
تحریر؛ رامین بلوچ (آخری حصہ)
زرمبش مضمون
بلوچ فطرتاً آزاد ہے، اور محبت کو بھی ایک آزاد عمل کے طور پر دیکھتا ہے۔غیرت کے نام پر قتل، عورت دشمنی یا محبت دشمنی کا کوئی جواز بلوچ تاریخی شعور میں نہیں ملتا۔بلوچ کی جمالیاتی روح اور اجتماعی شعور ہمیشہ آزادی، محبت اور انسانی احترام کا علمبردار رہا ہے۔
بلوچ سماج میں محبت ایک روحانی، جمالیاتی اور اخلاقی قدر ہے۔ یہ محض ذاتی تعلق نہیں بلکہ سماجی تخلیق اور اظہارِ آزادی کا حصہ ہے۔بلوچ تاریخ میں محبت اور نسوانی آزادی کے بے شمار استعارے موجود ہیں۔ ان داستانوں میں عورت ایک کمزور یا محکوم شے نہیں بلکہ تخلیقی قوت، حسن، محبت اور سماجی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر سامنے آتی ہے۔مکران کے ریگزاروں سے لے کر کیچ کے پہاڑوں تک، سسی و پنوں کی محبت بلوچ معاشرت کی جمالیاتی اساس بن چکی ہے۔ سسی ایک بااختیار عورت ہے جو خود اپنی محبت کے لئے نکلتی ہے۔ یہ روایت بلوچ نسوانی خودمختاری کا ثبوت ہے۔۔—
ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ رومانویت اور نسوانی آزادی کی اس تاریخی روایت کو دوبارہ زندہ کیا جائے، اور سامراجی و مذہبی جبر کی پیدا کردہ جھوٹی غیرت کے تصورات کو رد کیا جائے۔بلوچ سماج میں حانی، سسی، سمو، اور گراہناز کے کردار نہ صرف ایک تہذیبی استعارہ ہیں بلکہ مستقبل کے لئے ایک رہنما اصول بھی ہیں۔آج جب دنیا جبر، تشدد، عورت دشمنی اور مذہبی جنونیت میں الجھی ہوئی ہے، بلوچ سماج کی یہ رومانوی و جمالیاتی روایت ایک انقلابی پیغام ہے:عورت کو قید نہ کرو، اسے آزاد محبت کرنے دو،محبت جرم نہیں، فطری عمل ہے سماج کو عشق، جمال اور رومانویت کے راستے پر لے جاؤ، یہی بلوچ قومی اقدار کا اصل حسن ہے بلوچ سماج کا عشق پرور، فطرت دوست، جمالیاتی فلسفہ دراصل ایک عظیم انقلابی بیانیہ ہے جو دنیا کو جبر اور نفرت سے نکال کر محبت اور آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔
آج ایک دفعہ پھر تاریخ خود کو دہرارہی ہے بلوچ عورت ایک بار پھر اپنی انقلابی شناخت کو بحال کررہی ہے۔ وہ قابض کے خلاف مزاحمت میں اپنی جگہ لے رہی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ ،سمی دین بلوچ، ڈاکٹر شلی بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، اور درجنوں گمنام مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اس تسلسل کی نمائندگی کرتی ہیں جو مہرگڑھ کی مٹی کی مورت سے لے کر جدید مزاحمتی تحریک تک پھیلا ہوا ہے۔
بلوچ عورت آج استعمار کے ہر مکروہ شکل، ہر فرسودہ روایت اور نوآبادیاتی بیانیے کو بھی چیلنج کررہی ہے جوبلوچ عورت کوسیاسی جدوجہد اور مزاحمت سے مثتثنی قرار دیتاآ رہاہے ۔
بلوچ تاریخ میں عورت کا تصور صرف صنفی دائرے میں محدود نہیں رہا۔ بلوچ عورت اپنے وجود میں مزاحمت، محبت، علم، جنگ، قربانی اور وقار کا وہ استعارہ ہے جو مہرگڑھ کے قدیم تہذیبی نقوش سے لے کر آج کے استعماری قبضہ کے خلاف جنگی مورچوں تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ عورت صرف کسی کی ماں، بیٹی یا بیوی کے رشتوں میں قید نہیں بلکہ خود اپنی ذات میں ایک تاریخ، ایک داستان، ایک تسلسل ہے جو کبھی یش شاری، سمیعہ ، ماحل، گنجاتوں بن کر استعماری نظام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی رہی۔
