قہقہوں کی جدلیات: جبر اور مزاحمت کا مکالمہ

تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون

تاریخ کے صفحات پر کچھ لمحات ایسے ثبت ہو جاتے ہیں جو صدیوں تک مقبوضہ اقوام کے اذہان میں حوصلے، مزاحمت اور آزادی کے استعارے بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی آج کی عدالت میں پیشی بھی ایسا ہی ایک لمحہ تھا۔ یہ محض ایک عدالتی کاروائی نہیں تھی، بلکہ یہ نوآبادیاتی جبر کے خلاف بے خوف قہقہوں، استقامت اور انقلابی شعور کی ایک زندہ تصویر تھی، جس نے تاریخ کے کتبہ پر اپنے نقوش ثبت کر دیے ہیں۔جب ڈاکٹر ماہ رنگ نے عدالت کے اندر کہا:”ہمیں معلوم ہے کہ وہی فیصلہ سنایا جائے گا جو فیصلہ آ چکا ہے!”

تو یہ الفاظ ایک عام قیدی کے الفاظ نہیں تھے، بلکہ یہ قابض کے نظامِ انصاف پر ایک فکری حملہ تھا۔ یہ ایک اعلان تھا کہ قابض عدالت کا فیصلہ ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ ہم اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہیں۔

اسی لمحے جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے عدالت کے اندر قہقہہ لگایا اور کہا:
"تمہارا جج بھاگ گیا!”
تو وہ قہقہہ صرف ایک جملہ نہیں تھا بلکہ پوری استعماری عدلیہ پر طنز کی گونج تھی۔ یہ قہقہہ غلامی کے ضابطوں پر تھوکا ہوا وہ انقلابی اعلان تھا جو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو سچائی اور آزادی کے راستے میں اپنی جانوں کو بھی ہنسی خوشی قربان کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

یہ منظر دیکھ کر ذہن خود بخود بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کے ان تاریخی لمحات میں چلا جاتا ہے جب وہ بھی انگریز سامراج کی عدالت میں اسی بے خوفی اور دیدہ دلیری کے ساتھ پیش ہوئے تھے۔ ان کی ہنسی بھی جبر پر طمانچہ تھی، اور آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا قہقہہ بھی اسی مزاحمتی سلسلے کا تسلسل ہے۔

تاریخ کے ہر دور میں مقبوضہ اقوام کے انقلابی راہنما ء جب استعماری عدالتوں میں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ کسی رحم کی اپیل نہیں کرتے۔ وہ انصاف کی بھیک نہیں مانگتے۔ وہ صرف ایک بات کہتے ہیں:”ہم نے تاریخ کے فیصلے سننے ہیں، تمہارے عدالتی فیصلے نہیں!”

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کا انقلابی رویہ دراصل اس فلسفے کی عملی شکل تھا جسے سارتر، فرانز فینن، اور پاؤلو فریرے جیسے دانشوروں نے "نوآبادیاتی عدالت کی شکست” کہا ہے۔ استعمار کی عدالت اس وقت بے معنی ہو جاتی ہے جب ، نوآبادی عدالت کے ڈائس پر کھڑے ہو کر اپنی بے خوفی اور مزاحمت کے ساتھ یہ ثابت کر دے کہ اس کے فیصلے پہلے ہی تاریخ نے لکھ دیے ہیں۔
جب گلزاری بلوچ کے انقلابی نعرے پولیس وین میں گونج رہے تھے اور ماہ رنگ بلوچ کی ہنسی ایک انقلابی بیانیہ بن کر فضا میں گونج رہی تھی تو یہ منظر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ جسم کو قید کیا جاسکتاہے، شریر کو مارا جاسکتاہے لیکن نظریہ کو نہیں۔ زنجیروں میں ہاتھ باندھے جا سکتے ہیں، سوچ نہیں۔

تاریخ کے لمحات ہمیشہ برابر نہیں ہوتے۔ کچھ لمحے وقت کی روانی میں بہہ جاتے ہیں، مگر کچھ پل ایسے ہوتے ہیں جو پتھر پر لکیر بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی وہ پندرہ سیکنڈ کی ہنسی ، وہ قہقہہ، اور اس کے موقف کی دو منٹ، درحقیقت تاریخ کا وہ لمحہ تھا جہاں قابض کے پورے جبر کا بیانیہ زمین بوس ہو گیا۔یہ صرف ایک مسکراہٹ نہیں تھی، یہ محض ایک قہقہہ نہیں تھا، بلکہ یہ وہ انقلابی واردات تھی جس میں صدیاں سمٹ آئیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جس میں غلامی کے طویل سائے پر روشنی کی پہلی کرن گری۔ قابض کے استبدادی نظام پر، اس کے جعلی انصاف پر، اس کے جھوٹے بیانیے پر، یہ قہقہہ ایک تازیانہ تھا۔

