ایران اسرائیل کشیدگی اور فلسطین تنازعہ: اور بلوچ نقطہ نظر

تحریر: رامین بلوچ (آخری حصہ)

1…… یہودی موقف: یہودیوں کا ماننا ہے کہ فلسطین ان کا تاریخی اور مذہبی وطن ہے، جس سے وہ جبراً نکالے گئے اور اب وہ دوبارہ اپنے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیل ان کا قانونی ریاست ہے، جسے اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہے۔
2…… عرب/فلسطینی موقف: فلسطینی عرب سمجھتے ہیں کہ وہ صدیوں سے اس سرزمین کے باشندے ہیں، اور ان کے آباؤ اجداد یہاں آباد تھے۔ وہ اسرائیل کو ایک نوآبادیاتی ریاست مانتے ہیں، جس نے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا۔
اگر تاریخی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو فلسطین پر دونوں اقوام کا دعویٰ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ یہاں یہودی اور عرب دونوں کئی صدیوں سے موجود رہے ہیں۔ اس بنا پر بہت سے امن پسند حلقے اور ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ فلسطین دونوں اقوام کا مشترکہ وطن ہو سکتا ہے، بشرطیکہ باہمی احترام، مساوات اور انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔
اسرائیل-فلسطین تنازعہ محض ایک زمینی تنازعہ نہیں بلکہ یہ مذہبی تنازعہ ہے۔تاریخی حقائق کو لے کر یہ مشکل نہیں کہ فلسطینی سرزمین دونوں اقوام کا مشترکہ ورثہ رہی ہے۔ اس لیے دیرپا امن اسی صورت ممکن ہے جب دونوں فریق ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں اور ایک منصفانہ حل کی طرف بڑھیں۔
بلوچستان کی تاریخ، ثقافت، اور جغرافیہ ایک الگ اور مکمل قومی وحدت کے طور پر صدیوں سے قائم ہے۔ لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں برطانوی سامراجی منصوبہ بندی اور جیو اسٹریٹیجک مفادات نے اس تاریخی وطن کو نہ صرف ٹکڑوں میں بانٹا بلکہ بلوچ قوم کو افغانستان، ایران اور بعد ازاں پاکستان کی سرحدوں میں تقسیم کر دیا۔ 1893ء میں ڈیورنڈ لائن اور 1929ء میں گولڈ سمتھ لائن جیسی مصنوعی لکیروں نے بلوچ قومی وجود کے جغرافیہ پر گہرے زخم ثبت کیے۔ اس مضمون میں ہم اس تاریخی تقسیم کے پس منظر، سامراجی عزائم، موجودہ حالات اور بلوچ قومی سوال کا جائزہ لیں گے۔
انیسویں صدی کے آخر میں "گریٹ گیم” کے دوران برطانیہ اور روس نے وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے تزویراتی چالیں کھیلیں۔ برطانیہ نے بلوچستان کو ایک بفر زون کے طور پر دیکھا تاکہ روسی اثر کو ہندوستان سے دور رکھا جا سکے۔ اسی مقصد کے تحت:)ڈیورنڈ لائن (1893ء برطانیہ نے افغان امیر عبدالرحمن خان کے ساتھ معاہدہ کر کے بلوچستان کے شمال مشرقی علاقوں کو افغانستان میں شامل کر دیا۔
گولڈ سمتھ لائن (1929ء)برطانیہ نے مغربی بلوچستان کو، جو تاریخی طور پر بلوچوں کی سرزمین تھی، ایران کے حوالے کر دیا۔یہ دونوں اقدامات محض تزویراتی چالیں تھیں، جن کا مقصد بلوچ قوم یا ان کی رائے نہیں بلکہ برطانوی سامراجی مفادات کا تحفظ تھا۔
گولڈ سمتھ لائن کے ذریعے بلوچ وطن کو ایران اور ڈیورنڈ لائن کے ذریعے افغانستان میں تقسیم کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ سامراجی طاقتیں صرف جغرافیہ کی بنیاد پر اقوام کی قسمت کا فیصلہ کرتی تھیں، نہ کہ ان کی قومی شناخت یا تاریخی وحدت کے مطابق۔ اس جبری تقسیم کے نتیجے
میں:بلوچ قوم تین مختلف ریاستی نظموں میں جکڑ دی گئی۔مشترکہ تاریخ، زبان، ثقافت اور روایات کے حامل ایک قوم کو مصنوعی سرحدوں کے ذریعے جدا کر دیا گیا۔ہزاروں بلوچ خاندان سرحدوں کے دونوں جانب بکھر گئے
پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان 1948ء کے بعد سے مزاحمت، عسکری آپریشنز، اور قومی غلامی کا شکار ہے۔ قدرتی وسائل کی لوٹ مار، جبری گمشدگیاں، اور ریاستی جبر نے بلوچ عوام کو کرب کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔
بلوچستان کی تقسیم محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سامراجی پالیسی کا شاخسانہ ہے جس کا مقصد ایک قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اسے کمزور کرنا تھا۔ ڈیورنڈ لائن اور گولڈ سمتھ لائن آج بھی بلوچ قومی وحدت کے راستے میں زنجیر بنی ہوئی ہیں۔ اس سچائی کا ادراک کرنا اور اسے دنیا کے سامنے اجاگر کرنا نہ صرف بلوچ دانشوروں بلکہ تمام انصاف پسند اقوام کا فرض ہے
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اب تک بلوچ مسئلے پر سنجیدہ اور منصفانہ موقف اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس موجود ہیں مگر ان پر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔ بلوچ قوم کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر خاموشی ایک طرح سے سامراجی جرائم کی تائید ہے۔
قوموں کی جغرافیائی وحدت کو مصنوعی سرحدوں سے تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچ قوم آج بھی اپنے قومی تشخص، آزادی اور وحدت کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سامراجی لکیریں ہمیشہ عارضی ثابت ہوئی ہیں۔ بلوچ قوم کی آواز، چاہے ایران سے اٹھے،
افغانستان سے یا پاکستان سے، ایک دن ان لکیروں کو مٹا کر اپنی وحدت کا اعلان ضرور کرے گی۔
اس زمینی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاایران کے نیوکلئیر عزائم، شام اور لبنان میں اس کی پراکسیز،اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ خود ایک جارح سامراجی ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایسے میں اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑچکی ہے تو
بلوچ قوم کو اس تنازعے میں کوئی جذباتی یا مذہبی موقف نہیں اپنانا چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر بین الاقوامی تنازع میں قومیں اپنے قومی مفاد کے تحت پوزیشن لیتی ہیں۔ ایران، سعودی عرب، ترکی، اسرائیل یا فلسطین — سب اپنی سیاسی بقا اور قومی مفاد کے لیے کھیل رہے
ہیں۔ اس تناظر میں بلوچ قوم کا بھی اصولی موقف یہ ہونا چاہیے:
1…… اسرائیل-ایران کشیدگی کا تجزیہ بلوچ مفاد کی روشنی میں کیا جائے۔
2…… بلوچ قوم عالمی برادری میں اپنی آواز بلند کرے اور بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ تیز کرے ۔
3…… اسرائیل سمیت تمام عالمی طاقتوں سے سفارتی چینل استوار کیے جائیں تاکہ بلوچ تحریک کو عالمی پذیرائی حاصل ہو۔
4…… کسی مذہبی، مسلکی یا فرقہ وارانہ بیانیے کا حصہ بننے سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
بلوچ قوم کو جذباتی ردعمل کی بجائے جدلیاتی شعور اور تاریخی مادیت پر مبنی تجزیے کی ضرورت ہے۔ ہم مظلوم اور ظالم کی سطحی تقسیم سے ہٹ کر عالمی سیاست کے پیچیدہ تضادات کو سمجھیں، تاکہ ہماری تحریک بین الاقوامی تعلقات میں ایک باشعور، بالغ اور مؤثر قوم کی صورت میں ابھرے۔ ہمیں دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ بلوچ قوم نہ کسی کا پراکسی ہے، نہ کسی کی مذہبی جنگ کا حصہ۔ ہم صرف اپنے آزادی، خودمختاری اور قومی وقار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

