
تحریر : زر مہر بلوچ
ڈپٹی کمشنر کا بنیادی فریضہ غریب اور مظلوم عوام کی سماجی زندگی کو بہتر بنانا، گوادر کے عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، منشیات کا خاتمہ، اور بجلی، گیس، پانی، صحت، تعلیم اور ترقی جیسے بنیادی مسائل کا حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہ تمام امور ڈپٹی کمشنر کی سرکاری ذمہ داریوں میں شامل ہیں، لیکن بدقسمتی سے گوادر کے عوام کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا۔اس کے برعکس، ڈپٹی کمشنر گوادر کی توجہ کا مرکز گوادر یونیورسٹی بنی ہوئی ہے، حالانکہ یونیورسٹیوں کی نگرانی اور ترقی کی ذمہ داری ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) اور وزارت تعلیم کی ہوتی ہے، نہ کہ سول انتظامیہ کی۔ اس غیرمعمولی دلچسپی کے پیچھے دراصل ایک خفیہ ایجنڈا ہے، جو پاکستانی اداروں آئی ایس آئی (ISI) اور ایم آئی (MI) کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے۔
مستند اطلاعات کے مطابق، گوادر یونیورسٹی میں کچھ طلبہ اور انتظامیہ کے افراد آئی ایس آئی اور ایم آئی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کام یونیورسٹی میں موجود بلوچ طلبہ کی سرگرمیوں، سیاسی مباحثوں اور ان کے نظریاتی رجحانات کی نگرانی کرنا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گوادر یونیورسٹی ایک "فوجی کیمپ” میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں طلبہ کا ہر قدم زیرِ نگرانی ہے۔کوئی بھی طالب علم اگر اپنی محرومی، مظلومیت یا یونیورسٹی کی نااہلی پر زبان کھولے، تو اسے یا تو لاپتہ کر دیا جاتا ہے، یا پھر شدید دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹی میں ایجنسیوں کے اہلکار روزانہ کی بنیاد پر آتے ہیں۔کبھی آئی ایس آئی، کبھی ایم آئی، کبھی پاکستان آرمی اور کبھی نام نہاد "قومی ادارے”تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی بلوچ نوجوان اپنے حق، اپنی زبان، اپنی شناخت، اپنی زمین اور وسائل کی بات نہ کر سکے، بلکہ پنجابی استبداد کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔
ان تمام سرگرمیوں کا مرکزی کردار ڈپٹی کمشنر گوادر ہے۔ اس کا کام نوجوانوں کو ریاستی بیانیے کے مطابق تیار کرنا اور پاکستان کے پروگراموں میں شمولیت پر آمادہ کرنا ہے، تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ بلوچ نوجوان پاکستان کے ساتھ ہیں اور بلوچستان میں آزادی کی کوئی تحریک موجود نہیں۔ڈپٹی کمشنر گوادر یونیورسٹی میں روزانہ کی بنیاد پر حاضری دیتا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی نیا پروگرام لے کر آتا ہے۔کبھی اپنی شخصیت متعارف کرواتا ہے، کبھی اسکالرشپس کے نام پر، تو کبھی "ٹوئرز” کے بہانے۔ حال ہی میں، اس نے گوادر یونیورسٹی میں "سی ایس ایس کی تیاری” کے نام سے ایک نیا پروگرام بھی شروع کیا ہے، جس کا اصل مقصد نوجوانوں کو ریاستی نظام کا حصہ بنانا اور ان کی فکری سمت کو قابض ریاست کے مفادات کے مطابق موڑنا ہے۔
پاکستان کی بیوروکریسی کو آج ایک "فخر” اور "کامیابی” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ بلوچ نوجوان طبقہ اس نظام کا حصہ بنے، اپنی غلامی اور محرومیوں کو فراموش کرے، اور ریاستی اداروں—خصوصاً آئی ایس آئی—کے لیے راستہ ہموار ہو جائے۔ اصل مقصد یہی ہے کہ بلوچستان کے ساحل و وسائل پنجابی فوج آسانی سے لوٹ سکے اور بلوچ نوجوان ایک دوسرے سے لڑتے رہیں، تاکہ اصل دشمن پسِ پردہ محفوظ رہے۔
ڈپٹی کمشنر (DC) ایک ضلع میں انتظامی، مالیاتی، اور ترقیاتی نظام کا سب سے بڑا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ ضلع کا چیف ایڈمنسٹریٹر اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کو ہر شہری کے لیے یقینی بنائے، امن و امان قائم رکھے، اور عوامی مفادات کو ترجیح دے۔ سوال یہ ہے کہ کیا گوادر میں قانون ہر فرد کے لیے برابر ہے؟گوادر میں ترقیاتی سرگرمیوں کی نگرانی اور ان پر عمل درآمد کا پورا اختیار بھی ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن 2024 میں گوادر میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں تین سو سے زائد گھر متاثر ہوئے، کئی خاندان بے گھر ہو گئے، کسی کا مکان گر گیا تو کسی کی چار دیواری مٹی میں دفن ہو گئی۔ متاثرین کے نام رجسٹر تو کر لیے گئے اور بیرونی ممالک سے امدادی فنڈز بھی حاصل ہوئے، مگر ایک غریب کو بھی اُس کا حق نہ ملا۔ یہ سب اس نظام کی سفاک حقیقت ہے۔