تاریخی اعتبار سے یہ ہنسی مقبوضہ قیدی کی جانب سے جابر کے بیانیے پر ہتھوڑا کا ایک بھاری وار ہے۔ مارکس کہتا ہے جب محکوم ہنس دیتا ہے تو وہ اس کشمکش میں استعمار کے بیانیے کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کا قہقہہ اس بات کا اعلان تھا کہ وہ جج، وہ عدالت، وہ قانون سب کچھ پہلے سے طے شدہ کھیل کا حصہ ہیں، جن کی حیثیت کٹھ پتلیوں سے زیادہ کچھ نہیں۔جب وہ قہقہہ عدالت کے ایوان میں گونجا، تو یہ قابض کی اعصاب پر ایک زخم تھا۔وہ قہقہہ ایک آئینہ تھا، جس میں قابض ریاست نے اپنی اخلاقی شکست دیکھی۔

تاریخ میں ایسے لمحے بار بار آتے ہیں جب نوآبادی،نوآباد کار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہنستا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب قابض کے ایوانوں میں خوف سرایت کرتا ہے۔ یہ ہنسی فقط لبوں کی حرکت نہیں، یہ ایک سیاسی ضرب ہے، ایک نفسیاتی دھماکہ ہے، جو قابض کے اذہان میں چھید کر جاتا ہے۔ اس قہقہے میں جبر کے تمام ستون لرز اٹھتے ہیں۔
یہ لمحہ استعارہ بن جاتا ہے، جب تاریخ خود اعلان کرتی ہے کہ ظلم کی زنجیریں اب بوسیدہ ہو چکی ہیں، اور قابض کے قوانین کھوکھلے ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جب مسکراتے ہوئے قابض کے جج پر طنز کیا کہ "تمہارا جج بھاگ گیا” تو دراصل وہ ان تمام منافق عدالتوں، جھوٹے انصاف کے علمبرداروں اور سامراجی انصاف کے اداروں پر ایک فکری حملہ کر رہی تھیں۔ اس ایک جملے اور قہقہے میں تاریخ کے سب سے بڑے فلسفیوں کا لب لباب چھپا تھا۔ یہ جملہ ایک لمحہ تھا، جو پورے جبر کے بیانیے کو جھوٹا قرار دے کر رد کر رہا تھا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب غلام قہقہہ لگا لیتے ہیں تو وہ اپنے خوف کی زنجیریں توڑ دیتے ہیں۔
فرانز فینن نے اپنی تصنیف "The Wretched of the Earth” میں لکھا کہ جب محکوم خوف سے نکل آتا ہے تو وہ جبر کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار بن جاتا ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کا قہقہہ اسی لمحے کا اظہار تھا۔یہ وہ ہنسی ہے جو نوآبادیاتی عدالت کے سامنے جبر کو برہنہ کر دیتی ہے۔ یہ بے بسی کی ہنسی نہیں، یہ فتح کی ہنسی ہے، جو قابض کے اعصاب پر چڑھ دوڑتی ہے۔

آج کیمرہ میں قید اس لمحے کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ قہقہہ ایک للکار ہے کہ جب قابض اپنی عدالتوں، اپنی جیلوں، اپنے قانون اور اپنی طاقت کے ساتھ کھڑا ہو، اور مقبوضہ صرف ایک قہقہہ لگا کر اس کی بنیادیں ہلا دے، تو سمجھ لو کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔یہ قہقہہ تاریخ کے ماتھے پر لکھا جا چکا ہے:

"ہم قید ہو سکتے ہیں، ہمارے ہاتھ باندھے جا سکتے ہیں مگر ہمارے نظریہ اور ذہن قید نہیں کیے جا سکتے۔ تم زنجیروں کو دہشت سمجھتے ہو، ہم زنجیروں میں مسکراتے ہیں، کیونکہ آزادی زنجیروں ہی سے جنم لیتی ہے۔”

