ایران اسرائیل کشیدگی، فلسطین تنازعہ: اور بلوچ نقطہ نظر

تحریر: رامین بلوچ (پہلا حصہ)
زرمبش مضمون

تمہیدی نوٹ!
یہ تحریر اسرائیل و ایران کشیدگی، فلسطین تنازعہ، اور بلوچ قومی سیاسی و سفارتی موقف کے تناظر میں لکھی گئی تھی۔ اُس وقت مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران کی محاذ آرائی اپنے عروج پر تھی، اور اس پس منظر میں بلوچ قومی تحریک بھی ایک منظم، مربوط اور واضح سیاسی و سفارتی بیانیے کی متقاضی تھی۔

بدقسمتی سے، اس تحریر کی بروقت اشاعت ممکن نہ ہو سکی کیونکہ میں اُس وقت ایک ایسے علاقے میں موجود تھا جہاں انٹرنیٹ کی سہولت معطل تھی۔ تاہم وقت گزرنے کے باوجود، میرے پیش کردہ نکات آج بھی اپنی معنویت، افادیت اور استحکام کے ساتھ قائم ہیں۔ یہ تحریر بلوچ قومی موقف کی ایک دیانتدارانہ اور خالص ترجمانی ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ اس موضوع پر مختلف زاویہ ہائے نظر موجود ہیں۔ بعض احباب میرے مؤقف سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں، اور اختلافِ رائے ہر فرد کا بنیادی اور فطری حق ہے۔ البتہ میں نے یہ تحریر جس نظریاتی پس منظر اور فکری تناظر میں لکھی ہے، اس میں ذاتی طور پر کسی بڑے کمپرومائز کی گنجائش بہت محدود ہے۔

میری کوشش رہی ہے کہ اس تحریر میں بات کو محض جذباتی انداز میں پیش نہ کیا جائے بلکہ تخلیقی استدلال، تجزیاتی معیار اور علمی شائستگی کے ساتھ سامنے لایا جائے۔ تاکہ جو لوگ اتفاق کریں، وہ دلیل کی بنیاد پر کریں اور جو اختلاف کریں، وہ بھی علمی بنیاد پر کریں (رامین بلوچ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی، اور اسرائیل-فلسطین تنازعے کے پس منظر میں، بلوچ لکھاریوں کی جانب سے جو تحریریں سامنے آ رہی ہیں، ان میں کئی جگہوں پر تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ ایک لمحہئ فکریہ ہے۔بحیثیت بلوچ، ہم اس وقت آزادی کی ایک منظم جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں کسی ایک ریاست یا بلاک کے مؤقف کی اندھی پیروی یا یک طرفہ مؤقف اختیار کرنا ہماری سیاسی بصیرت اور جدوجہد کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ہمیں ان کشیدگیوں کو تاریخی، سائنسی اور جدلیاتی بنیادوں پر سمجھ کر ہی کوئی رائے دینی چاہیے۔ کیونکہ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے، اور نہ ہی ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔ تاریخ کا تقاضا ہے کہ ہم ان عالمی جنگوں اور تنازعات کو اپنی قومی جدوجہد، وقت اور عالمی حرکیات کی روشنی میں پرکھیں۔

ہمارے بلوچ میڈیا ادارے بعض اوقات ایسے مضامین دھڑا دھڑ شائع کر رہے ہیں جو تاریخی اور زمینی حقائق سے ماورا ہوتے ہیں۔ میں کوئی بڑا مورخ یا سیاسی دانشور نہیں ہوں، بلکہ بلوچ نیشنلزم کا ایک ادنیٰ طالبعلم ہوں۔ لیکن اس محدود بصیرت کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل و ایران کشیدگی جیسے حساس معاملات پر بلوچ مؤقف مرتب کرنے کے لیے تاریخ اور بین الاقوامی سیاست کا علم ناگزیر ہے۔ان تنازعات میں خود کو اندھا دھند جھونک دینا، یا ان کا غیر سائنسی اور غیر جدلیاتی تجزیہ کرنا، میرے خیال میں علم اور بلوچ قومی تحریک دونوں کی توہین ہے۔ یہ سوال کہ اس صورتحال میں بلوچ قوم کا موقف کیا ہونا چاہیے، اس کا بہتر جواب بلوچ دانشور، سیاسی ادارے اور تھنک ٹینکس دے سکتے ہیں۔ میں ایک معمولی لکھاری ہوں اور شاید اس تصویر کو پوری طرح واضح نہ کر سکوں، لیکن اس کے باوجود، اپنی رائے کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں۔آزادی کی جدوجہد ایک عبوری ریاست کی مانند ہوتی ہے، جو اداروں کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ اس کا ایک سفارتی، سیاسی، داخلی اور خارجی موقف ہوتا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں سوال اٹھانا ہوگا کہ بلوچ قوم کا سفارتی، سیاسی اور نظریاتی مؤقف کیا ہونا چاہیے؟

