دیتا ہے، اور ہر پوسٹ ایک موقف بن جاتی ہے۔

جہاں ایک طرف مزاحمتی آوازیں گونجتی ہیں، جو بلوچ وجود کی سیاسی اور قومی تشکیل کے لیے سرگرمِ عمل ہیں، وہیں دوسری طرف وہ چہرے بھی نمایاں ہوتے جا رہے ہیں جو مفادات، مراعات اور مسندوں کے لیے اپنے ماضی کو دفن کر چکے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں ایک بلوچ نوجوان، اپنے باپ، برادری اور خاندان کے نظریاتی ورثے کی نفی کرتے ہوئے، تحصیلدار بننے کی فخریہ تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتا ہے۔یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے، پاکستان کے ریاستی نظام میں شراکت، بلوچ دوستی ہے، وطن دوستی ہے ، یا بلوچ سماج اور قوم سے غداری؟

ایسے سماج میں، جہاں آزادی کی جنگ جاری ہو، وہاں ہر فرد کا ایک سماجی ماسک ہوتا ہے۔عزت، وقار، کردار، غداری، دلالی، کاسہ لیسی ، ہر مثبت و منفی رویہ واضح ہو جاتا ہے۔
تحریک، ایک تطہیری عمل (purifying process) کے ذریعے، سماج کو چھانٹ کر اس کی اصل صورت آشکار کرتی ہے۔جو افراد کل تک ڈائس پر کھڑے ہو کر مزاحمت کے نعرے لگاتے تھے، آج وہی لوگ سرکاری عہدوں کی خوشی میں ٹویٹس اور پوسٹوں کے ذریعے اپنی "کامیابی” کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جو باپ کل تک قوم دوستی، حریت، آزادی اور قومی وقار کا پرچم بلند کیے ہوئے تھا، آج وہی باپ اپنے بیٹے کی سی ایس ایس میں کامیابی کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی سمجھتا ہے۔ یہ تبدیل ہوتے زہنی رویہ فکری، تہذیبی اور سیاسی تضاد ہے جس نے بلوچ قومی شناخت کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ وہی باپ جو کل تک نوجوانوں کو قومی غلامی کے خلاف مزاحمت کا درس دیتا تھا، آج ریاستی نظام کا حصہ بننے پر خوشی سے جشن مناتا ہے۔۔ جب ایک طرف بلوچ قوم اپنی آزادی کے شاہراہ پر سفر کررہے ہیں اور دوسری طرف انہی ماضی کے کامریڈ غلامی کے نظام میں فخر سے شامل ہوکرمحب قابض بن جاتے ہیں
جو سوشل میڈیا پر فخر اور کامیابی کے "ٹرینڈز” بن چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان رویوں کا تنقیدی جائزہ لیں، اور اپنی قومی فکر و عمل کے پیمانہ میں ان کا محاسبہ کریں۔ ان کی دوغلا پن کو بے نقاب کریں جو قومی جدوجہد اور ہماری نئی نسل کو فکری انتشار اور کنفیو ژن کے بحران میں دھکیل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ فرد، جو آج سوشل میڈیا پر تحصیلدار بننے کی پوسٹ شیئر کرتا ہے، بلوچ تحریک کے سامنے جواب دہ ہے یا نہیں؟

یہ صرف ایک ملازمت کی منصب نہیں ہوتی، بلکہ "دلالی” کا وہ پیمانہ بن جاتی ہے، جو خود کو بلوچ تحریک کے اوزان میں تولنے لگتی ہے۔اگر کوئی فرد، جس کا ماضی انقلابی یا مزاحمتی تحریکوں سے جڑا ہوا ہو، آج ریاستی نظام کا حصہ بنتا ہے، تو یہ صرف ایک پیشہ ورانہ فیصلہ نہیں بلکہ ایک فکری یوٹرن ہے ، جس سے اس کی سوچ، نظریہ اور فلسفہ مشکوک ہو جاتے ہیں۔ایسے میں اصل سوال یہ بنتا ہے:
کیا وہ فرد اپنے نظریے، وطن اور تحریک سے منحرف ہوکر، یوٹرن لے کر فرار کے راستے پر چل نکلا ہے؟کیا وہ کسی احتساب کی کسوٹی پر پرکھا جا رہا ہے؟کیا وہ فرد، جو کل تک "کامریڈ” بن کر انقلابی فلسفے بگھارتا تھا، آج پاکستانی ریاست کی انتظامی نوکری کو ہی اس نظریے کی "تعبیر” سمجھتا ہے؟یا پھر یہ اس کی فردی تھکاوٹ اور شکست ہے؟