دنیا کی ہر استعماری قوت کا سب سے بڑا ہتھیار جسمانی جبر رہا ہے۔ مگر تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جبر کے ہر تجربے نے انسان کے اندر مزاحمت کے نئے بیج بوئے۔ قید نے ہمیشہ سوچ کو مزید وسعت دی۔ زنجیروں نے جب جب جسم کو جکڑا، نظریے نے افق توڑ دیے۔ یہی وہ جدلیات ہے جو سامراجی طاقتوں کو سمجھ نہیں آتا کہ آزادی محض ایک اصطلاح نہیں بلکہ انسانی وجدان کی گہرائیوں میں چھپی ایک ماورائی قوت ہے جو قید خانوں سے جنم لیتی ہے، اذیت خانوں میں پروان چڑھتی ہے اور بالآخر استعمار کے تختے الٹ دیتی ہے۔
سقراط نے زہر کا پیالہ اٹھایا مگر سچ بولنے سے انکار نہ کیا۔ منصور نے "انا الحق” کہا اور دار پر چڑھ گیا۔ نیلسن منڈیلا نے ستائیس سال جیل میں گزارے مگر نسل پرستی کے نظام کے سامنے سر نہ جھکایا۔ بھگت سنگھ ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے پر جھول گیا اور قید کو مزاحمت کا استعارہ بنا دیا۔یہ تاریخ کا وہ لوح ہے کہ نظریات کو جیل کی سلاخیں قید نہیں کر سکتیں۔ جسمانی جبر، فکری آزادی کے سامنے ہمیشہ شکست کھاتا آیا ہے۔ قابض طاقتیں لاشیں گرا سکتی ہیں، لیکن فکر کے قندیل بجھانا ان کے بس کی بات نہیں۔
جب مقبوضہ زنجیر کو اپنی مسکراہٹ سے کاٹ دیتا ہے تو زنجیر اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔ جب کسی قیدی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے، وہ قید خانہ دراصل دشمن کی شکست کا پہلا منظر بن جاتا ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے:
"آزادی کا پہلا سبق قید سے شروع ہوتا ہے۔”
کیونکہ زنجیر جب فکر کو قید کرنے میں ناکام ہو جائے تو وہ قید کرنے والے کے حق میں الٹا ہتھیار بن جاتی ہے۔

آزادی کا سفر صرف میدان جنگ میں نہیں ہوتا، یہ شعور کی جنگ ہے۔ یہ اُس لمحے سے شروع ہوتا ہے جب کوئی مقبوضہ ا یہ فیصلہ لیتا ہے کہ وہ جبر کو تسلیم نہیں کرے گا۔ یہی انکار تاریخ بناتا ہے۔یہ انکار صرف سیاسی عمل نہیں بلکہ ایک وجودی فیصلہ ہے۔ یہ انسانی خودی کا اعلان ہے جو ہر نوآبادیاتی جبر کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔یہ تاریخ کا سب سےبڑا سچ ہے کہ جس دن نوآبادی اپنی زنجیروں سے ڈرنا چھوڑ دیتا ہے، وہ دن استعمارکی شکست کا آغاز ہوتا ہے۔
اسی لیے انقلابی ہمیشہ قید سے مسکرانے کا ہنر سیکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قید ان کے جسم کو محدود کر سکتی ہے، مگر ان کے آدرش، ان کے نظریات، ان کی مسکراہٹیں جبر کے ہر حصار کو توڑ دیتی ہیں۔

جب ایک انقلابی قیدی قہقہہ لگانے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ آزادی قریب ہے۔ کیونکہ جبر کا خوف جب ٹوٹ جائے تو قابض کے پاس کوئی ہتھیار باقی نہیں رہتا۔ آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے وہی کیا جو ہر بڑی انقلابی تحریک کے سپاہی کرتے ہیں یہ طنز یہ قہقہہ دراصل قابض کے پورے عدالتی نظام کی نفی ہے۔ یہ اعلان ہے کہ ہم تمہارے بنائے ہوئے قانونی ڈھانچوں کو نہیں مانتے۔ ہم تاریخ کے عدالت میں سرخرو ہیں اور تاریخ نے فیصلہ لکھ دیا ہے کہ آزادی ہماری دہلیز پر آ پہنچی ہے!