بلوچ اس وقت اپنی بقا اور آزادی کی ایک منظم اور متحرک جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہماری ڈائسپورا اس جدوجہد میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری آزادی کا امکان نہ صرف موجود ہے بلکہ قریب بھی ہے۔ بلوچ تحریک ایک ٹھوس، ادارہ جاتی حقیقت بن چکی ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں مطلوبہ نتائج کے قریب تر پہنچ چکی ہے۔ یہ تحریک آج اس تاریخی مقام پر ہے جہاں وہ کسی بھی ریاستی جارحیت سے نہ مرعوب ہو سکتی ہے، نہ متاثر۔

ایسے حساس عالمی تنازعات میں ہمیں مذہبی یا علاقائی ہمدردیوں میں بہہ کر کسی فریق کی غیر مشروط حمایت سے گریز کرنا چاہیے۔ ہماری جنگ کسی مخصوص مذہب یا ریاست کی حمایت کی جنگ نہیں، بلکہ بین الاقوامی برابری، خودمختاری اور قومی آزادی کی جدوجہد ہے۔ ہمیں عالمی
سیاست، معیشت اور سفارت میں ایک باوقار مقام درکار ہے، اور ہم ان سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔

آج ہمیں اصل خطرہ عالمی سرمایہ داری سے نہیں بلکہ نوآبادیاتی قوتوں سے ہے، چاہے وہ ایران ہوں یا پاکستان۔ لہٰذا، حاصلِ بحث یہ ہے کہ ہمیں اس تنازعے کو تاریخی اور جدلیاتی زاویے سے دیکھ کر، اپنی قومی ضرورت اور قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے، ایک خودمختار اور متوازن مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ یہی مؤقف ہماری مجموعی جنگی، سفارتی اور سیاسی پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔

بلوچ قوم گزشتہ دو صدیوں سے زائد عرصے سے نوآبادیاتی، سامراجی اور جغرافیائی استحصال کا شکار رہی ہے۔ اگرچہ بلوچ قوم کو ایران، پاکستان اور افغانستان کی ریاستی سرحدوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، اس کے باوجود اس نے اپنی قومی آزادی کی جدوجہد کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ ہر دور میں اس کی آبیاری کی ہے۔ یہ جدوجہد کسی وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی تسلسل کی حامل قومی تحریک ہے، جس کی بنیاد قومی شناخت، آزادی، اورقومی بقاء کے اصول پر استوار ہے۔

اس طویل اور صبرآزما جدوجہد میں بلوچ قوم کو نہ تو فلسطین کی نام نہاد "اسلامی مزاحمت” سے کوئی ہمدردی ملی، نہ ہی عرب دنیا سے کسی قسم کی اخلاقی یا سیاسی حمایت حاصل ہوئی۔ وہ مسلم ممالک، جو فلسطینی مظلومیت کا بیانیہ بلند کرتے ہیں، بلوچ قومی مسئلے پر ہمیشہ خاموش رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انہی مسلم ممالک میں بلوچ پناہ گزین، جو ریاستی جبر اور جنگ کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے، وہاں غیر انسانی سلوک، نگرانی، اور امتیازی سلوک کا شکار بنے۔ ان کی پروفائلنگ کی جاتی ہے، ان کی نقل و حرکت محدود ہے، آزادانہ کاروبار کی اجازت نہیں، اور وہ مستقل واچ لسٹ پر رکھے جاتے ہیں۔

دوسری جانب وہ ممالک جنہیں سرمایہ دارانہ مفادات یا مغربی استعمار کے نمائندے قرار دیا جاتا ہے، کم از کم وہاں سے بلوچ مسئلے پر کچھ اصولی موقف سننے کو ملتا ہے۔ اگرچہ یہ حمایت محدود ہیں تاہم ایک بنیادی انسانی ہمدردی کا پہلو ان کی طرف سے کسی حد تک سامنے آتا ہے۔

یہ سراسر زیادتی اور غیر منطقی توقع ہے کہ بلوچ قوم محض "امت مسلمہ” کے نام پر ان مسلم ممالک کی پالیسیوں کی غیر مشروط حمایت کرے، جو خود بلوچ قومی تشخص اور آزادی کی جدوجہد کو فتنے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہمیں بارہا فتووں، سازشی نظریات اور تہمتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہماری تحریک کو مذہب دشمنی سے جوڑ کر اسے غیرجائز قرار دینے کی کوشش کی گئی، جبکہ ہماری جنگ مذہبی نہیں، بلکہ قومی آزادی اور بقا کی جنگ ہے۔

بلوچ سرزمین ایک لینڈ لاک یا قدرتی وسائل سے محروم خطہ نہیں ہے۔ یہ ایک امیر خطہ ہے جس کے دامن میں تیل، سونا، گیس، ساحل، اوربیش بہا قدرتی وسائل موجود ہیں۔ لیکن نوآبادیاتی قوتوں نے ان وسائل پر قبضہ جما کر بلوچ قوم کو غلامی اور جبر میں دھکیل دیاگیاہے۔