ڈپٹی کمشنر کی ایک اور ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ریونیو ڈپارٹمنٹ کو عوام کے لیے آسان اور فائدہ مند بنائے۔ مگر گوادر میں صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ بدترین مہنگائی کا شکار ہیں۔ نہ پٹرول ہے، نہ ڈیزل، نہ ہی اشیائے خورد و نوش عام آدمی کی پہنچ میں ہیں۔ پانی جیسی بنیادی ضرورت ناپید ہے۔ انسان بغیر پانی کے مر جاتا ہے، مگر گوادر کے عوام کے لیے پانی تک دستیاب نہیں۔ کیا یہی قانون ہے؟ کیا یہی مساوات ہے؟ یا یہ محض ایک منظم سازش ہے جس کے تحت بلوچ عوام کو اپنی ہی زمین سے بےدخل کیا جا رہا ہے؟
یہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پنجابی فوج بلوچ عوام کو ان کے اپنے علاقے سے نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہے تاکہ نیلگوں ساحل، سونے جیسے وسائل اور گوادر کی زمینیں بیرونی سرمایہ داروں کے ہاتھوں نیلام کی جا سکیں۔ مگر یہ سازش کامیاب نہیں ہوگی۔
گوادر کے عوام، خاص طور پر نوجوان طبقہ، اب بیدار ہو چکا ہے۔ وہ جان چکا ہے کہ ڈپٹی کمشنر جیسے افسران کی اصل ڈیوٹی عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ ریاستی مفادات کا تحفظ ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ نوجوانوں کو ریاستی پروگراموں میں الجھا کر بلوچستان کی آزادی تحریک سے دور رکھا جائے، تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ بلوچ نوجوان پاکستان کے ساتھ خوش ہیں، اور یہاں کوئی مزاحمتی تحریک موجود نہیں۔بلوچ کبھی بھی اپنی آبا و اجداد کی اس ماں جیسی زمین کو نہیں چھوڑے گا۔ بلکہ اپنے محرومیوں کو یاد رکھ کر، اس تحریک کو اپنی ذاتی ذمہ داری بنا کر، پوری قوم کے ساتھ متحد ہو کر ایک دن ضرور بلوچستان سے پنجابی فوج کو نکالے گا، اور اپنی سرزمین کا خودمختار وارث بنے گا۔
بلوچستان میں موجود نام نہاد سیاستدان، مکار سردار، اور پاکستان نواز اسمبلیوں میں بیٹھے بلوچ غداروں کی اس سرزمین میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ بلوچستان صرف اُن غیرت مند اور باشعور فرزندوں کا ہوگا جنہوں نے اپنی دھرتی کے لیے سر قربان کیا ہے، کر رہے ہیں، اور آئندہ بھی کریں گے۔کیونکہ: تحریک ہمیشہ باشعور، غیرت مند، اور وفادار انسانوں کے ہاتھوں لکھی جاتی ہے۔غدار، بے شعور، اور خود غرض لوگ ہمیشہ تاریخ کے کچرے دان میں گمنامی اور ذلت کی زندگی گزارتے ہیں۔
گْوادر ءِ نودربراں منی ارز ءَ گوش بدار اِت، اے کہ پاکستانی بیروکریسی بہ بیت یا پاکستانی فوج اے شمارا بھر ءُ بانگ کن اَنت پہ ادارُکی آسراتانی نام ءَ بلے وت ءَ بلوچ کن اِت ءُ وتی مات گونگیں زمین ءَ وپا بہ کن ئے، من زاناں پاکستانی ایجنسیز اں شمارا سک ٹاچر کُتگ سک باز بلوچ اوں پہ بھا زُرتگ ءُ شمے سر ءَ کارایاں بلے آ انچو مئے دژمن انچو باز نہ اَنت کہ اِش رست مہ کنیں،
بیست بلوچ دلار تیوگیں راج ءِ زوال کُت کنت تیوگیں راج ءِ بیست دلار پرچا زوال مہ کنت ؟
گوں گْوادر ءِ مھلوک ءَ دستبندیں کہ وتی کش ءُ کِر ءِ ھمنچو کہ پاکستانی بلوچ دلار ھست چیروکائی ایشانی نام ءُ اکساں سوشل میڈیا ءَ اپلوڈ بہ کن اِت فیک ءِ آئی ڈی جوڈ بہ کنے ءُ اے دلار ءَ فسبوک بیت انسٹاگرام بیت اگاں ٹک ٹوک بیت ایشانی نام ءُ اکساں دیم ءَ بیار اِت ایشاں سزا بلوچ رجی امیدگید وت دنت ءُ جلدی دنت،
راجی دلار ھچ وڈ ءَ بکشگ ءُ پِھل کنگ نہ بنت بس گوں شما دستبندی کہ ایشانی دیم ءَ آرگ شمے کار اِنت ایشانی سزا دیگ بلوچ راجی امیدگیس ءِ کار اِنت۔
شمے کستر
زِر مہر بلوچ