جب تاریخ اپنے دھارے بدلتی ہے تو اس کے اشارے صرف بندوق کی گھن گرج سے نہیں، بلکہ قہقہوں کی گونج سے بھی آتے ہیں۔جب قیدی مسکرا دیتے ہیں، جب ان کے ہونٹوں پر نعرے سج جاتے ہیں، جب جبر کی کوٹھریوں میں قہقہے گونجنے لگتے ہیں، تو سمجھ لیجیے کہ قابض کے تسلط کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں۔

تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ جب مزاحمت قہقہہ بن جائے، جب نوآبادی اپنی اذیت کو مسکراہٹ میں ڈھال لے، تو یہ اس کی نفسیاتی فتح ہوتی ہے۔بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو جب ہنستے ہوئے پھانسی کے پھندے پر جھولے، تو وہ جسمانی موت کے سامنے جھکے نہیں، بلکہ موت کو شکست دے گئے۔یقیناً، یہ منظر صرف ایک لمحے کی تصویر نہیں، بلکہ پوری ایک قوم کی تاریخ، درد، جدوجہد اور خودداری کا علامت ہے۔
جب بلوچ بہنیں قید میں، عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑے ہو کر وکٹری کا نشان بناتی ہیں، جب ان کے سر پر وہ شال رکھی ہوتی ہے، تو وہ محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتی،وہ بلوچ مزاحمت کی چادر ہوتی ہے، ایک پورا تہذیبی اور انقلابی بیانیہ، جو صدیوں کی جدوجہد سے جنم لیتا ہے۔
یہ انقلابی چادر، جسے وہ سر پر رکھتی ہیں، وہ بلوچ تاریخ کی اوڑھنی ہے،اس میں مکران کے ساحلوں کی ہوا بھی ہے، کوہِ سلیمان کے پہاڑوں کا جلال بھی، اور دشت کے صبر کا رنگ بھی۔
یہ شال صرف لباس کا حصہ نہیں، یہ قابض کے سامنے اعلانِ مزاحمت ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ جن قوموں کے باوقار مستقبل قید کیے جاتے ہیں، ان کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے جا سکتے ہیں، مگر ان کے زہنوں پر زنجیر نہیں ڈالی جا سکتی۔
قابض چاہتا ہے کہ اس کی جیل، اس کے ہتھکڑیوں اور اس کے تشدد سے مزاحمت کرنے والوں کی روح ٹوٹ جائے۔ مگر جب قیدی ہنستا ہے، جب وہ وکٹری کا نشان بناتا ہے، تو وہ جبر کے پورے نظام کو بے نقاب کر دیتا ہے۔
یہ ہنسی جیل کی سلاخوں سے پرے جا کر تاریخ میں محفوظ ہو جاتی ہے، جو گلزارِ مزاحمت میں کھلتے وہ انقلابی پھول ہیں جنہیں کوئی خزاں چھو نہیں سکتی

یہی اصل فتح ہے،جب بلوچ قیدی، قید خانے کو شکست دیتا ہے۔جب سر پر اوڑھی گئی شال چادر، جبر کے سامنے ایک علم بن جاتی ہے۔اور جب ہنسی، آنکھوں میں قید تاریخ کو جگا دیتی ہے۔استعمار کا جبر ہمیشہ خوف پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ قید، جبری گمشدگی ، اذیت خانے، مقدمے،یہ سب استعمار کے وہ ہتھیار ہیں جن سے وہ مقبوضہ اقوام کو خاموش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر جب کوئی انقلابی زنجیروں میں قہقہہ لگائے، جب اذیت سہنے کے باوجود اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو، تو یہ استعمار کی سب سے بڑی شکست ہے۔آزادی کا خواب کبھی شاہی محلوں سے نہیں نکلتا۔ وہ جیل کی کوٹھری میں لکھا جاتا ہے، اذیت خانوں میں پروان چڑھتا ہے، اور لاشوں کے بوجھ تلے تاریخ میں زندہ ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گلزاری بلوچ، بیبو بلوچ، بیبرگ بلوچ، شاہ جی بلوچ اور کامریڈ غفار جیسے کردار آج کی نوآبادیاتی جبر میں وہ مشعل ہیں جنہوں نے قید کے اندھیروں میں روشنی پیدا کی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو تاریخ کے دھارے موڑنے والے ہیں، یہ صرف سیاسی جدوجہد نہیں، یہ نفسیاتی اور فکری مزاحمت کا عہد ہے۔ جب ایک قوم کے بہادر بہنیں جیلوں میں حوصلہ نہ ہاریں، جب وہ زخموں کو ہنسی میں بدل دیں، جب وہ اذیت کو نظریے کی طاقت میں ڈھال لیں، تو یہ واضح اشارہ ہوتا ہے کہ تحریکیں شکست نہیں کھاتیں ،ریاستیں تھک جاتی ہیں۔بلوچ تحریک آج اسی مقام پر کھڑی ہے۔ وہ خوف سے نکل چکی ہے، اور جب خوف مر جائے تو غلامی کے شکنجے ٹوٹنے لگتے ہیں۔