وہ لوگ، جو کل تک عوامی اجتماعات میں آزادی کے نعرے لگاتے تھے، آج "خوفزدہ خاموشی” میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
یہ خوف بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اب آزادی کے نظریات کو ایک "سوشل رسک” سمجھتے ہیں، جس سے بچنا ان کے نزدیک دانشمندی ہے۔لیکن درحقیقت، ان کا یہ رویہ نہ صرف ان کے ماضی کو داغدار کر رہا ہے، بلکہ ان کے مستقبل کو بھی تاریکی کی طرف دھکیل رہا ہے۔اور سب سے سنگین سوال یہ ہے:وہ شہداء، جن کے بیچ انہوں نے پرورش پائی، جن کی قربت، محبت اور نظریاتی آغوش میں جوان ہوئے ان کے ارواح کو کیا جواب دیں گے؟آج وہی لوگ، جنہوں نے ان شہداء کے لہو سے وفا کے وعدے کیے تھے، ریاست کی گود میں خود کو محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔لیکن کیا ریاست کی گود واقعی محفوظ ہے؟یا یہ صرف وقتی پناہ ہے ایک ایسی پناہ گاہ، جس کی قیمت عزت، نظریہ اور مزاحمت کی نفی ہے

حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر کچھ چہروں کی تصاویر گردش کر رہی ہیں۔ کوئی تحصیلدار کی نشست پر فائز ہے، کوئی ریاستی عدالت کا لائسنس ہاتھ میں لیے مسکرا رہا ہے، اور کوئی "اسٹیٹ سرٹیفیکیٹس” کے سائے میں فخر سے سینہ تانے کھڑا ہے۔ ان میں سے کچھ چہرے وہی ہیں جن کے گھر کبھی آزادی کے نعرے اور مزاحمت کی گونج سے آباد تھے۔
لیکن آج وہی نام، وہی نسب، ریاستی نظام میں جذب ہو کر ان ہی اداروں کے وفادار بن چکے ہیں جنہیں وہ ماضی میں "نوآبادیاتی ڈھانچے” کہا کرتے تھے۔

اس مضمون میں ہم اسی کشمکش کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ایک قوم کا فکری سرمایہ کب اور کیسے ریاست کے مراعاتی نظام میں تحلیل ہو جاتا ہے، اور کب اقتدار کی غلام گردشوں میں "کامیابی” کے تمغے پہننے لگتا ہے۔
بلوچستان کی سرزمین ایک بار پھر گواہ بن رہی ہے اُس دکھ اور المیے کی، جہاں وفا کی قسمیں کھانے والے اور انقلابی نظریے کا علم تھامنے والے آج ریاستی بندوبست کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔وہ لوگ جو کل تک "قوم”، "مزاحمت”، اور "آزادی” کے گیت گاتے تھے، آج تحصیلدار، سیکریٹری اور کلرک کی کرسیوں پر بیٹھ کر ریاستی مشینری کو تقویت دے رہے ہیں۔یہ صرف چہروں کی تبدیلی نہیں، بلکہ نظریات کی قیمت لگنے کا عمل ہے۔یہ وہ زخم ہیں جو محض فرد کو نہیں، بلکہ پورے سماج کے سینے پر لگتے ہیں۔کیا یہ مراعات کسی قابلیت کی بنیاد پر دی جاتی ہیں؟ہرگز نہیں۔
پاکستان جیسے نوآبادیاتی ورثے کے حامل ریاستی نظام میں تحصیلدار، سیکریٹری یا وزیر بننے کے لیے نہ علمی معیار درکار ہے، نہ سیاسی شعور اور نہ ہی عوامی خدمت کا جذبہ۔
یہاں تقرری کا اصل پیمانہ "وفاداری” اور "دلالی” ہے۔

پاکستانی ریاست میں "کمیشن کا امتحان” ایک ایسا فریب ہے، جو انتظامی مشینری کو مضبوط بنانے کے لیے شعوری طور پر تراشا گیا ہے۔یہی امتحان برطانوی دور میں "انڈین سول سروس” کے نام سے متعارف کروایا گیا تھا، جس کا مقصد ہندوستانی عوام کو قابو میں رکھنا تھا، نہ کہ ان کی خدمت کرنا۔بدقسمتی سے آج بھی وہی نوآبادیاتی ذہنیت برقرار ہے۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ انگریز کی جگہ آج پنجاب کی اشرافیہ نے لے لی ہے ۔ اور غلامی کی زنجیروں کو "کامیابی” کے تمغے سے سجا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ امتحانات کسی کی علمی گہرائی یا سماجی شعور کو نہیں پرکھتے، بلکہ یہ اس بات کا ٹیسٹ ہوتے ہیں کہ کوئی فرد ریاستی بیانیے سے کس حد تک وفادار ہے۔جو نوجوان سامراجی ساختوں پر تنقید کرتا ہے، جو قابض نظام کو چیلنج کرتا ہے، اس کے لیے اس بندوبست میں کوئی جگہ نہیں۔جبکہ وہ فرد جو سر تسلیم خم کر کے ریاست کے سامنے جھک جائے، وہی "افسر” بننے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔

ہر سال ہزاروں بلوچ نوجوان اپنی زندگیاں، وقت اور وسائل اس امتحان میں جھونک دیتے ہیں۔ان کے آزادی کے خوابوں کو یہ کہہ کر بیچا جاتا ہے:”اگر محنت کرو گے تو افسر بنو گے۔”مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام ایک سسٹمیٹک فریب ہے جو مقبوضہ قوم کے نوجوانوں کو ریاستی مشینری کے اندر الجھا کر ان کی مزاحمتی توانائی کو ختم کرتا ہے۔وہ نوجوان جو تحریکِ آزادی کا ایک فعال سپاہی بن سکتا تھا، آج کسی ضلعی دفتر میں فائلوں کے نیچے دب کر قابض ریاست کا کل پرزہ بن جاتا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ کون افسر بنا؟ سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر؟کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جو لوگ "کمیشن پاس کر کے” افسر بنتے ہیں، وہ آخر کس مشینری کا حصہ بنتے ہیں؟
کیا وہ بلوچ وطن میں ریاستی مظالم کے عملدار نہیں بنتے؟
کیا وہی لوگ لاپتہ افراد کے کیسوں میں خاموش تماشائی نہیں؟کیا وہ زمینوں کی بندربانٹ، وسائل کے استحصال اور سیاسی کارکنوں کی نگرانی کے آلہ کار نہیں بنتے؟اگر ان سب سوالوں کا جواب "ہاں” ہے، تو پھر افسر بننا کوئی کامیابی نہیں بلکہ بلوچ نیشنلزم کے خلاف استعمال ہونے والا ایک ہتھیار ہے۔

بعض ناموں اور ان کے فرزندان کا ریاستی دھارے میں شامل ہونا محض ذاتی مفاد کا معاملہ نہیں۔یہ ایک اہم اور تکلیف دہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیاہمارامزاحمتی ڈھانچہ واقعی ادارہ جاتی بنیادوں پر استوار ہے؟جس تحریک کے "کامریڈ” اقتدار کے ذیلی درجوں میں فٹ ہو جائیں، انہیں صرف تنقید نہیں، بلکہ احتساب کے کٹہرے میں آنا ہوگا۔یہ محض غداری نہیں، بلکہ نظریاتی نیلامی ہے۔ان افراد نے صرف ایک کرسی حاصل نہیں کی، بلکہ انہوں نے اُس تاریخ سے منہ موڑا ہے جو بلوچ شہداء اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں۔یہ وہی شہداء ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں، اپنے خواب اور اپنا کل قوم کی آزادی کے لیے قربان کر دیا۔اور آج انہی قربانیوں کو مراعات کے عوض فروخت کرنا، دراصل مزاحمت کے نصب العین سے انحراف ہے۔

جدلیات کہتی ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ہر انقلابی لہر کے ساتھ ایک "ردِ انقلابی رجحان” بھی پیدا ہوتا ہے۔
شاید یہی وہ لمحہ ہے جہاں بلوچ قوم کو اپنے اندر کی خامیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔یہ صرف دشمن کی چالاکی نہیں، بلکہ ہماری اندرونی کمزوریوں کی بھی عکاسی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ "کون گیا؟”سوال یہ ہے کہ "کیوں گیا؟”
جن کامریڈوں نے جانوں کے نذرانے دیے، جو گم نامی میں شہید ہوئے ، اور جو باقی بچے، وہ کیوں بکے۔ یہ مراعاتی تقرریاں اُس آدرش کی تذلیل ہیں، جو ان ماؤں نے اپنے بچوں کے لیے دیکھا تھا۔وہ مائیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو آزادی کی راہ پر روانہ کیا،جنہوں نے انہیں پہاڑوں پر بھیجا،
جنہوں نے ان کے لاشے گلے لگا کر بھی صبر کیا ۔ آج اُن کے نام پر ہونے والی سودے بازی دیکھ کر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔یہ وقت محض جذباتی نعروں سے آگے بڑھ کر نظریاتی اور ادارہ جاتی مزاحمت کا ہے۔بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ان سازشوں کو پہچانیں جو ریاست صرف بندوق سے نہیں، بلکہ مراعات سے بھی کرتی ہے۔ریاست کی یہ حکمتِ عملی صرف جبر پر مبنی نہیں،یہ ذہنوں کو خریدنے، بیانیوں کو مسخ کرنے،اور حوصلوں کو مراعات کے دھوکے میں دفن کرنے کا عمل ہے۔