آج جب ہم اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، تو اس جدوجہد کو ایک نئی فکری سطح پر لے جانے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی سطح، جہاں تجزیے کی بنیاد جدلیاتی شعور اور تاریخی مادیت پر رکھی جائے۔بلوچ قوم نے دنیا پر یہ واضح کر دیا ہے کہ بلوچ تحریک خالصتاً بلوچ آزادی کی تحریک ہے۔یہ نہ کسی مذہب کی بنیاد پر ہے، نہ کسی مذہبی انتہاپسندی کا حصہ ہے، نہ ہی کسی عالمی طاقت کے مفادات سے جڑی ہوئی ہے۔یہ نہ کسی سرد جنگ کا تسلسل ہے، نہ کسی نیو ورلڈ آرڈر کا جزو۔یہ تحریک نہ کسی پراکسی جنگ کا حصہ ہے، نہ کسی عالمی بلاک میں شامل ہے، اور نہ ہی کسی بیرونی ایجنڈے کا حصہ۔

بلوچ تحریک کوئی حالیہ یا عارضی ابھار نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں کالونیل تاریخ اور نوآبادیاتی استحصال میں پیوست ہیں۔1839 میں قلات پر انگریزوں کے قبضے سے لے کر، 1948 میں بلوچستان کے جبری انضمام تک، بلوچ قوم نے مسلسل نوآبادیاتی جبر اور استحصال کا سامنا کیا ہے۔

آج بلوچ مزاحمت کار اپنی آزادی کے لیے پنجابی نوآبادیاتی نظام کے خلاف صف آرا ہے۔ پنجابی استعمار نہ صرف بلوچ سرزمین کے وسائل کو لوٹ رہا ہے، بلکہ اپنی اسٹرٹیجک مفادات کے لیے بلوچ سرزمین کے وسائل کو بلوچ مرضی و منشاء کے بغیر نہ صرف چینی سامراج کو سونے میں پیش کردیا ہے بلکہ دیگر سرمایہ دار کمپنیوں کو بلوچ وسائل لوٹنے میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔

بلوچ قومی اداروں، تنظیموں اور سیاسی قیادت پر یہ وقت کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ ان عالمی سرمایہ دار کمپنیوں کو واضح پیغام دیں جو پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں شریک ہیں۔ یہ کمپنیاں بلوچ آزادی کے بغیر کسی بھی تجارتی منصوبوں میں شامل نہیں ہوسکتے بلکہ ان کا یہ عمل نہ بلوچ آزادی پر ڈاکہ ڈالنے بلکہ پاکستانی ریاست کے نوآبادیاتی قبضے کو مضبوط کرنے کا حصہ بن چکی ہیں۔ریکوڈک میں Barrick Gold، سیندک میں MCC (چینی کمپنی) اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیاں جان لیں کہ بلوچ قوم اپنی سرزمین کے وسائل پر کسی قبضے کو قبول نہیں کرے گی۔ ان کمپنیوں کو تنبیہ کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیاں فوری بند کریں اور بلوچ وسائل سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں۔ بصورتِ دیگر وہ بلوچ عوام کے خلاف تاریخی جرائم میں شریکِ جرم سمجھی جائیں گی۔

عالمی قوانین کے مطابق ہر قوم کو اپنے وسائل اور زمین پر مکمل حق حاصل ہے۔ بلوچ عوام کی یہ جدوجہد نہ صرف جائز ہے بلکہ ایک بنیادی انسانی و قومی حق ہے۔ بلوچ سیاسی اداروں اور ڈائسپورا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر بھی بلوچ کیس کو مضبوط انداز میں پیش کرے اور یہ واضح کرے کہ عالمی سرمایہ دار کمپنیاں اگر پاکستان کے ساتھ بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں شریک رہیں تو ان کے خلاف سیاسی، سفارتی اور مزاحمتی راستہ اپنایا جائے گا۔

بلوچ قومی اداروں کو ایک واضح روڈ میپ اور لائحہ عمل بناتے ہوئے عالمی برادری، انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی میڈیا کو اس ظلم و استحصال سے تیزی سے آگاہ کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ان سرمایہ دار کمپنیوں کے دفاتر اور نمائندہ دفاتر کے سامنے احتجاجی مظاہرے، عالمی عدالت انصاف میں کیس، اور سوشل میڈیا پر موثر مہم چلانا وقت کی ضرورت ہے۔ بلوچ قوم اپنی سرزمین، وسائل اور آزادی کے لیے آخری حد تک مزاحمت کرے گی اور یہ پیغام عالمی ایوانوں میں گونجنا چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچ نوجوان اور سوشل میڈیا: امکانات اور چیلنجز!

بدھ جولائی 23 , 2025
تحریر: معید بلوچزرمبش مضمون سوشل میڈیا کی پرائیویسی ایک اہم اور پیچیدہ موضوع ہے جو آج کے ڈیجیٹل دور میں ہر صارف کے لیے قابل توجہ ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر، واٹس ایپ، اور ٹک ٹاک نے جہاں لوگوں کو رابطوں، معلومات کے تبادلے، […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