بلوچستان کا ننگا سچ

تحریر: عزیز سنگھور ـ زرمبش مضمون

بلوچستان کی سرزمین ایک بار پھر خون میں نہلا دی گئی۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجیدی ڈیگاری مارگٹ میں 3 جون 2025 کو ایک لڑکی اور لڑکے کو غیرت کے نام پر سرعام گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جو 19 جولائی کو سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کی صورت میں دنیا کے سامنے آیا، جس نے بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے حلقوں میں کہرام مچا دیا۔

مارنے جانے والے جوڑے کی شناخت بانو بی بی اور احسان اللہ کے ناموں سے ہوئی۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ نوجوان لڑکی اور لڑکے کو ایک ہجوم کے سامنے، بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ کسی نے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے ان کی فریاد نہیں سنی۔ قاتل نہ صرف پرسکون تھے بلکہ فخر سے گولیاں چلاتے نظر آئے۔ ایک انسان کو مارنے کے بعد دوسری گولی اس کی آنکھ میں مارنا… یہ کوئی غیرت کا معاملہ نہیں تھا، یہ واضح اور منظم وحشت اور طاقت کا مظاہرہ تھا۔

عوامی دباؤں اور واقعے کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد کوئٹہ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے سردار شیر باز ساتکزئی سمیت کئی افراد کو ساتکزئی ہاؤس پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ گرفتاری کسی دباؤ کے تحت کی گئی وقتی کارروائی ہے، یا واقعی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا ارادہ موجود ہے؟

اس بہیمانہ قتل کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ایس ایچ او تھانہ ہنہ اوڑک کی مدعیت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ، دفعہ 302 ت پ اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔

مدعی نے تھانے میں جمع کرائی گئی تحریری درخواست میں بتایا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک مرد و عورت کو گولی مار کر قتل کرتے دکھایا گیا۔ پولیس نے ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی کی اور نفری کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچی۔ ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ واقعہ عیدالاضحیٰ سے تین دن قبل پیش آیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق بانو بی بی اور احسان اللہ کو شاہ وزیر، جلال، ٹکری منیر، بختیار، ملک امیر، عجب خان اور دیگر افراد جن میں جان محمد، بشیر احمد اور مزید 15 نامعلوم افراد شامل تھے، پہلے سردار شیر باز خان کے سامنے پیش کیا گیا۔ سردار نے الزام لگایا کہ دونوں نے کاروکاری کا ارتکاب کیا ہے اور انہیں قتل کرنے کا "فیصلہ” صادر کیا۔

سردار کے اس غیر قانونی فیصلے کے بعد، دونوں مقتولین کو گاڑیوں میں بٹھا کر سنجیدی ڈیگاری مارگٹ لایا گیا، جہاں انہیں سرِ عام گولی مار کر قتل کیا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس دوران واقعے کی ویڈیو بھی بنائی گئی، جسے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے ایک جانب عوام میں خوف و ہراس پھیلایا گیا اور دوسری طرف اسے طاقت اور "انصاف” کے مظاہرے کے طور پر پیش کیا گیا۔

بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں کاروکاری ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جس کے تحت ہر سال درجنوں خواتین اور مرد بےگناہ مارے جاتے ہیں۔ یہ نظام نہ صرف قانون و انصاف کی توہین ہے بلکہ انسانی حقوق کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ جب تک ریاست ان خودساختہ سرداری فیصلوں اور قبائلی "انصاف” کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکتی، ایسے سانحات رکنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس واقعے کی سب سے ہولناک تفصیل مقتولہ کی آخری فریاد ہے، جس میں وہ قاتلوں کے سامنے قرآن پاک اٹھائے کھڑی تھی۔ اس نے کہا: “صرف گولی مارنے کا حق ہے، بس سات قدم ساتھ چلو، پھر مار دینا۔” پھر وہی ہوا، گولی چلائی گئی۔

یہ صرف ایک عورت کا قتل نہیں تھا، یہ بلوچ سماج کے اندر ابھرنے والی عورت کی آواز، بغاوت، اور قیادت کا قتل ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو حکومت کے خلاف کھڑی ہے، جو سرداری نظام کی دیواریں توڑ رہی ہے، جو بلوچ تحریک میں ہراول دستہ بن چکی ہے۔ اسی لیے اس آواز کو قتل کیا گیا، اسی لیے ویڈیو وائرل کی گئی تاکہ خوف پھیلایا جا سکے۔

جب بلوچ عورتیں اپنے لاپتہ شوہروں، بھائیوں، اور بیٹوں کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہیں، حکومتی ادارے لاٹھی چارج کرتے ہیں، گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ اس وقت یہی سردار، نواب، جرگہ و معتبر حضرات خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں۔ ان کی غیرت صرف اُس وقت جاگتی ہے جب عورت اپنے فیصلے خود لینے لگے، جب وہ کسی مرد کے برابر آ کھڑی ہو، جب وہ ظلم کے خلاف زبان کھولے۔

یہی سردار ہر الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں، ان ہی کو وزراتیں دی جاتی ہیں، یہ وہ طبقہ ہے جو ریاست کا اتحادی ہے، نہ کہ بلوچ عوام کے نمائندے ہیں۔

مگر اب بلوچستان بدل رہا ہے۔ وہ بلوچ معاشرہ جس میں کبھی عورت کو پس منظر میں رکھا جاتا تھا، آج عورت فرنٹ لائن پر ہے۔ سنگت ماہ رنگ، ساتھی گلزادی، بانک سمی دین، ڈاکٹر شلی بلوچ، کامریڈ بیبو بلوچ، سائرہ بلوچ، آمنہ بلوچ، ماہ زیب بلوچ، فوزیہ بلوچ، معصومہ بلوچ، سعیدہ… یہ سب نام اس سیاسی تبدیلی کا ثبوت ہیں، جس نے بلوچ تحریک کو مرد و عورت کی تفریق سے نکال کر ایک اجتماعی جدوجہد میں بدل دیا ہے۔

اسی لیے یہ واقعہ محض غیرت کے نام پر قتل نہیں، بلکہ ایک سیاسی واردات ہے۔ اس کا مقصد صرف دو جانیں لینا نہیں، بلکہ بلوچ تحریک کے اندر خوف پھیلانا، خواتین کی شرکت ختم کرنا اور سرداری و ریاستی نظام کا کنٹرول بحال رکھنا ہے۔

بلوچستان کا مقدمہ صرف حقوق کا نہیں، شناخت کا نہیں، یہ ایک "طبقات” کا تصادم بھی ہے۔ ایک طرف وہ عوام ہیں جو آزادی، برابری اور خوداختیاری کے لیے لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور قبائلی نظام ہے، جو ظلم کو روایت اور قتل کو غیرت کہہ کر اپنے اقتدار کو دوام دینا چاہتے ہیں۔

اب فیصلہ بلوچ عوام کو کرنا ہے، وہ سرداروں کی غیرت کا مطلب سمجھیں، یا اپنی بیٹیوں کی آزادی کو ترجیح دیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

جھاؤ: پاکستانی فورسز کے ہاتھوں زیر حراست نوجوان قتل

پیر جولائی 21 , 2025
بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے جھاؤ میں پاکستانی فورسز نے ایک زیرِ حراست نوجوان کو قتل کرکے اس کی لاش پھینک دی۔ ذرائع کے مطابق، قتل کیے گئے نوجوان کی شناخت حمید ولد افضل کے نام سے ہوئی ہے، جو جھاؤ کے علاقے کوٹو کے رہائشی تھے۔ پانچ دن […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