تاریخ میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو صرف واقعات نہیں ہوتے بلکہ مکمل بیانیہ بن جاتے ہیں۔ ۔ جب ایک قیدی اپنے استعماری جیلر کے سامنے ہنستا ہے تو وہ اپنے ہنسنے سے جبر کے بیانیے کو رد کر دیتا ہے۔ وہ ثابت کر دیتا ہے کہ استعمار جسم کو قید کر سکتا ہے، روح اور یقین کو نہیں۔

ماہ رنگ بلوچ کی مسکراہٹ اور ان کے قہقہے بلوچ قومی جدوجہد کی روحانی بالادستی کا مظہر ہیں۔ یہ محض ایک فرد کی ہنسی نہیں، یہ ایک قوم کی اجتماعی ہمت، غیر متزلزل عزم، اور استقامت کا اظہار ہے۔ ان قہقہوں میں وہ نعرہ گونجتا ہے جو ہر غلام قوم کے دل کی دھڑکن ہے:
"ہم نے خوف کو شکست دے دی ہے، اب صرف حوصلہ باقی ہے۔”

یہ مزاحمت کی سب سے اونچی شکل ہے جب جیل کی دیواروں کے اندر کھڑے ہو کر قیدی اپنے قہقہوں سے قابض کے نظریاتی قلعوں میں دراڑیں ڈال دے۔ یہ قہقہے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو رہے ہیں کیونکہ یہ فقط انفرادی حوصلے کی کہانی نہیں بلکہ اجتماعی شعور کی عکاسی ہیں۔ ان قہقہوں میں انکار ہے، مزاحمتت ہے، اور آزادی کی وہ لو جل رہی ہے جو کسی اذیت سے نہیں بجھ سکتی۔ہر نوآبادیاتی نظام جب مزاحمت سے ٹکراتا ہے تو وہ سب سے پہلے خوف کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ لیکن جب قیدی کے چہرے پر ہنسی آ جائے تو قابض کے تمام ہتھیار بے اثر ہو جاتے ہیں۔ یہی لمحہ ہوتا ہے جب
"خوف شکست کھا جاتا ہے اور حوصلہ فتح کی دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے۔”یہ قہقہے قابض ریاست کے پروپیگنڈہ مشینری کو بھی تحلیل کرتے ہیں۔ جو لوگ ان انقلابیوں کو دہشت گرد کہہ کر، غدار کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے تمام دعوے اس لمحے جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں جب جیل میں قیدی سر اٹھا کر ہنستا ہے اور شال اوڑھ کر اپنی اور مزاحمت کا اعلان کرتا ہے۔ یہ لمحہ ثابت کرتا ہے کہ انقلابیوں کا مقصد، نظریہ اور جدوجہد وقتی نہیں بلکہ صدیوں پر محیط تاریخی تسلسل کا حصہ ہے۔

یہ قہقہے وقت کی کڑی دھوپ میں آزادی کے سائے ہیں۔ یہ ان لمحوں کی گواہی ہیں جب جبر کے سائے طویل ہوتے ہیں لیکن انقلابی ہنسی سے وہ سایہ خود بخود چھٹنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے چہروں کی یہ مسکراہٹیں بلوچ مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہیں۔
یہ تاریخ کو بتا رہی ہیں کہ استعمار کی جیت وقتی ہو سکتی ہے، لیکن جن کے دلوں میں یقین کی شمع روشن ہو، وہ کبھی شکست نہیں کھاتے۔
تحریر کو اگر سمیٹ کر ایک جملے میں کہا جائے تو وہ یہی ہوگا:”جب غلام قہقہہ لگاتے ہیں تو وقت کے جابروں کے تاج لرزنے لگتے ہیں۔”

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کوئٹہ و کیچ سے دو نوجوان جبری لاپتہ، مستونگ سے ایک نوجوان 47 روز بعد بازیاب

ہفتہ جولائی 19 , 2025
11 جولائی کی صبح 19 سالہ طالبعلم اشفاق ولد مشتاق کو اے ون سٹی فیز 2، کوئٹہ سے پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ اشفاق کا تعلق ضلع آواران کے علاقے مشکے سے ہے اور وہ ایک عام طالبعلم ہے۔ عینی شاہدین اور […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