
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ نوشکی میں قابض پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں ہمارے سرمچاروں نے دشمن کے کم از کم سات اہلکاروں کو ہلاک کیا جبکہ بلوچ لبریشن آرمی کے چار سرمچار جامِ شہادت نوش کرگئے۔ اس کے علاوہ سوراب حملے میں زخمی ہونے والے بی ایل اے کے جانباز ساتھی نے بھی زخمی ہونے کے چند روز بعد شہادت کا عظیم مقام حاصل کیا۔
ترجمان نے کہا کہ قابض ریاست نے 19 جولائی کو نوشکی کے پہاڑی سلسلے میں بڑے پیمانے پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا۔ اس جارحیت میں دشمن کو ہیلی کاپٹروں اور ڈرونز کی مدد حاصل تھی۔ دشمن کی اس پیش قدمی کو روکنے کیلئے ہمارے سرمچاروں نے مؤثر مزاحمت کی اور مختلف مقامات پر حملے کیئے۔
انہوں نے کہا کہ تین روز تک جاری رہنے والی اس فوجی جارحیت کے دوران ’شیشاری‘ کے مقام پر دوپہر کے وقت ہمارے سرمچاروں اور دشمن فوج کے درمیان دو بدو لڑائی کا آغاز ہوا، جو دو دن تک جاری رہی۔ اس لڑائی میں دشمن کے کمانڈوز کو فضائی کمک حاصل تھی۔ مزاحمت کے دوران دشمن کے سات کمانڈوز ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اس شدید جھڑپ میں ہمارے چار سرمچار، کمانڈر چیئرمین صفیان کرد، فدائی رشید بزدار، سنگت نبیل بادینی اور سنگت خالد فاروقی محمد حسنی، بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہید صفیان کرد عرف چیئرمین شاشان ولد میر سعید کرد کا تعلق بولان کے علاقے دشت، جلب گندان دروازوئی سے تھا۔ آپ بابو عبدالرحمٰن کرد جیسے سیاسی، ادبی و صحافتی شخصیت کے پوتے تھے۔ یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں پولیٹیکل سائنس کے طالب علم رہنے والے صفیان کرد بلوچ طلباء سیاست میں متحرک رہے اور ایک سال قبل بی ایل اے سے منسلک ہوئے۔ قلیل عرصے میں اپنی ذہانت اور جنگی صلاحیتوں کی بنیاد پر بطور کمانڈر منتخب ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید صفیان نے نوشکی، شور پارود اور خاران کے محاذوں پر دشمن کو کاری ضربیں لگائیں اور آخری لمحے تک وطن سے وفا کا حق ادا کیا۔
بی ایل اے نے بیان میں کہا کہ شہید رشید بزدار عرف میرل ولد حافظ امام دین کا تعلق ڈی جی خان کے علاقے اللہ آباد سے تھا۔ آپ نے ایلمنٹری کالج ڈی جی خان سے تعلیم حاصل کی اور 2022 میں بی ایل اے سے منسلک ہوئے۔ آپ نے ایک سال بعد مجید برگیڈ میں شمولیت اختیار کی اور درہ بولان و ھیروف جیسے بڑے آپریشنز میں حصہ لیا۔ شہید رشید نے زخمی ہونے کے باوجود دشمن سے لڑائی جاری رکھی، اور گولیاں ختم ہونے پر فدائی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنی آخری گولی خود پر چلا کر دشمن کو گرفتاری کا موقع نہ دیا۔
ترجمان نے کہا کہ شہید سنگت نبیل بادینی عرف بارگ ولد عنایت اللہ بادینی کا تعلق نوشکی کے علاقے کلی جمال آباد سے تھا۔ چھ ماہ قبل تنظیم سے وابستہ ہونے کے بعد آپ نے لانگ کورس مکمل کیا اور نوشکی کے محاذ پر شاندار خدمات سرانجام دیں۔ ہیلی کاپٹر شیلنگ میں زخمی ہونے کے باوجود شہید نبیل نے آخری سانس تک لڑائی جاری رکھی اور بی ایل اے کے جنگی اصولوں پر عمل پیرا رہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید سنگت خالد فاروقی عرف زبیر ولد عبدالقیوم محمد حسنی کا تعلق اسٹیشن کلی، تفتان سے تھا۔ آپ نے لانگ کورس مکمل کرنے کے بعد نوشکی کے محاذ پر دشمن کے خلاف کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وطن سے وفا کا عہد نبھاتے ہوئے شہید خالد نے لڑتے لڑتے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور شہادت کی بلند منزل پر فائز ہوئے۔
ترجمان نے کہا کہ دس جولائی کو سوراب کے علاقے گدر میں دشمن کے مرکزی کیمپ پر ہمارے سرمچاروں نے حملہ کیا اور کیمپ کے دو حصوں پر کنٹرول حاصل کیا۔ اس جھڑپ میں بی ایل اے کے جانباز سرمچار جنید بلوچ زخمی ہوئے، جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ شہید جنید عرف کنگ ولد نور احمد کا تعلق نوشکی کے علاقے زور آباد سے تھا۔ 2024 میں بی ایل اے سے منسلک ہونے کے بعد آپ نے قلات، نوشکی اور خاران کے محاذوں پر دلیرانہ خدمات انجام دیں۔ کم عمری میں ہی جہد و قربانی کا علم بلند کرنے والے جنید نے سوراب آپریشن میں جرأت و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔
بلوچ لبریشن آرمی اپنے ان عظیم شہداء کو سرخ سلام پیش کرتی ہے، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دشمن کی جارحیت کے سامنے مزاحمت کی ناقابلِ فراموش مثالیں قائم کیں۔ یہ شہادتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ قابض ریاست تمام تر ٹیکنالوجی، فضائی قوت اور عسکری برتری کے باوجود بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے میں ناکام رہی ہے۔
آخر میں ترجمان نے کہا کہ بی ایل اے واضح کرتی ہے کہ دشمن کی ہر جارحیت کا جواب پہلے سے زیادہ شدت اور حکمت کے ساتھ دیا جائے گا۔ بی ایل اے کے سرمچار اپنے شہید ساتھیوں کے مشن کو جاری رکھیں گے، اور بلوچ قومی آزادی کی اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانا ہمارا ناقابلِ تنسیخ عزم ہے۔