بلوچستان کا لاپتہ مفکر: عبدالغنی بلوچ کی جبری گمشدگی

تحریر: معید بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچستان کے شہر نوشکی سے تعلق رکھنے والے ممتاز مصنف، پبلشر، ایم فل اسکالر اور سیاسی کارکن عبدالغنی بلوچ پاکستان میں بلوچ حقوق کی جدوجہد میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں۔
25 مئی 2025 کو ان کی جبری گمشدگی نے بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف ایک بار پھر دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔

پس منظر اور خدمات

عبدالغنی بلوچ اپنے فکری، ادبی اور سیاسی کردار کے باعث ایک معتبر حوالہ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ بلوچستان یونیورسٹی میں براہوی زبان کے ماہر ایم فل اسکالر ہیں اور اس وقت اپنے تحقیقی مقالے پر کام کر رہے ہیں۔
بطور ناشر، وہ "زوار پبلشرز” کے مالک ہیں، جس کے ذریعے انہوں نے بلوچ ادب اور ثقافت کے فروغ میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔ ان کی تحقیق اور تحریر بلوچ قوم کے لسانی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے اور آگے بڑھانے کی کوششوں کی آئینہ دار ہیں۔

غنی بلوچ کی سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد بلوچ قوم کے حقوق کی وکالت ہے۔ ایک ایسی قوم جو طویل عرصے سے معاشی پسماندگی، سیاسی محرومی اور ریاستی جبر کا سامنا کر رہی ہے۔
اس سے قبل وہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (BSAC) کے جنرل سیکرٹری اور وائس چیئرمین کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے انہوں نے بلوچ نوجوانوں میں سیاسی اور سماجی شعور اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
فی الحال وہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن ہیں۔ یہ سیاسی جماعت پاکستان کے اندر بلوچ قوم کے حقوق اور خودمختاری کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔

جبری گمشدگی اور عوامی ردعمل

25 مئی 2025 کی شب غنی بلوچ کو، اطلاعات کے مطابق، پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے اغوا کر لیا۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مطابق، ان کی گاڑی کو خضدار کے قریب آر سی ڈی ہائی وے پر فرنٹیئر کور اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے روکا۔ اس کے بعد سے ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں، اور ان کے اہلِ خانہ، دوستوں اور ساتھیوں کو ان کی خیریت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔
یہ واقعہ شدید خدشات اور غم و غصے کا باعث بنا۔

5 جون 2025 کو نوشکی میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ منعقد ہوا۔ خواتین، بچے اور نوجوان نوشکی پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے، پلے کارڈز اٹھائے اور غنی بلوچ کی فوری رہائی کے مطالبے کے حق میں نعرے بلند کیے۔
این ڈی پی نے عبدالغنی بلوچ کی گمشدگی کو آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی قرار دیا، خاص طور پر آرٹیکل 10 اور 10-A کی، جو من مانی حراست سے تحفظ اور منصفانہ ٹرائل کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔

پارٹی نے بلوچستان ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن اور خضدار کی سیشن کورٹ میں فوجداری مقدمہ دائر کیا ہے۔ ان درخواستوں میں غنی بلوچ کی بازیابی اور ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر مہم

سوشل میڈیا پر عبدالغنی بلوچ کی رہائی کے لیے ایک بھرپور مہم جاری ہے۔ X (سابقہ ٹوئٹر) پر متعدد صارفین نے انہیں "کتاب کا قاری، محقق اور پبلشر” قرار دیا، جس کا "واحد جرم” سماجی تبدیلی کی کوشش ہے۔
کچھ حلقوں نے ان کی گرفتاری کو ایک "سیاسی انتقام” قرار دیا، تاہم چند مخالف آراء نے اس مہم کو "ڈس انفارمیشن سٹنٹ” کہا، جو پاکستان میں بلوچ سرگرمیوں کے گرد موجود پولرائزڈ بیانیہ کی عکاسی کرتا ہے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا پس منظر

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک طویل عرصے سے جاری مسئلہ ہیں۔ کارکنان، طلبہ اور سیاسی شخصیات اکثر ریاستی اداروں کے نشانے پر رہتے ہیں۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے پاکستانی حکام پر الزام لگایا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے جابرانہ اقدامات کرتے ہیں اور انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا غلط استعمال کرتے ہوئے پرامن سیاسی سرگرمیوں کو بھی دہشت گردی سے جوڑتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق عبدالغنی بلوچ کی عدالت میں پیشی کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کیے اور ضروری دستاویزات فراہم نہیں کیں، جس سے معاملہ مزید الجھ گیا۔

مزاحمت کی علامت

این ڈی پی نے عبدالغنی بلوچ کو "اسکالر، مفکر اور نوجوانوں کی آواز” قرار دیا ہے۔
وہ اس پڑھی لکھی بلوچ نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو قبائلی قیادت کی محدودیت سے نکل کر جدوجہد کو ایک وسیع تر، عوامی اور سیاسی تحریک میں ڈھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کی جبری گمشدگی نے نہ صرف بلوچ سماج بلکہ سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافتی حلقوں اور بین الاقوامی برادری کو بھی متحرک کر دیا ہے۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ جب تک غنی بلوچ کی بحفاظت واپسی ممکن نہیں ہوتی، وہ احتجاج، قانونی جنگ اور میڈیا مہم جاری رکھے گی۔

عبدالغنی بلوچ کی جبری گمشدگی بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے بحران کا ایک الم ناک مظہر ہے۔
ایک اسکالر، مصنف اور کارکن کے طور پر ان کا کردار بلوچ سماج میں شعور اور مزاحمت کی نئی راہیں کھولنے کی علامت رہا ہے۔
ان کی گمشدگی نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ پاکستان میں اختلاف رائے رکھنے والے افراد کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔

غنی بلوچ کی رہائی تک ان کا مقدمہ بلوچستان میں انصاف، آزادی اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد کا طاقت ور بنا رہے گا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

جھاؤ: جبری گمشدگی کے بعد دو اور بلوچ نوجوان قتل

منگل جولائی 22 , 2025
بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے جھل جھاؤ میں آج دو بلوچ نوجوانوں کو پاکستانی فورسز کی پشت پناہی میں کام کرنے والے مسلح گروہ ڈیتھ اسکواڈ کارندوں نے ماورائے عدالت قتل کر دیا۔ مقتولین کو قتل سے چند گھنٹے قبل جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے۔ مقامی ذرائع […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