
تحریر: عزیز سنگھور – زرمبش مضمون
زیرِ نظر تصویر محض ایک احتجاجی لمحہ نہیں، بلکہ تاریخ، نسل، رشتہ اور تحریک کا ایک مکمل فریم ہے۔ یہ تصویر ان بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی ہے، جو آج کل اسلام آباد کی سنگلاخ فضا میں انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ان کے چہروں پر درد بھی ہے اور سوال بھی ہے۔
تصویر میں ایک چہرہ ایسا ہے جو ان سب کے درمیان پُرعزم اور متحرک دکھائی دیتا ہے۔ وہ چہرا ایمان مزاری کا ہے۔ ایمان مزاری نہ صرف مزاری قبیلے کی فرزند ہیں، جو بلوچ قوم کی ایک بڑی شاخ ہے، بلکہ ان کی کھلی حمایت، عدالتی وکالت اور مزاحمتی قیادت دراصل اسی "بلوچ نسل” کا ایک فطری تسلسل ہے۔
اگر ہم اس منظرنامے کا تاریخی پس منظر کھوجیں تو نظر آتا ہے کہ یہ سب چہرے، معصومہ بلوچ، سائرہ بلوچ، نادیہ بلوچ، فوزیہ بلوچ، ماہ زیب بلوچ، سب ایک ہی خون کی لڑی، ایک ہی قوم کی شعوری بیداری کا تسلسل ہیں۔
جب بھی آئین کی بات ہو، جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند ہو، اور طاقتوروں سے سوال پوچھا جائے، ایک نام ابھر کر سامنے آتا ہے وہ نام ایمان مزاری کا ہے۔ وہ محض ایک وکیل نہیں، وہ صرف انسانی حقوق کی کارکن نہیں، بلکہ وہ آج کی بلوچ بیٹی ہے، جو ظلم کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیتی ہے۔
سنہ 2023 میں جب بلوچ نوجوان بالاچ بلوچ کو سی ٹی ڈی نے فیک انکاؤنٹر میں قتل کیا، اور اس کے اہل خانہ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا، تو یہی ایمان مزاری تھی جس نے نہ صرف کھل کر اس ظلم کی مذمت کی، بلکہ اسلام آباد کی عدالتوں میں اس مسئلے کو اس انداز سے اٹھایا کہ بلوچ اسیران کی رہائی ممکن ہو سکی۔
ایمان نے صرف قانونی جنگ نہیں لڑی، بلکہ ریاست کے بے رحم چہرے کو آئین کے آئینے میں دکھایا۔
جولائی 2025 کے دوسرے ہفتے کو جب بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما دوبارہ اسلام آباد پہنچے، تو اسلام آباد پولیس نے ایک بار پھر پرانی روش دہرائی۔ پریس کلب جانے سے روکا گیا، رہائش گاہ پر چھاپے مارے گئے، مالک مکان کو دھمکیاں دی گئیں۔ مگر ایمان مزاری نے ایک بار پھر سرکاری چہروں کو للکارا اور کھل کر اس ظلم کے خلاف کھڑی ہو گئیں۔ احتجاج کا سلسلہ ہنوز بھی جاری ہے۔ جہاں انتظامیہ اور لاپتہ افراد کے درمیان جنگ کا سما ہے۔
آج ایمان مزاری صرف شیریں مزاری کی بیٹی نہیں بلکہ وہ بلوچ دھرتی کی بیٹی ہے۔ وہ بلوچ شناخت کی وکیل، لاپتہ افراد کی ہمراز، اور آئین کی محافظ ہے۔
ایمان مزاری اس سچائی کی علامت ہے جو بندوقوں، مقدموں اور جیلوں سے مرعوب نہیں ہوتی۔ وہ مزاری قبیلے کی "شیرزال” (شیرزادی) ہے اور آج ہر بلوچ، ہر مظلوم، اور ہر انصاف پسند شخص کے دل میں وہ صرف وکیل نہیں، امید کی ایک روشنی ہے۔
ایمان مزاری کا تعلق بلوچ قوم سے ہے، جس کی تاریخ قربانی اور مزاحمت سے عبارت ہے۔ مزاری قبیلہ بلوچوں کے بڑے اور تاریخی قبائل میں شمار ہوتا ہے۔ مزاری بلوچی لفظ مزار سے ماخوذ ہے جس کا مطلب بلوچی زبان میں "شیر” ہے۔ روجھان مزاری سمیت ڈیرہ جات، جو کبھی بلوچستان کا حصہ ہوا کرتا تھا، آج پنجاب کا حصہ ہے۔ لیکن مزاری قبیلہ آج بھی یاد رکھتا ہے کہ اس کی زمین، اس کی شناخت، اس کا لہو کہاں سے جڑا ہے۔
اس قبیلے کی 170 سے زائد شاخیں ہیں، جن میں بالاچانی، لہلانی، دولانی، سنجرانی، گہلانی، عمرانی، گلرانی، لاٹھاڑی اور کئی دیگر شامل ہیں۔ پنجاب کے علاقوں جیسے رحیم یار خان، صادق آباد، چوک سویترا، احمد ہور، علی پور، ڈیرہ غازی خان سے لے کر سندھ کے کچے کے علاقوں تک، مزاری قبیلہ آج بھی اپنی شناخت کے ساتھ موجود ہے۔
ایمان مزاری کی پہچان صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ سینیئر سیاستدان شیریں مزاری کی بیٹی ہیں، بلکہ اس لیے ہے کہ وہ اس ریاستی جبر کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں جسے باقی اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیاں ہوں صحافیوں پر حملے، یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت ہوں۔ ایمان ان معاملات پر نہ صرف آواز اٹھاتی ہیں بلکہ عدالت میں ان کا دفاع بھی کرتی ہیں۔
ناروے کے "ورلڈ ایکسپریشن فورم” نے انہیں "ینگ انسپرائریشن ایوارڈ” سے نوازا۔ نوبل انعام یافتہ صحافی ماریا ریسا نے یہ ایوارڈ ایمان کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ "یہ وہ آواز ہے جو خاموشوں کی نمائندہ ہے”۔
ایمان مزاری کے پاس موروثی شناخت ضرور ہے، مگر انہوں نے اپنی پہچان خود تخلیق کی ہے۔ وہ ہر اس شخص کے لیے امید ہیں جو چاہتا ہے کہ پاکستان قانون، عدل، اور آزادیِ اظہار کے راستے پر چلے۔
ایمان کو جیل میں ڈال کر، یا مقدمے قائم کر کے نہیں روکا جا سکتا۔ وہ ایک نظریہ بن چکی ہیں اور نظریات کبھی گرفتار نہیں ہوتے۔