بلوچ سماج کی قدیم ساخت میں عورت محض گھر کی چار دیواری میں قید نہیں تھی۔ مہرگڑھ کی تہذیب، جسے دنیا قدیم ترین زرعی ثقافتوں میں شمار کرتی ہے، وہاں عورت مرکزیت میں تھی—وہ زراعت کی موجد، سماجی نظم کی ضامن، اور روحانی و تمدنی قوت کی علامت تھی۔
بلوچ عورت اپنے قوم، اپنے کوڈ آف اونر اور اپنی زمین کے لیے تلوار بھی اٹھاتی رہی ہے اور قلم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ رومانویت میں جہاں محبت کی داستانیں ہیں، وہاں عورت کی جرات و مزاحمت بھی نمایاں ہے۔
جب استعماری طاقتوں نے بلوچستان کو اپنے پنجوں میں جکڑا، تو صرف سرزمین نہیں چھینی گئی بلکہ بلوچ سماجی اقدار، بلوچ عورت کی آزادی اور سماجی حیثیت کو بھی نشانہ بنایا گیا۔بلوچستان میں نوآبادیاتی حملہ صرف بندوقوں سے نہیں ہوا بلکہ فکر و تہذیب پر بھی چوٹ کی گئی۔ عورت کو، جو ماضی میں مزاحمت کا استعارہ تھی، جان بوجھ کر غیر فعال کردار میں دھکیلا گیا، اسے "غیرت” کے نام پر قید کیا گیا، اس کے وجود پر جھوٹے اقدار کے پردے ڈالے گئے۔یہ سب نوآبادیاتی ریاستی بیانیے کا حصہ تھا تاکہ ایک مزاحم قوم کو کمزور کیا جائے، اور اس کی نصف آبادی کو غلامی کے ایک نئے قالب میں ڈھالا جائے۔بلوچ عورت آج صرف قابض فوجی جبر کے خلاف ہی نہیں لڑ رہی بلکہ وہ استعمار کے لائے ہوئے ہر فکری زہر کے خلاف بھی صف آرا ہے۔ وہ اس بیانیے کو بھی چیلنج کر رہی ہے جو عورت کو "سیاسی جدوجہد سے مستثنیٰ” کرنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ جانتی ہے کہ استعماری ریاستیں ہمیشہ سماج کی آدھی آبادی کو غیر سیاسی رکھ کر قوموں کو غلام بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ عورت اب نہ صرف اپنی آزادی بلکہ اپنے پورے قوم کی آزادی کی ضامن بن رہی ہے۔
عورت کی آزادی محض جنس کی آزادی نہیں، یہ وجودی اور فکری آزادی ہے۔ جب بلوچ عورت مزاحمت میں اپنی جگہ بناتی ہے تو وہ نہ صرف جغرافیہ بچا رہی ہوتی ہے بلکہ ایک تہذیب، ایک زبان، ایک فکر کو تحفظ دے رہی ہوتی ہے۔عورت جب مزاحمت کرتی ہے تو وقت کے جبر کے سامنے محض فرد نہیں کھڑا ہوتا بلکہ پورا زمانہ اس کی پشت پر آ کھڑا ہوتا ہے
بلوچ قوم آج جس دوراہے پر کھڑی ہے، وہاں اسے صرف بیرونی سامراجی قوتوں کا سامنا نہیں بلکہ اندرونی تضادات، قبائلی فرسودگیوں، اور سماجی جمود کی بھی شدید مزاحمت کرنا پڑ رہی ہے۔ ان میں سب سے بھیانک مظہر "غیرت کے نام پر قتل” جیسا جاہلانہ فعل ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہے بلکہ بلوچ تہذیب، روایت، اور قومی مزاحمتی بیانیہ کی کھلی توہین بھی ہے۔بلوچ سماج تاریخی طور پر ایک مہذب، سیکولر اور آزاد منش سماج رہا ہے۔بدقسمتی سے آج بعض مخصوص سرداری مفادات، قبائلی جاہلیت اور ریاستی سازشوں کے تحت بلوچ سماج میں وہ رسمیں دوبارہ پروان چڑھائی جا رہی ہیں جن کا بلوچ اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ غیرت کے نام پر قتل ایک قبائلی فرسودگی ہے، جسے نوآبادیاتی قوتوں اور موجودہ ریاستی ڈھانچے نے بلوچ سماج پر مسلط کیا۔ ان واقعات پر خاموشی اختیار کرنا، دراصل بلوچ قومی بیانیہ، مزاحمت، اور تاریخی شعور سے انحراف ہے۔
آج جنگ صرف بندوقوں کے ساتھ بیانیے اور شعور کی سطح پر فیصلہ کن معرکہ ہوتا ہے۔ جب قومیں اپنی تاریخ، اقدار اور تشخص کو پہچان لیتی ہیں تو انہیں شکست دینا ممکن نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ہمیشہ تاریخ مسخ کرتا ہے، سماج میں تقسیم پیدا کرتا ہے اور ایسے زخم لگاتا ہے جو معاشرتی انتشار کو بڑھا سکیں۔غیرت کے نام پر قتل اور عورت کو محکوم بنانے کی کوشش دراصل اسی سازش کا حصہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں خاموشی اختیار کرنا جرم ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے قومیں ہار جاتی ہیں، اور یہی وہ مقام ہے جہاں بلوچ نوجوان، دانشور، لکھاری اور مزاحمت کاروں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
