
تحریر: عزیز سنگھور
بلوچستان شاید دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں بچے اپنے والد کی شفقت، رہنمائی اور موجودگی کے بغیر بڑے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی قدرتی آفت نہیں، بلکہ ایک ریاستی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ جس کا نام "جبری گمشدگی” ہے۔
ہزاروں بچوں کے بچپن اسی جبر کی نذر ہوچکے ہیں۔ ان کی زندگی باپ کی تلاش میں گزرتی ہے۔ وہ اسکول کے بجائے احتجاجی کیمپوں میں بیٹھتے ہیں، لوری کے بجائے نعرے سنتے ہیں، اور کھلونوں کی جگہ والد کی تصویریں اٹھائے نظر آتے ہیں۔ ان ہزاروں چہروں میں ایک چہرہ "علی حیدر بلوچ” کا بھی ہے۔
علی حیدر کی زندگی کا سب سے المناک دن 25 جولائی 2010 تھا۔ جب وہ ایک معصوم بچہ تھا، اور اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے والد رمضان بلوچ کو بلوچستان کے علاقے اوتھل کے زیرو پوائنٹ سے سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اغوا کر لیا۔ ایک لمحے میں علی کا بچپن لُٹ گیا، اس کی ہنسی چھن گئی، اور اس کی زندگی کا مقصد صرف "والد کی واپسی” بن گیا۔
علی حیدر نے والد کے لاپتہ ہونے کے بعد نہ صرف ان کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں درج کرایا بلکہ کوئٹہ کے احتجاجی کیمپوں میں اپنی موجودگی یقینی بنائی۔ سنہ 2014 میں وہ اس عظیم لانگ مارچ کا بھی حصہ بنے جس کی قیادت ماما قدیر بلوچ کر رہے تھے۔ یہ قافلہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل چلا تھا۔ ایک تاریخ ساز جدوجہد، ایک فریاد جو زمین سے آسمان تک پہنچی، مگر تخت سے نہ ٹکرائی۔
کم عمر علی حیدر نے وہ سفر ہمت اور حوصلے سے مکمل کیا، شاید یہ سوچ کر کہ اُس کی صدا اُس کے والد تک پہنچ جائے گی، یا شاید وہ طاقتیں جو والد کو لے گئیں تھیں، اُس کے پاؤں کے چھالے دیکھ کر پگھل جائیں گی۔
مگر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ 16 جون 2019 کی شب علی حیدر کو خود بھی جبری گمشدگی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں گوادر سے اٹھا لیا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب "والد کی تلاش” میں نکلا بیٹا بھی خود تلاش ہونے والا بن گیا۔ مگر اس بار عوامی ردعمل نے کچھ اثر دکھایا اور علی کو بازیاب کرایا گیا۔
اگرچہ علی واپس آگئے، مگر ان کی ماں اور بہن کے اندر کا سکون اور اعتماد کبھی واپس نہ آیا۔ علی حیدر کی غیر موجودگی نے ان کے اہل خانہ کو ذہنی اذیت کے گہرے کنویں میں دھکیل دیا۔
اس کے بعد رمضان بلوچ کی بازیابی کی مہم کی باگ ڈور علی کی چھوٹی بہن ثمینہ بلوچ نے سنبھالی۔ وہ کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد کے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتی رہیں۔ ان کی آواز میں درد تھا، مگر جواب میں صرف خاموشی ملی۔ ان کی آنکھوں میں امید تھی، مگر دروازے بند ملے۔
آج رمضان بلوچ کہاں ہیں، کوئی نہیں جانتا۔ علی حیدر اور ثمینہ اب بھی تلاش میں ہیں۔ صرف اپنے والد کی نہیں، بلکہ اس ریاستی ضمیر کی جو برسوں سے خاموش تماشائی ہے۔ وہ ریاست جو عوام کی محافظ ہونی چاہیے تھی، وہ ان کے پیاروں کو چھپانے والی بن چکی ہے۔
بلوچستان کے بچے دنیا کے باقی بچوں جیسے کیوں نہیں ہو سکتے؟ کیوں یہاں کا بچہ اپنے باپ کے لمس، آواز، رہنمائی اور شفقت سے محروم ہوتا ہے؟ کیوں یہاں "والد” کا مطلب صرف ایک تصویر یا ایک خالی چارپائی ہے؟
علی حیدر کی کہانی، دراصل ہر بلوچ بچے کی کہانی ہے۔ ایک ایسا نوحہ جسے ہم برسوں سے سن رہے ہیں، مگر سن کر بھی ان سنا کر رہے ہیں۔