بلوچ وطن کو آج تحصیلداروں، سیکریٹریوں یا ریاستی بیوروکریٹوں کی نہیں، بلکہ اُن نظریاتی سپاہیوں کی ضرورت ہے جو کسی ریاستی جھنڈے، مراعات یا نوکری کے بجائے صرف اور صرف اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے سینہ سپر ہوں۔نظریاتی سپاہی وہ نوجوان ہوتا ہے جو نہ ریاست سے ڈرتا ہے، نہ مراعات سے متاثر ہوتا ہے۔وہ اپنے ضمیر، فکر اور قوم سے کیے گئے عہد وفا پر قائم رہتا ہے۔وہ ہر اس قربانی کے لیے تیار ہوتا ہے جو اس کی سرزمین، اس کی شناخت اور اس کے نظریے کے تحفظ کے لیے درکار ہو۔

سوال یہ ہے:کیا بلوچ وطن کو ریاستی تحصیلداروں، سیکریٹریوں اور بیوروکریٹوں کی ضرورت ہے؟یا پھر اس دھرتی کو اُن وفادار، باشعور اور باوقار نوجوانوں کی ضرورت ہے جو نظریاتی محاذ پر کھڑے ہو کر اپنی قوم کی سالمیت، خودمختاری اور قومی تشخص کا دفاع کریں؟
اس سوال کا جواب واضح ہے پاکستانی ریاست کے نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے میں شمولیت، اپنی شناخت، اپنی تاریخ اور اپنی دھرتی سے غداری کے مترادف ہے۔

نظریاتی سپاہی وہ نوجوان ہوتا ہے جو بکنے والا نہیں ہوتا، جو جھکنے والا نہیں ہوتا۔وہ ہر محاذ پر اپنے قومی بیانیے، اپنی شناخت، اپنی تاریخ اور آزادی کی بات کرتا ہے۔
وہ ریاستی مراعات کے جال کو پہچانتا ہے اور جانتا ہے کہ قابض کے نظام میں شمولیت صرف غلامی کو قبول کرنا نہیں بلکہ اسے جواز فراہم کرنا ہے۔نظریاتی سپاہی سچ بولنے کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔ چاہے وہ جلاوطنی ہو، قید ہو یا موت اور شہادت۔وہ جانتا ہے کہ ریاستی انتظامی عہدے اور مراعات، قومی آزادی کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔
وہ اپنے شہیدوں کو یاد رکھتا ہے ،ان قربانیوں کو نہیں بھولتا جن کی بنیاد پر مزاحمت کا پرچم بلند ہے۔اس کے نزدیک کرسی نہیں، ، قوم کا نظریہ مقدم ہوتا ہے۔وہ بلوچ وطن کے لیے جیتا ہے اور مرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں تحصیلدار ہونا صرف ایک انتظامی حیثیت نہیں بلکہ ایک سیاسی پوزیشن ہے۔ وہ ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے، جو بلوچ عوام پر ریاستی پالیسیوں کو نافذ کرتا ہے۔ دوسری جانب، نظریاتی سپاہی اس عوام کی آواز ہوتا ہے جو ان پالیسیوں کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ دونوں راستے کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایک راستہ غلامی کی طرف جاتا ہے، دوسرا آزادی کی طرف۔

بلوچستان جہاں ہر پتھر کی دراڑ میں ایک تاریخ دفن ہے، اور ہر ہوا کے جھونکے میں آزادی کی سرگوشی سنائی دیتی ہے۔
کبھی جو نوجوان ہاتھوں میں کتابیں اور دلوں میں خواب لیے "انقلاب” کے گیت گاتے تھے،آج وہی نام، وہی خانوادے، تحصیلداروں کی فہرستوں میں نمودار ہو رہے ہیں۔وہی نام، جو کبھی استعمار کے خلاف نعرہ زن ہوا کرتے تھے،
آج اسی سامراجی ریاست کے نظام میں کلرک، سیکریٹری اور تحصیلدار کی صورت میں "خدمت” کے عہد پر فائز ہو چکے ہیں۔یہ عہدے نہ تو کسی میرٹ کا نتیجہ ہیں،نہ علمی یا فکری قابلیت کا انعام۔یہ دراصل سیاسی رشوت ہے،جو وفاداریاں تبدیل کرنے کے صلے میں بانٹی جا رہی ہے۔