وقت آ چکا ہے کہ بلوچ قومی ادارے ایسے سانحات پر اپنے بیانیے کا اظہار کرے۔وہ بیانیہ جو عورت کو زندہ درگور کرنے کے بجائے، اس کے شعور، محبت، مزاحمت اور زندگی کے حق کو تسلیم کرے۔وہ بیانیہ جو سرداری نظام، ملائیت اور نوآبادیاتی قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے فرسودہ ذہنیت خلاف اعلانِ جنگ ہو۔
اگر آج بلوچ نوجوان، لکھاری، صحافی، دانشور، اور ہر وہ شخص جو خود کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ سمجھتا ہے، ان ریاستی سازشوں اور فرسودہ رسومات پر خاموش رہا تو آنے والے کل میں تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔یہ وقت صرف احتجاج کا نہیں بلکہ علمی، نظریاتی ادبی، اور سماجی سطح پر شعور کی بیداری کا ہے۔یہ وقت ہے کہ بلوچ سماج ان روایات کو مسترد کرے جو اسے غلامی اور جہالت کی طرف لے جاتی ہیں۔
کیونکہ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں، ذہنوں اور معاشروں میں بھی لڑی جاتی ہے۔اور بلوچ سماج کے جنگی مورچوں اور سنگر میں اس وقت قلم، بیانیہ، اور شعور بھی شامل ہے۔
آج ڈغاری کے مقام پر گودی بانو بلوچ اور احسان بلوچ کو "غیرت” کے نام پر گولیوں سے بھون دیا گیا، تو یہ واقعہ محض دو انسانی جسموں کے قتل کا واقعہ نہیں تھا۔یہ واقعہ بلوچ قوم کی اس نظریاتی شناخت پر حملہ ہے جو صدیوں سے محبت، رواداری، اور ترقی پسندی کی علمبردار رہی ہے۔یہ قتل ایک مخصوص سوچ، تہذیب اور بلوچ نیشنلزم کے اس روشن پہلو کو مٹانے کی سازش ہے جو آج بھی سامراجی قوتوں اور ان کے
مقامی ایجنٹوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔قدیم بلوچ روایت میں ایسا کوئی تصور نہیں ملتا جس میں دو محبت کرنے والے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کو عزت و وقار سے تعبیر کیا گیا ہو۔یہ دراصل نوآبادیاتی دور کے بعد پیدا ہونے والی وہ زہریلی سوچ ہے جسے مذہبی شدت پسندوں، سامراجی آلہ کاروں اور قبائلی سرداری نظام نے پروان چڑھایا تاکہ بلوچ سماج کو اس کی اصل شناخت سے کاٹ دیا جائے۔گودی بانو اور احسان بلوچ کا قتل محض دو نوجوانوں کا قتل نہیں ہے؛ یہ اس سیکولر بیانیے پر حملہ ہے جو بلوچ مزاحمت کی اصل روح ہے۔
یہ واقعہ دراصل سامراجی طاقتوں کی اس پالیسی کا تسلسل ہے جو ہمیشہ سے محکوم قوموں کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے ان کی سماجی اقدار، رشتوں، محبت اور ثقافتی ہم آہنگی کو تباہ کرتی ہے۔بلوچ سماج کو "غیرت” کے نام پر قتل کی راہ پر ڈالنا دراصل ایک نوآبادیاتی ہتھکنڈہ ہے۔
وقت کا تقاضا ء ہے کہ ہم اپنی محبت بھری تاریخ کو، اپنے نیشنلزم کو، اور اپنی فطری انسان دوستی کو دوبارہ زندہ کرے۔ بلوچ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی جنگ صرف زمین کے دفاع کے ساتھ سماجی شعور کی بھی ہے۔ یہ جنگ فکری غلامی کے خلاف ہے، سماجی جمود کے خلاف ہے، اور اس مصنوعی "غیرت” کے خلاف ہے جو دراصل سامراجی تسلط کا آلہ ہے۔محبت بلوچ تہذیب کا ہتھیار ہے۔رواداری بلوچ شناخت کا حصہ ہے۔عورت کی آزادی بلوچ سماج کی ترقی کی ضمانت ہے۔