یہ اصولی موقف واضح ہونا چاہیے کہ کوئی بھی طاقت، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو مذہب کے نام پر دبا نہیں سکتی۔ کسی کو محض اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہے، یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے مسلمان خطے پر حملہ کرے، اسے فتنہ الہندوستان قرار دے، اور قومی تحریک کو دین دشمنی سے تعبیر کرے۔ اس بیانیے کو رد کیے بغیر نہ تو بلوچ تاریخ کی درست تفہیم ممکن ہے اور نہ ہی اس جدوجہد کی سچائی کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

آج جب فلسطین کی مظلومیت کا بیانیہ ہمارے سماج میں شدت سے پیش کیا جاتا ہے، تو سوال اٹھتا ہے: کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دوسروں کی مظلومیت کو بغیر تنقید یا تحقیق کے تسلیم کریں، جب کہ وہی قوتیں ہماری مظلومیت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں؟ کیا انصاف کا تقاضا یہ نہیں کہ مظلومیت کو اصولوں کی بنیاد پر پرکھا جائے، نہ کہ صرف مذہبی یا جغرافیائی شناخت کی بنیاد پر؟

بلوچ قوم اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر، اپنی قومی شناخت، آزادی کی جدوجہد جاری رکھے گی۔ اگر کسی کو اس بیانیے سے اختلاف ہے یا اس پر پیشانی پر بل آتے ہیں، تو آئیں،آئندہ بھی آتے رہیں۔ بلوچ قوم کسی سے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی، نہ ہی اپنی جدوجہد کی سچائی کو کسی کے مفاد پر قربان کرے گی۔
اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں — یعنی ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی، مشرقِ وسطیٰ کی جنگی فضاء، اور فلسطین و اسرائیل تنازعہ کا تاریخی پس منظر۔ ان تمام پہلوؤں کو سمجھنا ایک باشعور بلوچ کے لیے نہایت ضروری ہے، تاکہ ہم نہ صرف اپنی رائے کو واضح اور مدلل بنا سکیں، بلکہ اپنے قومی مؤقف میں کسی قسم کے ابہام یا تذبذب کی گنجائش بھی باقی نہ رہے۔

یہ مسئلہ محض دو ریاستوں کے درمیان تنازعہ نہیں، بلکہ ایک عالمی تاریخی منظرنامے کا تسلسل ہے۔ فلسطینی جدوجہد، اسرائیل کی تاریخی زمینی دعوی،عالمی و علاقائی طاقتوں کی پالیسیوں، اورردعمل کے بدلتے رویے،یہ سب ایسے عناصر ہیں جن کا تجزیہ زمینی حقائق کی روشنی میں ضروری ہے۔ ساتھ ہی، ایران اور اسرائیل کی حالیہ کشیدگی کو محض دو متضاد ریاستوں کے ٹکراؤ کے طور پر دیکھنا کافی نہیں؛ بلکہ اسے ایک وسیع تر جیوپولیٹیکل منصوبے کا حصہ سمجھنا ہوگا، جس میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، وسائل، اور تیل اور دیگر معاملات شامل ہیں۔
بلوچ قوم ایک مقبوضہ اور مزاحمت پر یقین رکھنے والی قوم ہے۔جو نوآبادیاتی زخم، سازشوں پر مبنی بے رحم جغرافیائی تقسیم، غیر ملکی حملہ آوروں کی جنگی جارحیت، جبری الحاق اوراپنی فطری و پیدائش حق آزادی کی بازیابی کے لے برسر پیکار ہیں۔ برطانوی سامراج نے لوچستان میں جو
زخم لگائے، بلوچ قوم ان زخموں کے سب سے گہرے نشان لیے ہوئے ہے۔ انگریزوں نے بلوچ سرزمین کو اپنے مفادات کے تحت کاٹا، بانٹا اور غیر فطری ریاستی حدود کھینچ کر بلوچوں کو ایک ایسی تقسیم سے دوچار کیا جس کا مقصد صرف اور صرف ان کی زمین اور وسائل پر قبضہ تھا۔ 1947 کے بعد یہ زخم مزید گہرے ہوئے جب ایک بار پھر بغیر بلوچ قوم کی رضا مندی کے ان کی سرزمین کو ریاستی طاقت کے ذریعے ضم کیا گیا۔ اس عمل نے بلوچوں کے لیے ایک نئی نوآبادیاتی صورت اختیار کی، جو تادم تحریر جاری ہے،( جاری ہے)

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

لیاری، جھاؤ اور نصیرآباد سے تین افراد جبری لاپتہ

اتوار جولائی 20 , 2025
بلوچستان کے مختلف علاقوں لیاری، جھاؤاور نصیرآباد سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں تین افراد کے جبری لاپتہ ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، لیاری میں 17 جولائی 2025 کو 25 سالہ رکشہ ڈرائیور زاہد علی ولد عبدالحمید کو اس وقت حراست میں لیا گیا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