کیا وہ لوگ، جو آج ریاستی مراعات کا حصہ بن چکے ہیں،
واقعی بلوچ قومی مزاحمت کا حصہ تھے؟یا وہ صرف موسمی کامریڈ تھے،جن کا ضمیر موقع پرستی اور مراعات پسندی کے ساتھ بندھا ہوا تھا؟بلوچ وطن میں تحصیلدار یا سیکریٹری بننا نہ "امتحان پاس کرنے” کا نتیجہ ہوتا ہے،
نہ ہی یہ عہدے کسی علمی و سماجی معیار کے تحت دیے جاتے ہیں۔بلکہ اکثر یہ عہدے ان افراد کو دیے جاتے ہیں
جنہوں نے ماضی یا حال میں "سرینڈر” کیا،یا "کامریڈ” کا لبادہ اوڑھ کر ریاستی مفاہمت کی راہ ہموار کی۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود بندوق تو نہ اٹھائی،
لیکن بندوق کے سائے میں سودے بازی کی۔جنہوں نےنیشنلزم کا لباس پہن کر مفاہمت کا بازار سجایا۔

سوال یہ ہے کہ اگر ماضی کے کامریڈ آج ریاست کے ماتحت عہدوں پر فائز ہیں،تو ان کے مزاحمتی پس منظر کو کن اصولوں اور کس تناظر میں پرکھا جائے گا؟کیا ان کا ماضی آج کے فیصلوں کی تطہیر کر سکتا ہے؟یا وہ ماضی صرف ایک نقاب تھا جو اب اتر چکا ہے؟

تاریخ کا فیصلہ اٹل ہوتا ہےتاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ انقلاب مراعات سے نہیں رکتا۔ہر غدار کے بعد ایک نیا سرمچار جنم لیتا ہے۔ہر مفاہمت کے بعد ایک نیا بیانیہ ابھرتا ہے۔بلوچ دھرتی نے بارہا وفاداریوں کی تبدیلی دیکھی ہے،لیکن ہر بار اس نے ان چہروں کو بےنقاب بھی کیا ہے۔بلوچ وطن کی فضا، اس کی مٹی، اس کی یادیں،آج پھر ایک سوال بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہیں ،کیا ہم وفا کے عہد پر قائم رہیں گے
یا تحصیلدار کے عہدے پر سمجھوتہ کر لیں گے؟

بلوچ تاریخ کی رگوں میں جو لہو دوڑتا رہا ہے، وہ صرف زندگی کا نہیں بلکہ مزاحمت، قربانی، اور قومی آزادی کی تڑپ کا استعارہ ہے۔اس تاریخ میں وہ چہرے شامل ہیں جنہوں نے جلسوں، لیکچرز، عوامی اجتماعوں اور نجی نشستوں میں بلوچ نیشنلزم پر تھیسس دیئے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج انہی چہروں کے فرزند ریاستی بیوروکریسی میں تحصیلدار کی وردی پہن کر بلوچ مزاحمت کے جسم میں چھرا گھونپ رہے ہیں۔

یہ تضاد کوئی حادثہ نہیں، بلکہ ایک شعوری انحراف ہے۔
جن باپوں نے بلوچ قومی سوال پر فکری بنیادیں رکھیں،
آج ان کے بیٹے انہی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے دشمن کی عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔کیا یہ المیہ نہیں کہ جو افراد کل تک بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسوں میں ڈاکٹر ماہ رنگ کے ساتھ فرنٹ لائن پر کھڑے ہوتے تھے،آج ڈاکٹر ماہ رنگ کی گرفتاری پر ایک سطر لکھنے یا ایک ٹوئٹ کرنے سے بھی قاصر ہیں؟کیا یہ خاموشی اتفاقی ہے؟یا اس کے پیچھے وہی مفادات چھپے ہیں جو نوکری، مراعات، اور پرتعیش زندگی کے عوض سچ کو دفنا دیتے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ڈیرہ بگٹی اور وندر شاہراہ پر فائرنگ اور ٹریفک حادثے میں 2 افراد ہلاک

اتوار جولائی 27 , 2025
ڈیرہ بگٹی کے علاقے کوکی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ لیویز کے مطابق مسلح افراد نے فائرنگ کرکے دادن بگٹی کو ہلاک کیا اور موقع سے فرار ہو گئے۔ لیویز نے لاش کو ہسپتال منتقل کرنے کے بعد ضروری کارروائی مکمل کر کے ورثاء […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